مولانا الطاف حسین حالی مصلح قوم و ادب اور ماہر تعلیم

ڈاکٹر محمد ناظم علی
اردو زبان و ادب میں چند ایسی قدآورشخصیتیں گذری ہیں جن کے کارنامے زندگی و زمانے کو متاثر کرنے کے علاوہ معاشرہ میں اصلاحات و تغیر و تبدل پیدا کیا ان میں مولانا حالی کے ادبی کارنامے قابل ذکر ہیں ۔ یوں تو سرسید احمد کے رفقاء کار میں سب ہی رفیقوں نے زبان و ادب اور ملک و ملت کے لئے بہت کچھ کیا ۔ یقیناً اگر سرسید نہ ہوتے تو حالی ، شبلی نہ ہوتے ۔ سرسید کی تحریکی اصلاحی کارنامے نہ صرف زبان وادب تک محدود رہے بلکہ سماج و معاشرہ میں تبدیلی کا موجب بنے ۔ ویسے اس دور میں اصلاحات کا چلن پڑا راجا رام موہن رائے اور سوامی دیانند سرسوتی سے جو ہندو سماج کی اصلاح کا کام کررہے تھے ۔ اسی نہج پر مسلم سماج کی اصلاح کے لئے سرسید احمد خان ، حالی ، شبلی ، ڈپٹی نذیر احمد نے اصلاحی کام کا بیڑا اٹھایا ۔

ان میں ہر ایک نے زبان و قلم سے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ۔ حالیؔ کی مسدس حالی جس میں قوم کی اصلاح کیلئے کئی نظمیں موجود ہیں ۔ ان نظموں میں قوم کے سماجی ، تہذیبی ، تعلیمی ، عصری مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ حالی نے غدر سے پہلے اور غدر کے بعد مسلمانوں کی زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ۔ 1857 کے بعد کی حالت جس میں مسلمان بے بسی ،کسمپرسی اور افلاس و نکبت کا شکار ہوئے اور تعلیمی طور پر پسماندہ ہوئے جارہے تھے اسکے علاوہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کا احساس حالی کو ہوگیا تھا اس لئے انھوں نے ایسی نظمیں لکھیں جس سے مسلمانوں میں شعور پیدا ہو ۔ اس مسدس سے یہ احساس پیدا ہوا کہ مسلمان ماضی میں کیا تھا ، اس کے علاوہ مسدس کی نظموں میں انھوں نے تعلیمی نظریہ کو عام کیا ۔ حالی نے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت یہ کہا کہ قوم کو علم وہنر سے بہرہ مند ہونا ضروری ہے ۔ صنعت و حرفت اور عصری تعلیم کے حصول سے قوم کی ترقی ہوسکتی ہے اسکے لئے اپنے کئے اشعار میں قوم کو ترغیب دیتے ہیں کہ مسلمان عصری و ہنری تعلیم کو اپنائیں اور تعلیم کے ذریعہ کھوئی ہوئی عزت و وقار حاصل کریں ۔ تعلیم میں ہر قسم کی ترقی مضمر ہے اس لئے حالی مسلمانوں کو حصول تعلیم کی تلقین کرتے ہیں ۔
چپ کی داد ، برکھارت ، مناجات بیوہ نظمیں پراثر اور دلکش ہیں اور زبان و ادب کی ترویج و فروغ میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں ۔ مولانا کی شاعری میں اصلاحی پہلو مضمر ہے ۔ حالی نے اپنے اشعار کے ذریعہ انسانی قدروں اور حقوق انسانی کی پاسداری کی ہے انسانی قدروںکا امین و نقیب شاعر جب یہ کہتا ہیکہ

فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
21 ویں صدی میں اس شعر کی معنویت بڑھ جاتی ہے ۔ حالی کہتے ہیں فرشتے بننا آسان ہے لیکن انسان اور انسانیت کے درجوں پر پہنچنا مشکل ہے ۔ انسانیت کے مقام کو حاصل کرنے کیلئے بہت ریاضت و محنت کرنی پڑتی ہے تب ہی آدمی انسان بنتا ہے ۔ لیکن معاشرہ میں انسان اور انسانیت چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ انسانی قدریں پامال ہورہی ہیں ۔ انسانوں کی عزت و توقیر نہیں ہورہی ہے ۔ بلکہ معاشرہ میں مادیت و صارفیت کے غلبہ سے انسانی قدریں معصوم ہورہی ہیں۔ انسان کو مادی قدروں کی حریص و ہوس ایسی لگ گئی ہے کہ وہ انسانی قدروں کو نظر انداز کرتا جارہا ہے ۔ اس لئے تو ملک میں 2013 میں تعلیمی نظام میں خاص کر میٹرک ، انٹر ، ڈگری اور PG تک انسانی قدریں اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ سسٹم میں خرابیاں و کمزوریاں ہیں اسلئے انسانی قدروں پر مشتمل نصاب مدون و مرتب کیا گیا ہے ۔ اس نصابی تبدیلی کے عمل میں حالی کے اس شعر کا اطلاق ضروری ہوتا ہے ۔ اسکی صداقت سب پر عیاں ہے ۔ معاشرہ میں انسانی قدر کو افضلیت دینا چاہئے ۔ تعلیم روایتی ہو یا عصری دونوں کا منشا انسانیت کا فروغ ہونا چاہئے ۔

اور کئی ایسے اشعار ہیں جس سے حقوق انسانی اور انسانی نیک نفس انسانی قدر کی ترجمانی و پاسداری حالی کے کلام سے ہوتی ہے ۔ خود حالی کی مسدس حالیؔ کے بارے میں سرسید احمد کا قول جب وصیت بن گیا یہ تھا کہ اگر خدا مجھ سے پوچھے کہ دنیا میں کیا کارنامے انجام دے کر آئے ہو تو میں کہوں کہ میں نے حالی سے مسدس حالی لکھوائی ہے ۔ حالی شاعری کے علاوہ انکی نثر بھی کچھ کم نہیں ۔ اس میں بھی اصلاح کے پہلو موجود ہیں ۔ ان کی انقلاب آفرین کتاب مقدمہ شعر و شاعری کی بنیاد اصلاح ہے وہ شعر و اشعری پر اصلاح دیتے ہیں ۔ شعر کیسا ہونا چاہئے شعر کے تقاضے کیا ہیں اور شاعری کے اصناف کا موقف کردار کیسا ہونا چاہئے ۔ غزل پر تنقید ، مثنوی کو سماج کیلئے کارآمد صنف سخن قراردینا سب اصلاحی انداز تو ہے۔ یہ پہلی اردو کی تنقیدی کتاب ہے جس میں ایسے افکار اور رجحانات و نظریات ہیں جس پر چل کر شاعروں نے اپنے میں تبدیلی پیدا کی ۔ مجالس انساء جو ناول و داستان کے درمیان کی کڑی ہے عورتوں کی تعلیم و تربیت کیلئے لکھی گئی ہے ۔ یادگار غالب میں غالب کی سیرت ، زندگی ، احوال ، کردار کو موثر اور فکر انگیز انداز میں پیش کیا ہے۔ حیات سعدی میں شیخ سعدی شیرازی کی حیات اور کلام کے نمونے کو پیش کیا ہے بحیثیت مجموعی حالی کی نظم ہو یا نثر دونوں نے اردو زبان و ادب میں کمال پیدا کیا ہے اور زندگی و زمانے کو ایک سمت و ڈگر عطا کی ۔ ان کے کارنامے افکار خیالات رجحانات 21 ویں صدی میں بھی معنویت رکھتے ہیں ۔ اسکی افادیت اب بھی ہے حالی اپنے اصلاحی کارناموں کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں مدبر ، دانشور اور مصلح ، ماہر تعلیم نظر آتے ہیں ۔ حالیؔ کو نئی نسل مزید پڑھیں انکی مزید از سر نو دریافت کریں تو اصل حالی سامنے آجائے ۔ قوم کا ایسا رہبر و عمائد آخرکار 1914 میں انتقال کرگیا ۔ دنیا اب یوم وفات ، صدی تقاریب منارہی ہے ، اسلاف کے کارناموں کا اعادہ کرنا زندہ قوموں کی نشانی ہے تاکہ نئی نسل اپنے میں اصلاح پیدا کرسکے اور محنت و مشقت کرکے حالی کی طرح بن سکے ۔