مولانا ابوالکلام آزاد …حکومت ہند کے پہلے وزیر تعلیم

سید علی حسین
مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ہندوستان کے عظیم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ایک نہایت مذہبی گھرانے سے تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اردو کے ایک عظیم عالم تھے۔ وہ مفسر قرآن تھے۔ وہ بیک وقت اچھے صحافی اور نثر نگار تھے۔ مولانا کی زندگی صحافت اور سیاست سے عبارت تھی۔ انہوں نے مذہب کے اعلیٰ و اصل مقصد سے دنیا والوں کو روشناس کروایا۔ ان کی سخت جدوجہد کی وجہ سے مسلمانان ہند قومی دھارے میں شامل ہوئے۔ سیاست میں مولانا آزاد کی نگاہیں بڑی دوررس تھیں۔ ان کے مشورے گرانقدر تھے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور آنجہانی پنڈت جواہرلال نہرو اکثر ان سے مشورے لیتے رہتے تھے۔ وہ اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انہوں نے جنگ آزادی کے معرکوں میں بڑی صعوبتیں اٹھائیں اورکئی بار قید و بند کی مصیبتیں بھی اٹھائیں۔ مولانا آزاد نے تقریباً پچاس سال تک ملک و قوم کی بے لوث خدمت و رہنمائی کی۔ وہ جنگ آزادی کے ایک زبردست و طاقتور سورما تھے۔ قومی سیاست میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اب وہ ہندوستانی تاریخ کا ایک درخشاں و اٹوٹ حصہ بن گئے ہیں جسے آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کرسکتیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ وہ ایک تابندہ ستارے کی طرح رہیں گے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک بلند پایہ صحافی تھے۔ انہوں نے 1912ء میں ’’ الہلال ‘‘ کا اجراء کلکتہ سے شروع کیا۔ اردو صحافت میں ’’ الہلال ‘‘ بے مثل صحیفہ تھا۔ ’ الہلال‘ نے صحافت کی دنیا ہی بدل دی تھی۔ اس کا اسلوب بیان اور مضامین کی جاذبیت ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس پرچہ کی مضمون آفرینی حالیؔ، شبلیؔ، اکبر الہ آبادی اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے قلمکاروں کو بھی محو حیرت کردیا۔ ’ الہلال‘ کی مانگ گھر گھر ہونے لگی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے خطابات کے جوہر بھی اس وقت سے عیاں ہونے لگے۔ ہر جلسہ کی رونق ان کی ذات سے ہونے لگی۔ ’ الہلال‘ بظاہر ایک سیاسی پرچہ تھا لیکن اس کی دعوت دینی بھی رنگ لانے لگی۔

انگریز حکومت نے ’ الہلال ‘ کو بند کروادیا۔ تب مولانا آزاد نے ’’ البلاغ ‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ ’ البلاغ‘ میں بھی وہی تاب و توانائی اور طاقت بیانی تھی جو ’الہلال‘ میں تھی۔ اب مولانا کا شمار چوٹی کے کانگریسی قائدین میں ہوتا تھا۔آزادی کی جنگ میں وہ گاندھی جی کے دست راست تھے۔ چنانچہ وہ کانگریس کے بڑے اور چوٹی کے قائدین بابائے قوم گاندھی جی، آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ احمد نگر کے قلعہ میں نظر بند کردیئے گئے تھے۔احمد نگر وہ سرزمین ہے جہاں سے ملکہ چاند سلطانہ نے حصول و بقاء آزادی کے لئے اُس دور کی عظیم مغل طاقت سے نبرد آزما ہوئیں اور شجاعت کے بے مثل جوہر میدان رزم میں دکھائے اور زخموں سے چور چور ہوکر جام شہادت نوش کیا۔

