محمد ریاض احمد
پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو ہندوستانی جہد کار کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر امن کا نوبل انعام دیئے جانے پر لوگ خاص کر پاکستانی خوش دکھائی نہیں دیتے۔ جیسے ہی نوبل انعام کے لئے ملالہ کے نام کا اعلان کیا گیا آن لائن تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں 90 فیصد تبصرے ایسے تھے جن میں ملالہ یوسف زئی کی بجائے، امن کا نوبل انعام دنیا کے سرفہرست فلاح کار غریبوں کے ہمدرد بھوکوں و محتاجوں کے دوست، بے سہارا خواتین کے لئے آسرا بننے والے یتیموں و یسیروں کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں سہارا فراہم کرنے میں سب سے آگے رہنے ، ذہنی و جسمانی معذورین کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں طبی امداد بہم پہنچانے میں سبقت لے جانے والے مولانا عبدالستار ایدھی کو دینے کی وکالت کی گئی ہے۔ آن لائن تبصروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی اور سربراہ مولانا عبدالستار ایدھی کو نوبل انعام شاید اس لئے نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اپنے ملک کی زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے انکار کیا ہے۔
مولانا عبدالستار ایدھی کو نوبل انعام کا حقیقی حقدار قرار دینے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جو فلاحی خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک کے فلاحی ادارے پیش نہیں کرسکتے۔ صرف آنجہانی مدر ٹریسا ہی ان کی ہم پلہّ تھیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا قیام اور پھر اس کے ذریعہ انجام دی گئیں خدمات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مولانا عبدالسار ایدھی کی شخصیت کے سامنے تمام ایوارڈس اعزازات و انعامات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اپنی ماں کی بیماری اور موت کے باعث بیمار و مجبور وہ یتیموں و یسیروں اور حالات کی ستائی ہوئی عورتوں و لاوارث شیرخواروں کی مدد کے جذبہ کو لئے عبدالستار ایدھی آگے بڑھے اور آج وہ دنیا کی سب سے بڑی امبولینس سرویس چلاتے ہیں۔ ان امبولنس کے ذریعہ دہشت گردانہ واقعات، آفات سماوی کے سانحات اور حادثات میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ مہلوکین کی نعشوں کی منتقلی عمل میں آتی ہے۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر مقامات پر بھوکوں کے پیٹ بھرے جاتے ہیں، غریب بیماروں کا مفت علاج کرایا جاتا ہے۔ مولانا عبدالستار ایدھی کی انسانیت دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایدھی فاؤنڈیشن کے ذریعہ ایسے 20 ہزار شیرخواروں کی پرورش کی جنہیں احساس گناہ اور سزا کے خوف سے ان کے ماں باپ نے چھوڑدیا تھا۔ مولانا عبدالستار ایدھی نے ہزاروں بے سہارا لڑکیوں و خواتین کو آسرا فراہم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ انہوں نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 50 ہزار یتیم و یسیروں کو بسایا بیماروں کی موثر انداز میں دیکھ بھال کے لئے 40 ہزار نرسیس کو تربیت فراہم کی۔ وہ صرف پاکستان میں تقریباً 400 مراکز بہبود چلا رہے ہیں۔ مولانا عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ خدمت خلق میں جو سکون ہے وہ کسی اور کام میں نہیں۔ ان کے خیال میں کوئی مذہب انسانیت سے بالاتر نہیں ۔ انہیں مصیبت زدوں کے آنسو پونچھ کر اور ان کے چہروں پر کھلی مسکراہٹیں دیکھ کر قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔
1986ء میں رامن میگیسے ایوارڈ، لنین پرائز، بلزان پرائز 2006، میں گاندھی پیس پرائز کے بشمول 30 سے زائد عالمی ایوارڈس حاصل کرنے والے مولانا عبدالستار ایدھی 1985 میں نشان امتیاز جیسا پاکستان کا اعلیٰ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ عام پاکستانیوں اور دنیا میں فلاحی و خیراتی خدمات انجام دینے والوں کا کہنا ہے کہ مولانا عبدالستار ایدھی کی غیر معمولی خدمات کے باعث ان کی شخصیت کے سامنے کسی ایوارڈ کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ ایوارڈس کے لئے خود مولانا ایدھی کی شخصیت ایک اعزاز ہے۔ واضح رہے کہ 2010ء میں یونیورسٹی آف بیڈ فورڈ شائر کی جانب سے مولانا عبدالستار ایدھی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی جس سے اس یونیورسٹی کے وقار میں اضافہ ہوا۔ 1928ء میں ہندوستانی ریاست گجرات کے شہر نیتوا میں پیدا ہوئے ایدھی پر اپنی ماں کی بیماری اور موت کا گہرا اثر پڑا جس کے بعد بے سہارا خواتین کو سہارا، یتیموں و یسیروں سے شفقت، منشیات کے عادی افراد کے لئے مراکز بازآباد کاری، ذہنی معذورین کو رہائشی و طبی سہولتوں کی فراہمی میں وہ ایسے جٹ گئے کہ خود اپنے آپ کو بھلا دیا۔ ان کے ان نیک کاموں میں ان کی نیک دل بیوی بلقیس ایدھی نے اہم رول ادا کیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے آسرا گھروں میں رہنے والے مرد و خواتین یتیم و یسیر بچے اور نرسیس اور ڈاکٹر سب کے ساتھ انہیں امی ابا کے نام سے بلاتے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی خدمات کو صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ افریقی ممالک ، مشرق وسطیٰ، قفقاز کے علاقہ مشرقی یوروپ اور امریکہ میں بھی راحت و امدادی کام انجام دیئے۔ ان کی بے مثال خدمات کے پیش نظر ہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے مولانا عبدالستار ایدھی کو امن کا نوبل انعام دیئے جانے کی سفارش کی تھی۔ تاہم نوبل کمیٹی کو شاید مولانا کی خدمات پسند نہیں آئیں یا پھر انہیں اس ضعیف انسان دوست ایدھی کو اس ایوارڈ سے نوازنے کے اشارے نہیں ملے… اگر دیکھا جائے تو ملالہ یوسف زئی کسی بھی طرح سے مولانا عبدالستار ایدھی کی عظمت ان کی بڑائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی نے کبھی بھی نوبل انعام حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انہوں نے صلہ کی تمنا کئے بناء خدمت خلق کو اپنا نصب العین بنائے رکھا اور ان کے سامنے تڑپتی بلکتی انسانیت ہی سب سے اہم رہی۔ مولانا عبدالستار ایدھی جیسی عظیم شخصیت کو امن کا نوبل انعام نہ دیئے جانے پر سوشل میڈیا میں ان کے چاہنے والے سینکڑوں مرد و خواتین نے گہرے تاسف کا اظہار کیا۔ انگریزی روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ کی کالم نویس ماروی سرمد نے ٹوئٹر پر پوسٹ کردہ پیام میں کہا کہ یہ ہمارے لئے سیاہ دن ہے۔ ایک اور غدار کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔
مغرب آخر اپنے ہی لوگوں کو اعزازات سے کیوں نوازتا ہے؟ ملالہ کو نوبل انعام پاکستان کی شبیہ متاثر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔ ماروی سرمد کے خیال میں ملالہ نے آخر ایسا کونسا کارنامہ انجام دیا جو دوسروں کے لئے حوصلے کا باعث بنا۔ ایک اور شخص نے ٹوئٹ کیا کہ اصل ہیرو تو ایدھی ہیں۔ پاکستان کے بابائے نیوکلیر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا HEC کے ڈاکٹر عطاء الرحمن نے 1980ء میں کیمسٹری کے تین نوبل لاریٹس کے کام کو مکمل طور پر منفی ثابت کر دکھایا اس کارنامہ کے لئے وہ نوبل انعام کے مستحق تھے، لیکن نوبل انعام کمیٹی نے ان کے نام پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سچ کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کے کٹر مسلم اور پاکستانی ہونے کے باعث انہیں اس اعزاز سے محروم رکھا گیا ہو۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ملالہ کو مبینہ طالبان کی ایک گولی نے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچادیا جبکہ مولانا عبدالستار ایدھی نے ایک نہیں دو نہیں ہزاروں ملالاؤں کو بچایا ہے۔ انہیں اپنے آسرا گھروں، نرسنگ ہومس میں پناہ دی ہے۔ اگر مولانا عبدالستار ایدھی کو نوبل انعام دیا جاتا تو وہ خود اس انعام کے بانی الفرڈ نوبل اور اس کے قائم کردہ انعام کے لئے اعزاز ہوتا۔جہاں تک ملالہ یوسف زئی کا سوال ہے ۔ اس لڑکی نے طالبان کے خلاف آواز ضرور اٹھائی ہے لیکن کسی مقصد کیلئے جان دینا اتنا اہم نہیں ہے جتنا دوسروں کی جانیں بچانا ، ان کی دل جوئی کرتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ، ان کے چہروں پر مسکراہٹوں کو واپس لانا اہم ہوتا ہے ۔ مولانا عبدالستار ایدھی اور ملالہ میں یہی فرق ہے کہ اس لڑکی کی جان جاتے جاتے رہ گئی اور مولانا ایدھی نے اتنے ہزاروں لوگوں کی حفاظت کی جن کی زندگیوں کے چراغ گل ہورہے تھے ۔
mriyaz2002@yahoo.com