مولانا ظفر علی خان کی نایاب کتاب ’’خیابان فارس ‘‘

آرکائیوز کے ریکارڈ سے ڈاکٹر سید داؤد شریف

مولانا ظفر علی خان اردو کی ان گنی چنی شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنہیں زبان اور ادب کے ایک سے زیادہ شعبوں میں اور اصناف پر نہ صرف یہ کہ عبور حاصل تھا بلکہ ہر شعبے اور صنف میں انہیں منفرد اور ممتاز مقام حاصل تھا ۔ وہ ایک بے مثال ،مترجم ،بلند پایہ صحافی ،قادر الکلام شاعر اور شعلہ بیان مقرر تھے ۔ وہ سابق ریاست حیدرآباد سے طویل عرصے تک وابستہ رہے ۔

ظفر علی خان نے میر محبوب علی خان کے عہد میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں قیام حیدرآباد کے دوران اس وقت کے وائسرے لارڈ کرزن کی انگریزی تصنیف پرشیا اینڈوی پرشین کوئسچن persia and the persian question کا اردو میں ترجمہ کیا تھا جو خیاباں فارس کے نام سے شائع ہوا ۔ کرزن جیسے زبردست ،مغرور اور تند خو وائسراے نے خواہش ظاہر کر کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر خیابان فارس کا نسخہ ظفر علی خان کے ہاتھوں حاصل کیا تھا ۔ ظفر علی خان نے جو اس وقت ریاست حیدرآباد کے معتمد عدالت ،پولیس اور امور عامہ کے دفتر میں مترجم تھے ان محکمہ جات کے معتمد مولوی عزیز مرزا کے نام ایک درخواست لارڈ کرزن کی کتاب پرشیا اینڈدی پرشین کوئسچن کے ترجمے کی اجازت کے سلسلے میں پیش کی ۔ انہوں نے اس درخواست میں یہ لکھا کہ مصنف (کرزن ) کے خوبصورت اور متاثرکن طرز تحریر نے کتاب کو بے حد دل کش اور دلچسپ بنادیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے جیسا پابندی سے نہ پڑھنے والا بھی باقاعدہ اور پابندی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے میں تبدیل ہوگیا ہے اور انہوں نے ضخیم کتاب ایک ہفتے کے اندر پڑھ لی ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہوں نے درخواست میں تحریر کیا کہ وہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایران پر ایک وقیع کتاب اردو داں طبقے کو مہیا ہوسکے ۔ درخواست کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ ترجمے کیلئے اصل کتاب کے مصنف کی اجازت لینی ہوگی ۔ اس لئے وہ استدعا کرتے ہیں کہ ان کی درخواست رزیڈنٹ کے پاس بھیجی جائے تا کہ وہ اسے اپنی سفارش کے ساتھ لارڈ کرزن کے ہاں روانہ کریں ۔ ظفر علی خان کی استدعا پر لارڈ کرزن کی اجازت کیلئے رزیڈنسی سے مراسلت کی گئی اور رزیڈنسی کے ایک مراسلے کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ لارڈ کرزن نے بخوشی اپنی کتاب کے ترجمے کی اجازت دی ہے ۔

کرزن سے ترجمہ کرنے کی اجازت ملنے پر ظفر علی خان نے بڑی تیزی سے کتاب کا ترجمہ مکمل کیا جو خیابان فارس کے نام سے مطبع شمسی حیدرآباد سے 1902 کے اوائل میںشائع ہوا ۔ کرزن کی ضخیم کتاب کے ترجمے اور اس کی اشاعت کا کام سال ،سواسال کی انتہائی قلیل مدت میں تکمیل پایا ۔612 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پندرہ تصاویر شامل ہیں ۔ اس کتاب کے بعض ابواب کا آغاز عظیم المرتبت شعراء کے اشعار سے ہوا ہے جن کا ظفر علی خانے منظوم ترجمہ کیا ہے ۔کرزن نے خیابان فارس کی اشاعت کی اطلاع ملنے پر اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر اس کتاب کو ظفر علی خان کے ہاتھ سے حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ چنانچہ کرزن نے نومبر 1902 ء میں دورہ حیدرآباد کے موقع پر خیابان فارس کا نغمہ ظفر علی خان کے دریعہ حاصل کیا ۔

ایران ،کرزن کی کتاب کا موضوع ہے ۔ اس وقت تک ایران کے جغرافیہ اور اس کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد کتابیں تصنیف کی جاچکی تھیں لیکن کرزن کی کتاب کو بہت سی خصوصیات کی وجہ سے منفرد مقام حاصل تھا ۔ اس بارے میں ظفر علی خان کے خیالات اہمیت کے حامل ہیں ۔ وہ خیابان فارس کے دیباچے میں لکھتے ہیں ۔

