کے این واصف
عالمی شہرت یافتہ عالم دین ، جید مقرر اور رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ ہند مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ندوی ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں ۔ مولانا کی مملکت میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابنائے قدیم دارالعلوم ندوۃ العلماء ریاض نے اپنے استاد محترم کو خصوصی طور پر ریاض مدعو کیا اور مولانا کے ایک خصوصی خطاب کا اہتمام کیا ۔ معروف داعی مولانا خلیل الرحمن نے ’’ہندوستان میں دعوت اسلامی۔حال اور مستقبل کے آئینہ میں‘‘ کے عنوان پر خطاب کیا۔
مولانا خلیل الرحمن نے کہا کہ ہندوستان میں دعوت دین کا کام مشکل نہیں۔ ہم دستوری طور پر بھی اس کے مجاز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک مذہب اور سائنٹفک طور پر بہت ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں۔ ہمارے سامنے دعوت دین کیلئے کئی راستے اور آسان طریقے موجود ہیں جبکہ اسلام کے ابتدائی دور میں یہ کام دشوار کن اور کافی مشکل تھا ۔ مولانا نے کہا کہ ہجرت کے بعد نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے علاقوں میں مسلسل جنگ و جدل کا ماحول تھا ۔ عام لوگ اس ماحول سے عاجز آچکے تھے ۔ مدینہ منورہ ایک تبدیلی کے احساس سے تپ رہا تھا۔ لوگ بقائے باہمی اور پرامن زندگی کیلئے تڑپ رہے تھے۔ نبی کریمؐ نے مدینہ میں دعوۃ کے کام سے پہلے مدینہ منورہ کے تمام قبائلی و سماجی اکائیوں کا ایک اجلاس طلب کیا جو ایک عظیم حکمت عملی تھی ۔ آپؐ نے اجلاس میں دین اسلام یا دعوت دینے سے متعلق ایک جملہ بھی نہیں کہا ۔اجلاس کے حاضرین سے سوال کیا کہ کیا ہم بقائے باہمی اور پرامن معاشرے کی تشکیل کیلئے ایک معاہدہ کرسکتے ہیں۔ تمام قبائل کے سرداروں نے متفقہ طور پر امن معاہدہ کی تائید کی ۔ تب نبی اکرمؐ نے معاہدہ کا متن Dictate کروایا اور یہ معاہدہ دنیا کا سب سے پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار پایا جسے ’’بیثاق مدینہ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ مولانا نعمانی نے کہا کہ مسلمانوں کے پاس زندگی کے ہر مسئلہ اور عمل کیلئے ہدایت و رہنمائی نبی کریمؐ کا عمل ، اقوال اور احادیث ہیں۔
مولانا خلیل الرحمن ندوی نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان ملک میں اپنے آپ کو اقلیت سمجھ کر ذہنی طور پر اکثریتی طبقہ سے مرعوب ہیں جبکہ حقیقت یہ جسے ہندو مذہبی قائدین خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان کے ہندوؤں میں بے شمار عقائد کے حامل اور قوموں کے لوگ بستے ہیں۔ ان کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھیں تو ہندوستان میں مسلمان ایک اکثریتی فرقہ قرار پاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آرین بھی ہندوستان میں باہر سے آئے تھے جنہوں نے قتل و غارت گری اور ظلم و تشدد کا بازار گرم کر کے سرزمین ہند پر اپنا قبضہ جمایا ۔ مقامی باشندوں کو اپنا محکوم اور تابع بناکر یہاں اپنا راج قائم کیا ۔ جب ہندوستان میں اسلام داخل ہوا تو یہی مظلوم اور کچلے ہوئے طبقہ کے افراد نے اسلام قبول کیا ۔ انہیں اسلام کی مساوات ، انصاف اور رواداری نے راغب کیا ۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستان اعلیٰ ذات ہندوؤں کے ظلم و تشدد کے شکار افراد نے محمود غزنوی کو اپنی شکایتیں بھیجی اور ظالموں سے چھٹکارا دلانے کی درخواست کی
جس پر محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور مندر میں رہنے والے اعلیٰ ذات کے ظالم افراد کو نشانہ بنایا ۔ اس کی نیت مندر کو نشانہ بنانا نہیں تھی بلکہ مندر میںرہنے والے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا لیکن مورخین نے اسے ظالم حملہ آور قرار دے دیا ۔ مولانا نے کہا کہ جب Golden Temple سنہری گردوارہ) بدنیت اور تشدد پسند عناصر کی آماجگاہ بن گیا تھا تو مسز اندرا گاندھی نے ’’آپریشن بلو اسٹار‘‘ کے ذریعہ گردوارے کے تقدس کو بحال کیا تھا۔ آپریشن بلو اسٹار کے بعد اندرا گاندھی ظالم نہیں کہلائی تو پھر محمود غزنوی کیوں ظالم قرار پایا۔
