ڈاکٹر اسماء فضلیت وصی
مولانا آزاد نے جب اردو کے ایوان میں قدم رکھا۔ اس وقت محسن الملک ، ذکاء اللہ، شبلی نعمانی ، محمد حسین آزاد اور سر سید احمد خان کے فانوس کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ، اس وقت ادب میں مرقع سازی کے بجائے سلاست، سادگی ، عام فہم ، اختصار اظہار کے ذریعہ ایک نیا ادبی معیار قائم کرنے کی جی توڑ کوشش کی جارہی تھی ۔ شبلی نعمانی ، سرسید احمد خان اور حالی کے نصیحت آموز صاف ستھرے مضامین عام فہم الفاظ سے ادب کی نئی عمارت تعمیر ہورہی تھی۔ ایسے عہد میں مولانا نے اپنا قلم اٹھایا۔ مولانا خود بھی مذکورہ اشخاص کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے لیکن سب سے زیادہ سر سید احمد خان کے اسلوب و فکر بیان کا اثر قبول کئے اور جدید و انوکھی تراکیبِ لفظی کے اسلوب کا ہنر مرزا غالب سے سیکھا۔
اسی زمانے میں مولانا آزاد کی ملاقات 1905 ء میں شبلی نعمانی سے بمبئی میں ہوئی دونوں ایک عرصہ تک علمی و ادبی صحبتوں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔ شبلی نعمانی نے مولانا آزاد کو ’’الندوہ‘‘ کا سب ایڈیٹر بنایا۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت خراب تھی، ایسے وقت میں قوم کو بیدار کرنے کیلئے انہوں نے کلکتہ سے 1914 ء میں ’’الہلال‘‘ جاری کیا ۔ پر زور دینی و سیاسی مضامین اور دلچسپ اسلوب تحریر نے ملک بھر میں ہلچل مچادی۔ اس اخبار نے اپنے تمام ظاہری و باطنی خصوصیات سے انقلاب پیدا کردیا۔
(1 تذکرہ
مولانا آزاد کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ بنیادی طور پر مولانا آزاد کے اسلاف کا تذکرہ ہے، جس کو 1916 ء میں انہوں نے لکھنا شروع کیا اس وقت مولانا آزاد رانچی میں نظر بند تھے ۔ اس تدکرہ میں خاندان کے حالات مفصل بیان کئے گئے ہیں، اس وقت جبکہ مولانا آزاد کی عمر صرف 29 سال کی تھی ۔ یہ کتاب مولانا آزاد کی نثر نگاری اور قوتِ تخیل کا بہترین نمونہ ہے۔
(2 تحریکِ آزادی (انڈیا ونس فریڈم)
جوکہ انگریزی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ جسے پروفیسر محمد مجیب نے کیا ہے اور اورینٹ لانگ مینس کلکتہ سے 1959 ء میں شائع ہوئی۔
(3 غبار خاطر
یہ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے قلعہ احمد نگر میں اپنے نظربندی کے زمانے میں نواب صدر یار جنگ مرحوم ، مولانا حبیب الرحمن خان شروانی و رئیس بھیکم پور کے نام لکھے تھے۔ مولانا آزاد 9 اگست 1942 ء کو بمبئی میں گرفتار کئے گئے اور 15 جون 1945 ء کو رہائی نصیب ہوئی ، یہ خطوط اسی تین سال کے تنہائی کی یادگار ہیں۔ان خطوط کی دو اہم باتیں جو ہمارے سامنے آتی ہیں یہ کہ خطوط میں فارسی اور اردو اشعار کثرت سے استعمال کئے گئے ہیں اور دوسری یہ کہ اس کے نثری حصہ میں دلاویزی اور خوبصورت اسلوب نظر آتاہے۔
(4 کاروان خیال
