مولوی عبدالحق بحیثیت ایک مکتوب نگار

ڈاکٹر اقبال ثریا
مولوی عبدالحق صاحب ایسی شخصیت تھے جنہوں نے غم اردو میں نہ صرف اپنی ساری زندگی بلکہ اپنی متاع زندگی بھی لٹادی اور مرتے دم تک اردو کی ترقی اور تحقیق و تالیف کا چراغ روشن کئے رہے ۔ اردو کی جو خدمت انھوں نے کی ہے شاید ہی کوئی دوسرا شخص اتنا کچھ اردو کیلئے کرپایا ہو ، انکی یہ خدمت قابل ستائش ہے ۔ اپنی زندگی کے قیمتی شب و روز وہ اس کوشش میں لگائے رہے کہ طائر اردو کو ایسا طاقتور بنادیں کہ وہ حد پرواز سے بھی آگے پرواز کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے ۔ ان کی یہ کوششیں کافی حد تک باآور بھی ثابت ہوئیں اور اردو انکے سایہ رحمت میں نازوں سے پلی ، آزمائشوں سے گذری ، مشکلوں پہ فتح پھائی اور بلندیوں پر پہنچی ۔ مولوی صاحب کی انہی کوششوں کی وجہ سے ادبی دنیا انہیں ’’بابائے اردو‘‘ کے نام سے جانتی ہے ۔

مولوی صاحب کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انجمن ترقی اردو اور دارالترجمہ جیسے ادارے سارے ملک میں پھیل گئے ۔ انجمن ترقی اردو کا وجود اگرچہ کہ1903 میں ہوچکا تھا لیکن ابتداء میں اس کی حیثیت ایجوکیشنل کانفرنس کی سی تھی ۔ 1911ء میں مولوی صاحب اسکے سکریٹری منتخب ہوئے اور اردو کے دئے کو انجمن ترقی اردو کے ذریعہ فروزاں کیا ۔ 1938 ء میں انجمن کا دفتر دلی منتقل ہوگیا تھا لیکن جب ملک کی تقسیم کا اعلان ہوا تو فسادات پھوٹ پڑے اور ہندوستان میں اردو کا گلشن اجڑ گیا اور متاع کارواں بھی لٹ گیا تو وہ ناشاد و نامراد اپنی ناکام حسرتوں کے ساتھ بچا کچا متاع لیکر پاکستان منتقل ہوگئے ۔ مولوی صاحب عالم قناعت میں زندگی گزارنا پسند نہیں کرتے تھے اس لئے نئے چمن اور نئے آشیانہ کی تگ و دو میں نہ صرف پاکستان منتقل ہوئے بلکہ وہاں بھی انجمن ترقی اردو کا دفتر کوشش کرکے قائم کیا اور اردو یونیورسٹی کی کوششیں بھی شروع کردی ۔ ظفر الرحمن صاحب کو لکھے گئے خط سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں انجمن ترقی اردو کے قیام اور اس کی تباہی کے بارے میں غلام ربانی صاحب کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’یہ ایک بیج تھا جو اڑتا اڑتا اورنگ آباد کی زرخیز زمین میں آپڑا تھا ۔ چند ہی روز میں یہاں کی خوش آب و ہوا کی بدولت اس میں انکور پھوٹے ، کونپلیں نکلیں اور ہوتے ہوتے یہ خوشنما پورا ایک تناور درخت ہوگیا اور اس نے وہ نشاط انگیز بہاریں دیکھی ہیں جو کم اداروں کو نصیب ہوتی ہیں ۔ بہار کے بعد خزاں کا آنا لازم ہے ۔ اب وہ خزاں کی بہاریں دیکھ رہا ہے اور اس کے ساتھ میں بھی یہ ساری منزلیں طے کررہا ہوں‘‘ (خطوط عبدالحق ص 230)

