مولانا ابوالکلام آزاد ہمہ گیر شخصیت

محمد عبدالبصیر
مولاناابو الکلام آزاد ایک ہمہ پہلو شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ اردو کے مشہور شاعر ، ادیب، صحافی اور مجاہد آزادی کے ساتھ ساتھ دانشور ، مفکر ، مفسر قرآن اور قومی رہنما تھے۔ جن کی علمی لیاقت اور دانشمندی پر انہیں امام الہند کا خطاب دیا گیا۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے ان کی تعلیمی و ادبی خدمات آج کے نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
مولانا آزادکا اصلی نام محی الدین احمد تھا۔ فیروز بخت تاریخی نام ، ابوالکلام کنیت اور آزادؔ آپکا تخلص تھا۔ 11؍نومبر1888ء کو مقدس شہر مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد مولانا خیر الدین ہندوستانی تھے والدہ محترمہ عالیہ مدینہ منورہ کے مفتی و مشہور محدث شیخ احمد ظاہر وتری کی بھانجی تھیں۔ اس طرح مولانا آزاد کو ہندوستان اور عرب دونوں ملکوں کی علمی و ادبی اور مذہبی ماحول میسر ہوا ۔
مولانا خیر الدین بلند پایہ عالم دین ، اصول پسند اور وقت کے پابند انسان تھے۔ ان کے مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مریدوں کے اصرار پر آپ معہ اہل و عیال مکہ سے کلکتہ آگئے ۔ مولانا آزاد کا ابتدائی دور یہیں گذرا ان کے والد ان کو ایک پکا مذہبی عالم بنا نا چاہتے تھے ۔ اس لئے فضولیت میں انہیں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مولانا آزاد نے اپنے والد سے علمی لیاقت حاصل کی جبکہ والدہ محترمہ کے ذریعہ اخلاقی و مذہبی تربیت ہوئی۔ ان کی والدہ ایک مہذب و دینی گھرانے سے تعلق ر کھتی تھیں۔ ان کی نیکی ، شرافت اور اخلاق نے سب کو متاثر کیا۔ والدہ نے گھر کی چار دیواری میں اولاد کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کا درس دیا۔ دوسروں پر نکتہ چینی کرنے سے منع کیا۔ وہ باتوں ہی باتوں میں پند و نصیحت کرتی تھیں۔

مولانا آزاد بچپن ہی سے بے حد ذہین تھے انکی عملی زندگی میں بچپن کے واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں انہوں نے 6سال کی عمر میں کلام پاک ناظرہ ختم کیا ۔ پھر قرات بھی سیکھی بچپن سے بہت سویرے اٹھنے اور پابندی سے نماز پڑھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ آخری وقت تک آپ اوقات کے بہت پابند رہے ۔ آٹھ ، نو سال کی عمر میں تقریر کا شوق ہوا ۔ مولانا آزاد علمی و دینی ماحول اور بڑوں کی صحبت میں وہ ہمیشہ ایک بہترین مقرر اور عالم دین بننے کی تمنا رکھتے تھے۔ بچپن میں وہ عام بچوں سے ہٹ کر غیر معمولی کھیل کھیلتے تھے۔ وہ اپنی بہنوں سے کہتے ’’لوگوں کو یہ کہتے ہوئے ہٹایئے کہ ہٹو ! ہٹو! دلی کے مولانا آرہے ہیں‘‘ ۔ اپنے والد محترم کا حلیہ اختیار کرتے اور پگڑی پہن کر مولانا کی نقل کرتے ۔ ان کی یہ انوکھی حرکتیں بڑے ہونے پر ہندوستان کے نامور مولانا اور ایک شعلہ بیان مقرر بن گئے ۔ مولانا کے بچپن کے واقعات پر ان کی بہن لکھتی ہیں کہ ’’سچ تو یہ ہے کہ مولانا آزاد نے بچپن نہیںدیکھا چھ سات سال کی عمر سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ ننھے ننھے کاندھوں پر ایک سر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ ہے ‘‘۔
والد کے مریدوں کے مجمع میں تقریباً روزانہ بولنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اس مشق کا نتیجہ تھا کہ آپ بہترین مقرر و خطیب ہوگئے ۔ آپ نے کم عمر ہی میں عربی ، فارسی اور اردو میں خاصی لیاقت پیدا کر لی تھی۔
وہ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ جیب خرچ سے کتابیں خرید کر مطالعہ کیا کرتے تھے اس شوق میں وہ بعض اوقات وہ کھاناکھانا بھی بھول جاتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’لوگ اپنا بچپن کھیل کود میں گذارتے ہیں لیکن بارہ تیرا سال کی عمر میں کوئی کتاب اٹھا کر میں گھر کے کونے میں جابیٹھتا تھا تاکہ لوگ مجھے نہ دیکھ سکیں۔ ‘‘ مولانا آزادنے بارہ تیرہ سال کی عمر میں بہترین انشاء پرداز اور شاعر بن گئے جب وہ گیارہ سال کی عمر کے تھے تو شعر کہنے لگے ۔آپ کے مضامین اور اشعار رسالوں میں چھپنے اور کافی پسند کئے جانے لگے۔ آپ سر سید احمد خان کی تحریک اور مضامین سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی مگر کچھ عرصہ بعد شاعری کا شوق جاتا رہا اور مضمون نگاری کی طرف زیادہ توجہ دی۔ دو تین رسالے کے ایڈیٹر رہے پھر 1912ء میں کلکتہ سے ہفتہ وار اخبار’’الہلال‘‘ نکالا۔ اور البلاغ نے بھی پورے ملک میں دھوم مچادی۔