یہ بھی کتاب مولانا کے خطوط کا مجموعہ ہے جو غبار خاطر سے پہلے شائع ہولئی تھی جس میں نواب صدر یار جنگ ، مولانا حبیب الرحمن شیروانی کے نام لکھے گئے خطوط ہیں جو کہ مولانا آزاد کی اسیری احمد نگر سے پہلے کے ہیں جس کو مولانا عبدالشاہد خاں شروانی اپنے طویل مقدمے کے ساتھ ایڈٹ کر کے شائع کیا ۔
(5 نقش آزاد
یہ بھی کتاب مولانا کے خطوط کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے غلام رسول مہر سے کلام کیا ہے جس کو مہر نے ایڈٹ کر کے کتاب منزل لاہور سے شائع کیا۔
(6 تبرکات آزاد :
مولانا آزاد کے مکاتیب کا مجموعہ ہے جو کتاب منزل لاہور سے شائع ہوا تھا اس میں حالی ، شبلی ، سلمان ندوی وغیرہ کے خطوط ہیں جس کو غلام رسول نے مرتب کیا ۔
(7 مکاتیب ابوالکلام آزاد
یہ مولانا آزاد کے متفرق خطوط کا مجموعہ ہے جسے ڈاکٹر ابو سلمان اور شاہجہاں پوری نے مرتب کیا اور سند اردو اکیڈیمی نے اسے 1968 ء میں شائع کیا۔
(8 ملفوظاتِ آزاد
مولانا آزاد کے مختلف سوالات کے جوابات کا مجموعہ ہے ۔ جسے اجمل خان نے مرتب کیا اور مولانا آزاد کے نام ’’ادبی خطوط و جوابات‘‘ جو کہ زبان و ادب کے متعلق مولانا آزاد کے جوابات پر مشتمل ہے جو 1966 ء میں مکتبہ شاہراہ دہلی سے شائع ہوا۔
(9 نگارشات آزاد
یہ مولانا آزاد کے مختلف موضوعات پر مشتمل ہے تقریباً 26 مضامین جس میں زیادہ مذہبی ہیں۔ 350 صفحات کا یہ مجموعہ نیو تاج آفس دہلی سے 1960 ء میں شائع ہوا۔
(10 فلسفہ
ایک ایجوکیشنل کانفرنس جو 1948 ء میں منعقد ہوئی تھی جس کی صدارت ڈاکٹر رادھا کرشنن سابقہ نائب صدر جمہوریہ ہند نے کی تھی ۔ ایڈیٹروں کا ایک بورڈ مشرقی و مغربی فلسفہ کی نئی تاریخ ترتیب دینے کیلئے بنایا گیا تھا ۔ اس بورڈ کی جانب سے ایک کتاب مرتب ہوئی اس کتاب کا اصل متن اس تاریخ کا دیباچہ ہے جسے محمد وارث کامل نے اردو میں منتقل کیا، اس متن کے ساتھ بحثیں بھی شامل ہیں جسے مولانا آزاد نے ترجمان القرآن اور غبار خاطر میں بیان کیا تھا ۔ یہ کتاب مطبوعات چٹان لاہور نے شائع کی ۔
(11 ترجمان القرآن
مولانا آزاد کا ایک عظیم کارنامہ جو سادگی ، سلاست اور اسلوب کے اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
(12 خطبات آزاد
مولانا آزاد تمام علوم و فنون پر مہارت رکھتے تھے، ان کی تقاریر اور خطبات میں ایک قسم کا جادو تھا جو عوام کو متاثر کرتا تھا ۔ مولانا آزاد کی تقریریں ، خطبات سب منتشر حالات میں تھے جسے مالک رام صاحب نے اپنے مبسوط مقدمہ کے ساتھ ان سب کو ایڈٹ کیا جسے ساہتیہ اکیڈیمی نے شائع کیا۔
(13 قول فیصل
اس میں مولانا آزاد کا وہ بیان جو گورنمنٹ کے استغاثے کے جواب میں دیا گیا ، اس میں گرفتاری کی روئیداد اور مقدمے کی تفصیلات موجود ہیں۔ اس میں گاندھی جی کا تبصرہ شامل ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی شامل کیا گیا ہے جسے البلاغ پریس کلکتہ نے شائع کیا ہے۔