ظفر الرحمن کے انتقال پر میمونہ بنت ظفر الرحمن کو خط لکھتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کل تمہارا خط آیا تو میں کیا کہوں کیا دکھ اور رنج ہوا انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ خدائے تعالی تم سب کو صبر جمیل عطا کرے ۔ افسوس اب حیدرآباد میں ایسا کوئی نہ رہا جسے میں اپنا دوست یا رفیق کہہ سکوں‘‘ ۔ (خطوط عبدالحق ص 104)
مولوی صاحب جب خوشگوار موڈ میں ہوں تو اس کا اثر مکتوبات میں بھی نمایاں نظر آتا ہے اور خطوط میں رنگینی اور دلکشی بڑھ جاتی ہے ۔ ساجد علی صاحب کا شکریہ اس خوبصورت انداز سے ادا کرتے ہیں ۔
’’کل مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے کچھ تمباکو بھیجا ہے ۔ میں اس عنایت کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ استعمال کے بعد مزید شکریہ ادا کروں گا ۔ اگر اچھا نکلا تو ہر کش آپ کی کشش کو یاد دلائے گا‘‘ (خطوط عبدالحق ص 118)
مولوی صاحب لفظوں کے بازیگر تھے جو لفظوں پر اپنی گرفت کبھی کمزور پڑنے نہیں دیتے تھے ۔ افکار کے دریا کو جملے کے کوزہ میں بند کرنے کا گُر انھیں اچھی طرح آتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر سادہ ہونے کے باوجود لوگوں کے دل و دماغ کے پرخچے اڑادیتی ہے ۔ مولوی صاحب کے مکتوبات میں طنز کے نشتر بھی کبھی کبھی ، کہیں کہیں اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور مزاح کی چاشنی بھی اپنی شیرینی بکھیرتی نظر آتی ہے ۔ مولوی صاحب نے غالب کی طرح دلوں کو طنز کے نشتروں سے زخمی نہیں کیا ۔

مولوی صاحب زندہ دل اور ظریف انسان تھے ، ظرافت کی حد یہ ہے کہ بستر مرگ پر ہیں لیکن رنجیدہ و ملول ہیں ، نہ پژمردہ بلکہ ظرافت نے اس وقت بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ، لیٹے لیٹے کہتے ہیں
’’میرا جی چاہتا ہے کہ کسی ایسے مہینے میں مروں جس میں کوئی بڑا آدمی نہ مرا ہو مگر سارے مہینے تو گھرے ہوئے ہیں ۔ جنوری میں محمد علی جوہر سدھارے ، فروری میں غالب رخصت ہوئے ، مارچ سرسید کے حصے میں آیا ، اپریل میں علامہ اقبال نے کوچ کیا ۔ جون بہادر یاد جنگ کے حصے میں آیا ، ستمبر میں محمد علی جناح نے وفات پائی ، اکتوبر میں لیاقت علی نے رخت سفر باندھا ، نومبر میں ظفر علی خان نے داعی اجل کو لبیک کہا اور دسمبر میں حالی چل بسے ۔ اب لے دے کے تین مہینے رہ گئے ۔ مئی ، جولائی اور اگست ۔ مئی اور جولائی سخت گرمی کے مہینے ہیں ۔ ان میں کون صاحب ذوق مرنا پسند کرے گا ۔ ہمارے خیال سے اگست کا مہینہ ٹھیک رہے گا‘‘ ۔ (ہندوستانی ادب کے معمار عبدالحق ص ۔ 44)
اورنگ آباد کی صاف اور پربہار ہوا انھیں مشک و عنبر سے زیادہ خوشبودار محسوس ہوتی تھی ، وہاں کے کوہ اور چشموں کی شورش انھیں جھرنوں کی مدھر جھنکار سے بھی زیادہ پیاری لگتی تھی ۔ اسکے علاوہ رابعہ درانی کے مقبرے کے قریب موجود ان کا بنگلہ ان کے کاشانہ دل میں ایسا مکیں تھا کہ اس کے سامنے ساری دنیا کے خوبصورت نظارے بھی ہیچ لگتے تھے ۔ سید ساجد علی صاحب کو لکھے گئے خط سے مندرجہ بالا باتوں کا احساس ہوتا ہے