مولانا آزاد ، پنڈت جواہر لعل نہرو اور بابائے قوم گاندھی جی ایک ہی قطار میں تین ایستادہ کمروں میں نظر بند رہے جہاں گاندھی جی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی اور سیاسی تدبر و بصیرت سے واقف ہوئے۔مولانا ابوالکلام آزاد کی قربت و صحبت سے ہی پنڈت جواہر لعل نہرو میں اردو ادب کا ذوق پیدا ہوا۔ پنڈت جی نے احمد نگر کی جیل سے اپنی بہن کرشنا ہتھی سنگھ کو لکھا کہ میری ’’جنگ بیتی ‘‘کا پہلا حصہ اردو میں چھپ چکا ہے۔ منیجر مکتبہ جامعہ سے معلوم کرکے لکھو کہ ’’ جنگ بیتی ‘‘ کا دوسرا حصہ چھپا یا نہیں، اگر نہیں چھپا تو کب تک چھپے گا۔ وہ اپنی بہن کو مزید لکھتے ہیں کہ مولانا جی چینی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں، یہاں اس چائے کا برانڈ دستیاب نہیں ہے۔ تم فوراً اس چائے کا ایک ڈبہ بھیجو۔ چنانچہ کرشنا ہتھی سنگھ نے چینی چائے کا ایک پونڈ کا ڈبہ احمد نگر کی جیل بھجوایا۔ یہ بات اس کی غماز ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو کو اردو زبان سے نہایت رغبت و دلچسپی تھی ، اور انہیں مولانا آزاد سے کتنا اُنس اور محبت تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد نے’’ غبارِ خاطر‘‘ جو خطوط کا مجموعہ ہے ،احمد نگر کی جیل میں ہی لکھا تھا۔’ غبارِ خاطر ‘ اردو زبان کا بے مثل شاہکار ہے۔ علمی اور سیاسی بصیرت کا ایک بحر بیکراں ہے۔مولانا ابوالکلام کی اہلیہ محترمہ کی وفات ان کے احمد نگر جیل میں قیام کے دوران ہوگئی جو مولانا کیلئے ایک عظیم صدمہ تھا۔ مولانا نے اس عظیم نقصان کو بڑے صبر و شکر کے ساتھ رضائے الٰہی سمجھ کر برداشت کیا، یہی ایک مسلمان کی صفت ہے۔ انہوں نے انگریز حکمرانوں سے التجا نہیں کی کہ انہیں اپنی اہلیہ کی تجہیز و تکفین میں جانے کی اجازت دیں۔ کچھ وقفہ کے بعد مولاناآزادکو احمد نگر کی جیل سے بنگال کی بانکوڑہ جیل کو بھیج دیا گیا۔ مولانا آزاد قید بند سے جون 1945ء میں رہا ہوئے۔

اگسٹ 1947ء کو ملک کو آزادی ملی۔ ملک کی تقسیم سے ہندوستانی بہت مایوس اور پراگندہ خیال ہوگئے۔ اس وقت کوئی ایسا قدرآور مسلمان قائد نہ تھا جو مسلمانوں کو تسلی دیتا، ان کی ہمت بندھاتا اور حوصلہ دیتا۔ اس کام کو مولانا آزاد نے بڑی خوبی سے انجام دیا۔تقسیم ملک کے تہلکہ سے مسلمان ہراس اور درماندگی کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ مولانا آزاد اُن کی حمایت میں اُٹھ کھڑ ے ہوئے۔

دہلی شہر کی پُرشکوہ شاہجہانی مسجد میں مولانا ایک جامع تقریر کی۔ انہوں نے کہا : ’’ مسلمان اللہ قادر و قدیر کی طاقت پر توکل کرتا ہے۔ وہ کبھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہوتا۔ ہر مصیبت پر صبر و شکر بجالاتا ہے۔ اللہ کی ذات ہی مسلمان کو مایوسیوں کے اندھیرے سے نکال کر کامیاب و سرخرو کرتی ہے۔‘‘ ان کی یہ معرکۃ الآراء تقریر سارے اخبارات میں تفصیل سے شائع ہوئی۔ اس تقریر نے مسلمانان ہند میں ایک نیا عزم پیدا کردیا۔ وہ دوبارہ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے حال اور مستقبل کو درخشاں بنانے میں جُٹ گئے۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے مولانا کی علمی بصیرت دیکھ کر انہیں آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم مقرر کیا۔ آج ہندوستان تعلیم کے میدان میں خصوصاً سائنسی تعلیم و شعور آگہی میں جو عظیم مقام حاصل کیا ہے وہ صرف مولانا آزاد کی وضع کی ہوئی تعلیمی پالیسی کی دین ہے۔ مولانا آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک تابندہ ستارہ کی طرح روشن و درخشاں رہیں گے۔