مولانا آزاد کی یہ خوبی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنی عمر سے بہت آگے کے کام کرتے رہے کم عمری ہی میں وہ بڑے بڑے کام انجام دیتے تھے۔ انہوں نے علمی سوسائٹی قیام کی تھی اور تیرہ سال کی عمر سے کئی رسالوں کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ وہ اپنے عالمانہ مضامین سے ہندوستانیوں کو بہت متاثر کیا۔ وہ کئی اخبارات و رسالے نیرنگ خیال ، المصباح، لسان صدق ،وکیل ،الندوہ وغیرہ سے وابستہ رہے۔
1904ء لاہور میں قومی سطح کے ایک جلسے کو خطاب کرنے کیلئے مولانا آزاد کو دعوت دی گئی ۔ لاہور اسٹیشن پر لوگوں کا ہجوم تھا وہ مولانا کے استقبال کیلئے ٹہرے تھے لیکن انہیں مولانا کو دیکھ کر تعجب اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ کم عمر 16سال کانوجوان ’’مولانا آزاد‘‘ ہے لیکن جب مولانا نے اس جلسہ میں ڈھائی گھنٹہ طویل یادگار تقریر کی تو اس جلسہ کے صدر مولانا حالی نے انہیں گلے سے لگاتے ہوئے کہا’’عزیز صاحبزادے! مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر تو بہر حال یقین کرنا پڑ رہا ہے ۔ لیکن حیرت مجھے اب بھی ہے ‘‘ ۔(یاد کیجئے ہمارے رہنما صفحہ نمبر 93)
مولانا آزاد کی تحریروں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا اسلوب ، سادگی اور روانی ہے۔ وہ اپنے خطوط کا مجموعہ غبار خاطر میں آسان اور سلیس نثر کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ انہوں نے روانی اور زور بیان سے کائنات کی شاندار تصویر کی ہے وہ بے مثال اور لا جواب ہے انکی تحریریں بھی معاشرتی ، تاریخی، تہذیبی اور ادبی چمک و دمک کا اعلیٰ نمونہ واضح کرتی ہے ۔ وہ اپنے مضامین کے ذریعہ قوم کو درس دیتے ہیں کہ غیر ملکی حکومت کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا نہ صرف ایک قومی تقاضہ ہے بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے اور دوسری جانب انہوں نے لسان الصدق کے شماروں میں اصلاح معاشرے کیلئے کھل کر لکھا اور بے جا رسومات اور توہیمات سے مسلمانوں کو چھٹکارہ دلانے کی کوشش کی۔
تذکرہ مولانا کی خود نوشت سوانح ہے ۔ جسمیں انہوں نے اپنے اسلاف کے افعال و اعمال کی تصویریں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے اپنی کتاب ’’سنگ و ثمر‘‘ میں مولانا آزاد کو بھر پور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مولانا نے مسلمانوں کی ترقی و تعلیم کیلئے بہت کچھ کیا۔ وہ مصلح قوم تھے فن خطاب تو خاندانی تھا نثر نگاری میں ان کا ہم سرکوئی نہیں تھا۔ اردو اور فارسی پر زبردست عبور رکھتے تھے۔ ترجمان القرآن ، تذکرہ ، غبار خاطر، قول فیصل اور انڈیا وینس فریڈیم ان کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں‘‘ (سنگ و ثمر۔ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صفحہ نمبر 111)