’’آپ کا اشفاق نامہ پہنچا ۔ اسے پڑھ کر تھوڑی دیر کیلئے دوسرے عالم میں جا پہنچا ۔ اورنگ آباد کی صحبتوں ، رفیقوں اور احباب کی محبت ، عنایت ، کالج اور انجمن کی سرگرمیوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرگیا ۔ اس براعظم پاک و ہند کا شاید ہی کوئی بڑا چھوٹا شہر قصبہ و قریہ ایسا ہو جس کی خاک میں نے نہ چھانی ہو ۔شہر اور قصبے تو میری جولانگاہ تھے ہی ۔ پہاڑوں ، جنگلوں ، دریاؤں اور سمندروں کی بھی جی بھر کے سیر کی جن دنوں مجھ پر اردو زبان کا جن سوار تھا اور ہندی والوں اور کانگریس حکومتوں سے معرکہ آرائی تھی تو میں سچ مچ زمین کا گز بنا ہوا تھا ۔ زندگی کا وہ دور عجیب و غریب تھا ۔ اگر تحریر میں لاؤں تو الیف لیلہ کی داستان معلوم ہوگی ۔ اس سرگردانی اور آوارہ گردی میں کبھی کبھی میرا قیام ایسے پرفضا صحت افزاء اور خوش منظر مقامات میں بھی رہا جنھیں دیکھ کر خدا کی قدرت نظر آتی تھی ۔ لیکن یقین جانئے اورنگ آباد کی یاد وہاں بھی گدگدائی تھی‘‘ (خطوط عبدالحق ص 174)

مکتوبات سے پتہ چلتا ہے کہ مولوی صاحب کو کراچی شہرکافی پسند آیا تھا ، کراچی کو انھوں نے نہ صرف خوبصورت ، صاف ستھرا شہر کہا تھا بلکہ ایک ایسا شہر کہا تھا جس کی نظیر ہندوستان میں نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ وہاں کی زندگی کی آسانیاں اور ہر چیز کی فراوانیاں بھی انھیں کافی بھاگئیں تھیں ۔ ظفر الرحمن صاحب کو لکھے گئے خط میں لکھتے ہیں ۔’’یہاں زندگی کی سب آسانیاں میسر ہیں اور غذا تو یہاں اس قدر سستی اور اس قدر افراط سے ہے کہ شاید دنیا کے کسی ملک میں نہ ہو ۔ روزانہ دعوتیں ہوتی رہتی ہیں اور ان دعوتوں میں ہمیں پچیس یا پچاس ساٹھ آدمی نہیں ہوتے بلکہ سو سو ، دو دو سو ، پانچ پانچ سو ، کھانے اعلی درجے کے نہایت نفیس ، مختلف قسم کے دس دس ، بارہ بارہ مگر جو چیز نہیں ملتی وہ کتاب ہے ۔ اس لئے جہاں جہاں سے مجھے کتابیں ملتی ہیں ، جمع کرتا رہتا ہوں‘‘ (خطوط عبدالحق ص 97)
مولوی صاحب نے اپنے مکتوبات کو رنگین بنانے کیلئے نہ ہی شاعرانہ وسائل کا سہارا لیا ہے نہ ہی تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعہ عبارتوں کو سجانے سنوارنے کی کوشش کی ہے ، نہ ہی تحریروں کو تخیلات کی رنگینیوں سے لالہ زار کرنے میں لگے رہے ۔ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ چمنستان سرسید کا ایسا گل تھے جس کی آبیاری سرسید احمد صاحب نے خود اپنے ہاتھوں سے کی تھی اور اس گل نے سرسید احمد صاحب کا سارا رنگ و روغن اپنے اندر سمیٹ لیا تھا ۔ اس لئے سادگی ، بے خوفی ،صاف گوئی اور خلوص ہی انکے اسلوب کا انداز بیان ہے ، اس کے اسلوب میں جوش ، ولولہ اور زور انکی بے خوفی اور بے باکی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے اسی زور بیان کی وجہ سے کہا تھا کہ عبدالحق کی آواز میں مردانہ بے خوفی اور صاف گوئی موجود ہے ۔
