آنجہانی موہن پرشاد حیدرآباد کے مشہور کایستھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ حیدرآباد میں 1929ء میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا سلسلہ حیدرآباد کی مشہور درسگاہ چادر گھاٹ ہائی اسکول سے رہا ۔ وہ 27 مارچ 2015 ء کو امریکہ میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ان کے پسماندگان میں دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں ۔ ایک صاحبزادے امریکہ میں کارڈیالوجسٹ کی حیثیت سے کارفرما ہیں اور صاحبزادی کینڈا میں مقیم ہیں ۔ ان کے چار بھائی اور ایک بہن موجود ہیں ، ان کی مادری زبان اردو تھی ۔ ان کے دیگر افراد خاندان بھی اردوداں ہیں ۔ موہن پرشاد کے ایک بھائی ڈاکٹر رام پرشاد حیدرآباد کے مشہور فزیشین ہیں جن کا کلینک ملے پلی میں واقع ہے ۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی مخلص انسان ہیں اور ان کے مریض گھنٹوں اپنی باری کے انتظار میں ٹھہرے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب اردو قلمکاروں سے فیس نہیں لیتے جو ان کی اردو دوستی کا زندہ ثبوت ہے ۔
موہن پرشاد صاحب کو تاریخ سے بے حد دلچسپی تھی ۔ ان کے اکثر مضامین تاریخ ہی سے متعلق رہے ہیں ۔ ’’حیدرآباد فرخندہ بنیاد‘‘ ان کی مشہور تالیف ہے ۔ وہ بحیثیت لیبر کمشنر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔ موہن پرشاد صاحب بڑی وضعدار شخصیت کے حامل تھے اور ان کا دائرہ احباب بھی وسیع تر تھا ۔
اردو زبان ہندوستان کی قومی زبان ہے ۔ اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں نے اردو ادب میں اپنی نگارشات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ منشی پریم چند ، چکبست وغیرہ اردو ادب کے آسمان کے چمکتے ستارے ہیں ۔ آصف جاہی دور حکومت میں اردو پر خاص توجہ دی گئی ۔ آصف سابع اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خان بذات خود اردو کے نامور شاعر تھے ۔ قطب شاہی دور حکومت میں بھی قطب شاہی بادشاہوں نے اردو ادب کو پروان چڑھانے میں نمایاں حصہ لیا ۔ صدیوں تک اردو ملک کی اہم زبان رہ چکی ہے ۔
مختلف اصناف سخن میں اردو ادباء اور شعراء نے بیش بہا اضافہ کیا ۔ اردو شعراء میں میر تقی میر ، مرزا غالب ، چکبست ، نمایاں حیثیت کے حامل ہیں ۔ رباعی گوئی میں حضرت امجد حیدرآبادی ، اپنی مثال آپ ہیں ۔ موجودہ شعراء میں فیض احمد فیض ، مخدوم محی الدین ، فراز اور شاہد صدیقی وغیرہ نے اردو ادب میں ناقابل فراموش یادوں کا سلسلہ چھوڑا ہے ۔ اردو ادب کے فروغ میں مشاعروں نے بھی چار چاند لگائے ۔ شہر حیدرآباد میں مختلف ادبی تنظیمیں ماہانہ علمی مذاکرے اور مشاعروں کا انعقاد کرتی ہیں ۔ اس طرح نوجوان طبقہ بھی ادبی دولت سے استفادہ کررہا ہے ۔ ذیل میں چند مشہور اشعار نمونتاً درج کئے جاتے ہیں ۔
وقت جاتا ہے تو پھر لوٹ کے آتا ہی نہیں
بے وفا دیکھ نہ جا ٹھہر بھی جا آج کی رات
کہو ، بندہ پرور ہو کس سونچ میں
ابھی کیا کوئی امتحان رہ گیا
جو کلی مسکرائی وہ مرجھاگئی
زندگی کی حقیقت نظر آگئی
شجیع آج تنہا چمن میں گئے تھے
بہت ان کے نقش قدم یاد آئے
دو سو برس میں وجد ، سراج و ولی کے بعد
اٹھے ہیں جھومتے ہوئے خاک دکن سے ہم
ہم نے نقش حواس خام نہیں چھوڑا ہے
کام چھوڑا ہے کہیں نام نہیں چھوڑا ہے
یہ کیسی بزم میں ہم آج لائے جاتے ہیں
جہاں چراغ نہیں دل جلائے جاتے ہیں
سوق آنسو ہی زبان غم و آلام نہیں
کچھ تبسم بھی یہ مفہوم ادا کرتے ہیں
اس کے انداز کرم خاص ہوا کرتے ہیں
دل بڑھانا ہو تو دل توڑ دیا کرتے ہیں
کسی آئین کی پابند نہیں دین ان کی
چاہتے ہیں تو خطاؤں پہ بھی عطا کرتے ہیں
حیدر اٹھارہے ہیں جنازہ رسولؐ کا
ماتم سرا بنا ہے مدینہ رسولؐ کا
سر کو جھکاکے روتی ہے بابا کی سوگوار
زہرا کی موت ہوگئی مرنا رسولؐ کا
دریا چڑھا ہوا تھا مگر عزم تھا مرا
کشتی میری حیات کی جو پار اترگئی
پانچ حرفوں سے نگینہ بن گیا
رفتہ رفتہ دیکھ زینہ بن گیا
خوابگاہ احمد مرسل ہے یہ
واسطے دین کے مدینہ بن گیا
مٹا کر آپ کو عثمانؔ یہی کہتا ہے ہر اک سے
کوئی شاہ نجف کی بندگی کو سمجھا تو میں سمجھا
ناز و ادا سے آپ کا آنا تو دیکھے
تعظیم کو کھڑی ہے قیامت بھی راہ میں
کسی نے دست حنائی سے پونچھ کر آنسو
لگادی آگ میری اشک بار آنکھوں میں