مولانا خلیل الرحمن نے کہا کہ ایک اور غلط فہمی جو عام کی گئی وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے اسلام کی خدمت یا دعوت دین کا کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ گوکہ ان حکمرانوں نے راست طور پر یہ کام انجام نہیں دیا ۔ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی تھی ، مگر انہوں نے اس میدان کے کام کرنے والوں کی درپردہ مدد کی ۔ ا ن کے کام میں آسانیاں فراہم کیں اور انہیں اس کیلئے مواقع فراہم کئے ۔ مولانا نے کہا کہ مسلم حکومتوں کے دور میں نہ ہندوؤں پر ظلم ہوا ، نہ ہندوستان میں کبھی فرقہ وارانہ فسادات یا مذہب ، ذات پات کے نام پر جھگڑے ہوئے ۔ ہندو مسلمان کے بیچ نفرت کا بیج انگریز حکمرانوں نے بویا اور ہندوستان کی خرد بینی اقلیت یعنی برہمن اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے حصول کیلئے ملک میں فرقہ وارانہ دنگے منظم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کرنے غلط تاریخ لکھوائی اور یہی تاریخ دنیا میں پھیلائی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی تاریخ کو جاننے کیلئے انگریزوں کی لکھی کتابوں سے حوالے نہیں لئے جانے چاہئیں۔ مولانا نے کہا کہ جس ایجنڈے پر یہودی دنیا میں کام کر رہے ہیں، ہندوستان میں اسلام دشمنی کے اس ایجنڈے پر برہمن لابی عمل پیرا ہے۔ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں شدید مخالفت اور غلط پروپگنڈے کے باوجود اسلام کے تیزی سے پھیلانے کا سبب یہودیوں اور برہمنوں جن کا DNA ایک ہے کے ظلم اور ناانصافیاں ہیں۔ ہندوستان میں ڈاکٹر امبیڈکر اور ان سے قبل کچھ افراد نے ہندوستان میں مظلوم اور کچلے ہوئے ہندوؤں کی قیادت کی تھی ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوا یہ میری مجبوری تھی مگر میں ہندو مرجاؤں یہ میری مجبوری نہیں۔ اس لئے انہوں نے بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا ۔
مولانا خلیل الرحمن نے کہا کہ سیاست ایک شطرنج کا کھیل ہے جو شاطرانہ چالوں سے کھیلا جاتا ہے ۔ یہ بات مسلمانوں کو سمجھنی چاہئے۔ انہیں جوش اور جذبات کی بجائے ہوش اور فراست سے کام لینا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی سیاست اسلام کو پھیلنے نہ دینے کے اطراف گھومتی ہے ۔ حد تو یہ کہ ہمارے دستور کے مطابق اگر کوئی Schedule cast اسلام قبول کرے تو اس کی بحیثیت schedule cast ملنے والی تمام مراعات ختم ہوجاتی ہیں جبکہ اگر وہ بد مذہب اختیار کرلے تو اس کو schedule cast کی دستوری مراعات بدستور حاصل رہتی ہیں۔ مولانا نے کہا کہ جیسے جیسے فرقہ وارانہ فسادات بڑھ رہے ہیں۔ ویسے ویسے مسلمان اسلام سے قریب ہورہے ہیں۔ لہذا ہندوستان کو اسپین بنانے کے جس درپردہ ایجنڈے پر کام کرنے والی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوپائے گی۔ آخر میں مولانا نے کہا کہ ہمیں آپسی کدورتوں، دشمنوں اور ایک دوسرے پر بیجا تنقیدوں سے احتراز کرنا چاہئے ۔ غیر اہم مسائل اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو مباحثے اور جھگڑوں کا سبب نہیں بننے دینا چاہئے ۔ ہر مسلمان صرف اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈال کر انہیں دور کرے تو ہم ایک مثالی قوم بن کر ابھریں گے ۔ تقویٰ اخلاص ، سچے جذبہ ایمانی سے دعوۃ کا کام لیکر ٹھیں تو انشاء اللہ کامیابی ضرور حاصل ہوگی۔
صدر جلسہ راشد علی شیخ نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا نے اپنے خطاب کے ذریعہ ہمارے ذہنوں کی مایوسی کو دور کیا ۔ آپ کا خطاب ایک جامع خطاب تھا جس میں آپ نے موجودہ حالات کے تناظر میں شعبہ حیات کے تمام پہلو پر کم وقت میں بہتر طریقہ سے روشنی ڈالی جو مولانا کی قادرالکلامی اور گہرے مطالعہ کا ثبوت تھا۔ راشد علی شیخ نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی آپسی رنجشوں کو ختم کر کے اتحاد کا راستہ اپنانا چاہئے ۔
ابنائے قدیم دارالعلوم ندوہ ریاض کے اہتمام کردہ اس لکچر میں سابق طلبہ اور دیگر حضرات کی ایک بھاری تعداد نے شرکت کی ۔ ابتداء میں ناظم جلسہ اخترالاسلام صدیقی کے ابتدائی کلمات اور خیرمقدمی جملوں کے بعد طارق ندوی نے آیات قرآنی کی تلاوت کی اور قرآن و حدیث کی روشنی میں دعوت دین کی اہمیت پر اظہار خیال کیا ۔ واجد اختر ندوی و ہمنوا نے ترانہ ندوہ پیش کیا ۔ ذاکر ندوی نے مولانا خلیل الرحمن نعمانی کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا ایک جید خطیب ، مفسر قرآن اور معروف داعی ہیں۔ آپ عربی ، اردو ، انگریزی اور ہندی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے Phd کی ڈگری حاصل کی۔ مولانا نعمانی ممبئی شہر کے مضافات میں ایک دعوتی مرکز چلاتے ہیں۔ آپ نے دنیا کے کئی ممالک میں منعقد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ صدر تنظیم ابنائے قدیم امتیاز احمد ندوی نے تنظیم کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ اس جلسہ کا اختتام عبدالمتین ندوی کے ہدیہ تشکر پر ہوا۔
knwasif@yahoo.com