مولانا الطاف حسین حالی

انیس عائشہ
شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ لیکن دہلی میں زیادہ تر تعلیم و تدریس کی وجہ سے رہے اور دلی سے بہت پیار کیا کیوں کہ اسی دلی نے زبان و ادب اور تاریخ کو اپنے گہوارہ میں پروان چڑھایا اور پورے ملک کی نمائندگی کی ۔ سب لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ حالی ایک دردمند دل رکھتے تھے ۔ ان کی کوشش تھی کہ عوام تمام خرابیوں کو اس طرح محسوس کریں جیسے خود انہوں نے محسوس کی ۔ کئی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے غزل ، نظم ، رباعی ، شخصی مرثیہ ، طنزیہ ۔ مثلاً
قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگادے آگ کوئی آشیاں میں
آنے لگا جب اس کی تمنا میں کچھ مزہ
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
سخت مشکل ہے شیوۂ تعلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
نظموں میں حد درجہ کی تاثیر ہے ۔ ’’مناجات بیوہ‘‘ اور ’’اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی عزت تم سے ہے‘‘ مشہور نظمیں ہیں ۔ رباعی میں بھی کمال حاصل کیا ہے ۔

ہو عیب کی خو یا کہ ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
چھٹتے ہی چھٹتے گا اس گلی کا جانا
’’عادت‘‘ اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
شخصی مرثیہ میں بھی بہت اثر ہے
لوگ کچھ پوچھنے کو آئے ہیں
اہل میت جنازہ ٹھہرائیں
لائیں گے پھر کہاں سے غالب کو
سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں
طنزیہ شاعری میں اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں۔
مان لیجئے شیخ جو دعوی کریں
اک بزرگ دیں کو ہم سمجھائیں کیا
بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ
یہ عزت تو جائے گی پر جائے گی
خوش ہے امید خلد پر حالیؔ
کوئی پوچھے کہ کیا کیا تو نے
بعد میں انہوں نے صرف اصلاحی شاعری کو اپنا نصب العین بنایا اور قومی اصلاح کا بیڑہ (بذریعہ نظم) اٹھایا ۔ یہ انداز نظر کی تبدیلی تھی جو بعد میں عقیدے کی شکل میں ہمارے سامنے آئی ۔ نظام میں خیال اور لہجے کا انداز یکساں ہے ہر شعر دل پر درد کی بات دہراتا ہے ۔ یہ تبدیلی اس وقت آئی جب سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی ۔ جن کی وجہ سے انہوں نے مسدس لکھی ۔اس ملاقات کا ذکر انتہائی متاثرکن انداز میں مسدس کی دیباچہ میں لکھا ہے ۔ یہ تحریر آج بھی اتنی ہی متاثر کن ہے جتنی اس وقت تھی سرسید کی عظمت اور ان کے مشن کی سچی تصویر ہے ۔ لکھا ہے ۔
’’بچپن کا زمانہ جو کہ حقیقت میں بادشاہت کا زمانہ ہے اس سے کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو ایک صحرا اس سے بھی زیادہ دل فریب نظر آیا جسے دیکھتے ہی ہزاروں امنگیں اور ولولے خود بخود دل میں پیدا ہوگئے ۔ مگر یہ صحرا جس قدر نشاط انگیز تھا اسی قدر وحشت خیز تھا ۔

پنہاں تھا دام سخت ترین آشیانے کے
اڑانے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا ۔ اور نامہ اعمال ایسا سیاہ کیا کہ کہیں سفیدی نہ چھوڑی ۔ 20 سال کا عرصہ گذر گیا ۔ ناگاہ ایک خدا کا بندہ جو اس میدان کا مرد ہے ایک دشوار گذار راستے میں رہ نورد ہے بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے تھے تھک کر پیچھے رہ گئے ہیں بہت سے ساتھ میں ہیں ۔ مگر رہنما کو نہ رستے کی تکان کی پرواہ ہے نہ ساتھیوں کے جھوٹ جاننے کا غم ہے ، نہ منزل کی دوری سے ہراس ہے لیکن آنکھ میں وہ جادو ہے کہ جس طرح نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ آنکھیں بند کرکے اس کے ساتھ ہولیتا ہے ۔ ادھر بھی وہ نگاہ اٹھی اور اپنا کام کرگئی ۔ زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھا ۔ قوم کے اس سچے خیرخواہ نے غیرت دلائی کہ خدا کی دی ہوئی زبان سے کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہ ۔ نظم جو کہ بالطبع سب کو مرغوب ہے ،عرب کا ترکہ اور مسلمانوںکا موروثی وجہ سے قوم کو بیدار کرنے کے لئے اب تک کسی نے نہیں لکھی ۔ تم لکھ ڈالو ۔ ایسی حالت میں ہمیشہ دو طرح کے خیال گذرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ دوسرے یہ کہ کچھ کرنا چاہئے ۔ پہلے خیال سے کچھ نہیں ہوتا ۔ دوسرے سے دنیا کے بڑے بڑے عجائبات ظاہر ہوتے ہیں ۔ سرسید کے حکم اور جادو بھری تقریر نے کام کیا ۔ دل سے نکلی تھی دل میں جا ٹھہری ۔ ایک ولولہ پیدا ہوا اور مسدس کی بنیاد ڈالی ۔ اگرچہ کہ روکھی پھیکی ہے مگر یہ مزے لینے اور واہ واہ کرنے اور سننے کے لئے نہیں لکھی گئی بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لئے لکھی گئی ہے ۔ اگر دیکھیں اور پڑھیں اور سمجھیں تو انکا احسان ورنہ کوئی شکایت نہیں‘‘ (آخر میں حافظ کا ایک شعرلکھا ہے جس کا ترجمہ ہے)
حافظ تمہارا کام بس دعا کرنا ہے
فکر نہ کرو کہ سنی جائے گی یا نہیں
مسدس کے کچھ اشعار پیش ہیں ۔ اس مسدس کا اثر یہ ہوا تھا کہ بعض مدارس نے شریک نصاب کرلیا تھا ۔ میلاد شریف میں پڑھی جانے لگی تھی ۔ لوگ سن کر اور پڑھ کر آنسو بہانے لگتے ۔ واعظوں نے حوالے دینے شروع کردئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نے اس طرف توجہ کی تھی ۔ مصنف خوش ہیں کہ انہوں نے ایسی قوم کو مخاطب کیا جو بے راہ ہے پر گمراہ نہیں ہے ۔ ہنر مفقود ہوگئے ہیں مگر قابلیت موجود ہے ، ان کے خاکستر میں چنگاریاں ہیں مگر دبی ہوئی ۔ ان کو امید تھی کہ درد اور سچ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے ۔ لہذا ورد پھیلے گا اور سچ چمکے گا ۔ مسدس کے کچھ اشعار پیش ہیں ۔ اس کا مقصد نئی نسل کو اس خزانہ سے روشناس کرنا ہے جو زیر دیوار مدفون ہوگیا ہے ۔

گھٹا سر پہ ادبار کی چھارہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلارہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلارہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سوگئے تم
وہ بجلی کا کڑکنا تھا یا صورت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نام حق سے
کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرمان طاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا
نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا
وہ صحرا انہیں قطع کرنا پڑا تھا
جہاں نقش پا تھا نہ شور دوا تھا
جوں ہی کان میں حق کی آواز آئی
لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی
یہ تھا علم پرواں توجہ کا عالم
کہ ہو جیسے مجروح جو یائے عالم
کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ تھی کم
بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم
حریم خلافت میں اونٹوں سے لدکر
چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر
یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہے دور رحمت سے سب اہل دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا بھی سدا ان میں چرچا
انہیں کے لئے یاں ہے نعمت خدا کی
انہیں پر ہے واں جا کے رحمت خدا کی
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گذر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

یہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دین ھدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا
تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
جو بگڑا نہیں آپ دنیا میں جب تک
وہ ملت کے گردوں پہ جس کا قدم تھا
ہر اک کھونٹ میں جس کے برپا علم تھا
وہ فرقہ جو آفاق میں محترم تھا
وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدر ہاں
کہ گنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
کسی نے یہ اک مرد دانا سے پوچھا
کہ نعمت ہے دنیا میں سب سے بڑی کیا
کیا ’’عقل‘‘ جس سے ملنے دین و دنیا
کہا گر نہ ہو اس سے انساں کو بہرا
کہا پھر اہم سب سے علم و ہنر سے
کہ جو باعث افتخار بشر ہے
کہا گر نہ ہو اس کو یہ بھی میسر
کہا مال و دولت ہے پھر سب سے بڑھ کر
کہا در ہو یہ بھی اگر بنداس پر
کہا اس پہ بجلی کا گرنا ہے بہتر
وہ ننگ بشر تاکہ ذلت سے چھوٹے
خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے
مجھے ڈر ہے اسے میرے ہم قوم یارو
مبادا کہ وہ ننگ عالم تم ہی ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو
تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگرنہ یہ قول آئے گا راست تم پر
کہ ہونے سے ان کے نہ ہونا ہے بہتر
یہ طویل نظم ہے ’’مسدس مدوجزر اسلام‘‘ اپنے پیام کے لحاظ سے ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس سے ہم اپنا ماضی اور حال دیکھ سکتے ہیں اور مستقبل کو سنوار سکتے ہیں ۔