مولانا آزاد ایک عالم ، اخبار نویس ، صحافی ، مصنف ، شاعر ، فلسفی اور سب سے بڑھ کر اپنے وقت کے ایک مذہبی عالم اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ کبھی بذات خود لیڈر بننا نہیں چاہتے تھے۔ اپنے ایک دوست کو انہوں نے لکھا۔ ’’سیاسی زندگی کے پیچھے میں کبھی نہیں بھاگا ۔ دراصل سیاست نے آکر مجھے گھیر لیا۔ مولانا آزاد کا یہ ایقان تھا کہ ہندوستان کو غلامی سے نجات اور ہندوستانی اسی وقت ایک بڑی قوم بن سکتے ہیں۔ جبکہ تمام ہندوستانیوں کے درمیان اتحاد ہو۔ انہوں نے اپنی زندگی قومی اتحاد کیلئے وقف کر دیا۔ وہ اپنے پیارے وطن اور عوام کی خاطر ہر تکلیف کو برداشت کرنے اور ہر قربانی دینے کیلئے تیار تھے۔ دن بھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک کے اہم مسائل اور تحریک آزادی پر گفتگو کرتے اور رات کی تنہائی میں کسی سنجیدہ علمی و ادبی یا مذہبی موضوع کی تحریر میں مصروف ہو جاتے تھے انھیں اپنے ذہن پر کمال کی قدرت حاصل تھی اور وہ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا جانتے تھے۔ مولانا نے انڈین نیشنل کانگریس کے صدارتی خطبہ میں سلجھی ہوئی تقریر کی اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’آج اگر کوئی فرشتہ آسمان سے اتر کر دلی کی قطب مینار کی بلندی سے اعلان کرے کہ ہندوستان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر سوراج مل جائے گا۔ اگر وہ ہندو مسلم اتحاد کا تقاضہ چھوڑ دے تو میں ہندو مسلم اتحاد کے مقابلے میں سوراج کو قبول نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر سوراج ملنے میں دیر ہوئی تو صرف ہندوستانیوں کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر قومی اتحاد نہ ہو سکا تو دنیا کی پوری انسانیت کا نقصان ہوگا۔ ‘‘ وہ ہندوستان میں قومی اتحاد کے علمبرداررہے۔ بالا ٓخر قومی رہنمائوں کی انتھک جدو جہد کے بعد ملک 15؍اگست 1947ء کو آزاد ہوا اور مولانا آزاد کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بننے کا اعزاز ملا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر برائے تعلیم ، تمدن اور فنون لطیفہ کی حیثیت سے وہ ایک ایسے تعلیم کو رائج کرنا چاہتے تھے جو ہندوستانیوں میں ایک نیا ذہن پیدا کر سکیں۔ نئی فکر کے ساتھ ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ وہ جدید تعلیمی نظام اور عظیم تہذیب و تمدن کے بانی ہیں۔ ان ہی کے دور حکومت میں ساہتیہ اکیڈیمی ، سنگیت ناٹک اکیڈیمی ، للت کلا اکیڈیمی ،انڈین کونسل برائے تمدنی تعلقات اور

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آ ف ٹیکنالوجی (این آئی ٹی) جیسے اہم تعلیمی اورو ثقافتی ادارو ں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ علم و ادب اور سیاست کا یہ روشن ستارہ 22؍فبروری 1958ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوگیا۔ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی سطح پر مولانا آزاد کے افکار و خیالات کو عام کریںتاکہ نوجوان نسل اسلاف کے کارناموں سے بخوبی واقف ہو سکیں۔ ان میں بھی حب الوطنی ، اصول پسندی، تنظیم وقت اور قومی اتحاد جیسے اوصاف پیدا ہو سکیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا