امجد خان
آر ایس ایس راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ قوم پرستی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کی قوم پرستی حب الوطنی کا یہ حال ہے کہ آزادی کے بعد کئی دہوں تک بھی ناگپور میں واقع اس کے ہیڈکوارٹر پر قومی ترنگا نہیں لہرایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ آر ایس ایس قائدین نے مجاہدین آزادی کے خلاف انگریز سامراج سے مخبری کی۔ آج ملک میں آر ایس ایس کی سرپرستی میں ہندوتوا ایجنڈہ پر جس طرح کام ہورہا ہے اس کی خواہش تو ہندوستان کے دشمن ملک رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر دشمن ملکوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ مذہب کے نام پر آپس میں لڑتے رہیں۔ ان کے درمیان دشمنی و عداوت کا سلسلہ جاری رہے۔ حال ہی میں کشمیر میں سرحد پار دہشت گردوں کے فوجی کیمپ پر حملہ میں 5 مسلم فوجی بھی مارے گئے۔ جس پر کئی سیاستدانوں کے تبصرے سامنے آئے ان میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت کا بھی ایک تبصرہ سامنے آیا جس میں انھوں نے آر ایس ایس کی روایتی خود ساختہ قوم پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ موہن بھگوت کا کہنا تھا کہ صرف تین دن کی تربیت آر ایس ایس کارکنوں کے لئے ملک کیلئے جنگ لڑنے کافی ہے۔ اس کے برعکس ہندوستانی فوج کو جنگ کے لئے تیار ہونے کے لئے 6 تا 7 ماہ درکار ہوں گے۔ کانگریس، بہوجن سماج پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے موہن بھگوت کے اس بیان اور آر ایس ایس کارکنوں و ہندوستانی فوجیوں کے درمیان تقابل کی شدید مذمت کی۔ مایاوتی کے خیال میں موہن بھگوت کا بیان پریشان کن اور تضحیک آمیز ہے۔ مایاوتی نے بھگوت پر طنز و طعنوں کے تیر برساتے ہوئے ان سے استفسار کیاکہ اگر انھیں اپنے انتہا پسند سویم سیوکوں پر اتنا ہی بھروسہ اور اعتماد ہے تو پھر انھوں نے سرکاری مصارف پر اپنی سکیورٹی کے لئے اسپیشل کمانڈوز کو تعینات کیوں کروایا۔ بی ایس پی سربراہ کے مطابق ایک ایسے وقت جبکہ فوج کئی ایک چیلنجس کا سامنا کررہی ہے آر ایس ایس سربراہ کا بیان فوج کے حوصلے پست کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنے اس بیان کے لئے بھگوت کو سارے ملک سے معذرت خواہی کرنی چاہئے۔ آر ایس ایس پر شدید تنقید کرتے ہوئے مایاوتی نے بھگوت کو مشورہ دیا کہ وہ انھیں اپنے سویم سیوکوں پر جو بھرم ہے یا ان کے بارے میں خوش فہمی ہے اسے نکال دیں کیوں کہ آر ایس ایس اب ایک سماجی تنظیم باقی نہیں رہی بلکہ تیزی سے ایک سیاسی تنظیم بنتی جارہی ہے۔ اس کے سویم سیوک سماجی خدمات سے پہلوتہی کرتے ہوئے بی جے پی کی انتخابی سیاست میں مصروف دیکھے جارہے ہیں۔ آر ایس ایس کے اکھل بھارتیہ پرچار پرمکھ منموہن ویدیہ کا دعویٰ ہے کہ موہن بھگوت نے فوج کی تضحیک نہیں کی بلکہ ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی آر ایس ایس سربراہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس میں انھیں اور ان کے سیوکوں کو ہاتھ میں بمبو تھامے سرحد پر جاکر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے مشورے دیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف مجلس کے اسد اویسی کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ جموں میں جاں بحق 5 مسلم سپاہیوں کی قربانیوں پر وہ لوگ کیوں خاموش ہیں جو بار بار مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ ان کا اشارہ دراصل سنگھ پریوار کی جانب تھا جو ہر مسئلہ پر مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اُٹھاتا ہے۔ انھیں اپنے ان سوالوں پر شرم بھی نہیں آتی اور بڑی بے شرمی سے اپنی بکواس کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ اس دوران فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ ہندوستانی فوج شہیدوں کی شہادت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں یقین نہیں رکھتی۔ فوج میں تمام مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں وہی کرتے ہیں جو فوج کی انداز کارکردگی کے بارے میں واقفیت نہیں رکھتے۔ اس فوجی عہدیدار نے موہن بھگوت یا اسد اویسی کے نام نہیں لئے۔