آخری عمر میں مولوی صاحب زندگی سے بیزار ہوچکے تھے ، اپنے اور غیروں کے پے درپے حملے ، کبرسنی ، کمزوری ، بیماری ، مخلص دوستوں سے دوری اور ان سب سے بڑھ کر وہ بینائی سے بھی ایسے معذور ہوچکے تھے کہ کتابیں پڑھنا تو دور کی بات خود اپنا لکھا آپ پڑھنے کیلئے بھی ترسنے لگے تھے ۔ایسے میں وہ اپنی زندگی ہی سے نہیں بلکہ قوم و اردو کیلئے کی گئی قربانیوں سے بھی کافی بیزار رہنے لگے تھے ۔ یافعی صاحب کو لکھے گئے خط سے اس بیزاری کا پتہ چلتا ہے
’’بہرحال زندہ ہوں اور کام کئے جاتا ہوں لیکن جینے سے بیزار ہوں ، جینے میں اب کچھ لطف نہیں رہا جس کے لئے میں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا وہ اب میرے لئے عذاب جان ہوگیا ہے ۔ کیا اچھا ہوتا میں دلی کے فسادات میں ہلاک کردیا جاتا اوریہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا‘‘ (خطوط عبدالحق ص 247)

کراچی میں مولوی صاحب پیچش اور یرقان میں مبتلا ہوگئے تھے گھر پر بہترا علاج معالجہ کروایا گیا ،افاقہ کی کوئی صورت ظاہر نہ ہوئی تو 15 مئی 1941 ء کو جناح سنٹرل اسپتال میں داخل ہوئے جہاں کافی افاقہ ہوا لیکن گرمی کی شدت کی وجہ سے مرض عود کر آگیا ۔ مولوی صاحب کو مری میں جو نسبتاً سرد مقام ہے منتقل کرنے کے بارے میں مشورہ کیا جارہا تھا ، اخبارات میں اس خبر کے چھپ جانے پر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے تار کے ذریعے مولوی صاحب کو مری میں نہ صرف انکا مہمان بننے کی دعوت دی بلکہ ملٹری اسپتال میں اپنے ذاتی فزیشن سے علاج کروانے کا وعدہ کیا ۔ جسے مولوی صاحب نے قبول کرلیا اور مری چلے گئے تھے ۔ جہاں کافی دیکھ بھال ہوئی اور طرح طرح کے معالجات کئے گئے اور مسلسل دو ماہ تک امتحانات کئے گئے جس سے پتہ چلا کہ دراصل انھیں پیچش و یرقان نہیں بلکہ جگر کا سرطان تھا اور سرطان کا کوئی علاج اب تک دریافت نہ ہوپایا تھا ۔ آخر اس موذی مرض سے افاقہ ہونا تھا نہ ہوا اور ایسی عظیم ہستی ، ایسی برگزیدہ ، مخلص ہستی اس دار فانی سے 14 اگست 1941ء کو کوچ کرگئی لیکن اس آفتاب اردو نے لعل بدخشاں کا ایک ڈھیر اردوداں طبقہ کیلئے چھوڑ گیا ۔ اگست کے مہینے میں موت کا فیصلہ خود انھوں نے ہی اپنی مرضی سے کیا تھا اور خدا کی قدرت نے بھی ان کی مرضی میں اپنی مرضی شامل کرکے ان کی عزت افزائی کی ہے ۔ ’’ہمارے خیال میں اگست کا مہینہ ٹھیک رہے گا‘‘