قلمرو ایران کے حالات کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور اس موضوع سے مسلسل و عمیق دلچسپی اور وسیع اہمیت نے ایک عرصہ دراز سے اس کو ذی رتبہ سیاحوں اور مقیم ملک کے مصنفوں کا مبحث بنا رکھا ہے جنہیں اپنے شوق سفر یا تعلقات سفارت کی وجہ سے اس مسئلہ پر رائے زنی کے مواقع حاصل ہوئے ۔ چنانچہ اس سر زمین کے مختلف پہلوؤں کو عالم و فاضل و تجربہ کار لوگوں نے وقتا فوقتاً اپنے زور قلم کا تختہ مشق بنایا ۔ کسی نے اس کی تاریخ لکھی اور کسی نے اس کے جغرافیئہ طبعی ،کسی نے اس کی ہیئت طبقات الارض ،اس کے تمدن،اس کی السنہ ، اس کی اقوام اور اس کے آثار قدیمہ پر خامہ فرسائی کی ۔ بعض مصنفین نے دولت ایران کی تعلقات سیاسی جو اسے دول خارجہ سے ہیں اور نیز اس کے اندرونی نظم و نسق اور اس کی تدبیر مملکت مالہ و ماعلیہ کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا لیکن آج تک کسی ایک کتاب میں ان تمام امور پر اس وضاحت ،سلاست اور امعان نظر سے بحث نہیں کی گئی جو لارڈ کرزن کی جامع تصنیف کی خصوصیات ہیں

کتاب تصنیف کرنے میں کرزن نے جو محنت کی تھی اس بارے میں ظفر علی خان اپنے دیپاچے میں لکھتے ہیں کہ کرزن کو اس کتاب کے لکھنے میں جو محنت کرنی پڑی ہوگی اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جو تصانیف اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے و قت کرزن کے پیش نظر تھیں ان کی تعداد ڈھائی سو سے کم نہیں تھی اور ان سب کی سب یاتقریبا سب کتابوں کا کرزن نے بغور مطالعہ کیا تھا ۔ خود کرزن نے اپنی کتاب کے بارے میں لکھا ہے یہ کتاب تین سال کی لگاتار محنت ،ایران و ملحقہ علاقہ جات کے سفر اور اس سفر کے بعد ایران میں مقیم لائق و مستند اصحاب کے ساتھ خط و کتابت کا نتیجہ ہے

کرزن کی کتاب کے ترجمے (خیابان فارس )سے ظفر علی خان نے جبکہ ان کی عمر صر 28 برس تھی خود کو ایک ماہر مترجم کی حیثیت سے تسلیم کروایا ۔ ظفر علی خان کے بیان کی سلاست اوربا محاورہ زبان کے بارے میں داغ جیسے مسلم الثبوت زبان داں کی رائے سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ظفر علی خان کے ترجمے کے بارے میں داغ کی حسب ذیل رائے انشائے داغ مرتبہ احسن ماوہروی میں شامل ہے ۔

مولوی ظفر علی خان کو میں مبارکباد دیتا ہوں کہ یہ کتاب بہ اعتبار لطف زبان بجائے ترجمے کے اصل کتاب معلوم ہوتی ہے ۔سلسلہ بیان اس قدر با ربط اور ایسا سلیس ہے کہ ایک انگریزی خواں نوجوان اور وہ متوطن پنجاب ہو ،اس سے ایسی توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ ایسی اعلی درجہ کی با محاورہ اردو میں اتنی ضخیم اورمبسوط کتاب کا ترجمہ بے تکلف کرنے پر قادر ہوسکے گا ۔

ظفر علی خان کا ترجمہ (خیابان فارس ) ایک سو دس سال پرانا ہے ۔ اس مضمون کے آخر میں خیابان فارس کا ایک پیراگراف ذیل میں درج کیا جارہا ہے جسے پڑھ کر قارئین ظفر علی خان کے ترجمے کی خوبیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔
اس مقدس شہر (مشہد )کے خاص خاص حالات کا ذکر میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کروں گا ۔ اس کے نام (جس کے معنی مقام شہادت کے ہیں )اور اس کی شہرت کا باعث یہ واقعہ ہے کہ نویں صدی عیسوی میں (ابن) حضرت امام موسی رضا علیہ السلام جو بارہ ائمہ میں بلحاظ سلسلہ آٹھویں ہیں ۔ یہاں پر سپرد خاک کئے گئے ۔ افواہاً یہ سناجاتاہے لیکن اس کی بظاہر کوئی اصلیت نہیں معلوم ہوتی کہ خلیفہ مامون الرشید مشہورخلیفہ ہارون رشید کے بیٹے نے جس کا دارالخلافہ مروتھا حسد کی وجہ سے امام صاحب کو جو اس وقت شہر طوس میں موجودہ مشہد سے پندرہ میل کے فاصلے پر تھا زہر آلود انگور کھلا کرشہید کرادیا لیکن ایک روایت اس طرح سے ہے کہ امام ممدوح نے طوس ہی میں طبعی طور پر انتقال فرمایا ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان دونوں روایتوں میں سے سچی کون سی ہے ۔ بہر حال امام صاحب کی نعش موضع صنع آباد میں جو مشہد کے قریب واقع ہے ایک روضہ کے اندر دفن کی گئی ۔