مولانا آزاد نیشنل اکیڈیمی حکومت کا خوش آئند اقدام

ظفر آغا

تاریخ میں چند شخصیات ہی ایسی ہوتی ہیں جو سیاست میں رہتے ہوئے اپنی سیاسی پارٹی سے بلند و بالا قد حاصل کرلیتی ہیں اور بغیر تفریق مذہب و ملت پر پارٹی ان کا احترام کرتی ہے ۔ اس حقیقت کی تازہ ترین مثال مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ۔ بھلا مودی حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل کوئی یہ تصور کرسکتا تھا کہ مودی سرکار مولانا آزاد کا یوم پیدائش دھوم دھام سے منائے گی ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جواہر لال نہرو کچھ معنوں میں مولانا سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے ۔ لیکن ابھی 14 نومبر کو جواہر لال نہرو کا یوم پیدائش جب منایا گیا تو اس پر سیاسی خیموں کے درمیان ایک رسہ کشی رہی جس نے اس موقع کو داغدار کردیا اس کے برخلاف 11 نومبر 2014 کو مولانا آزاد کا 125 ویں یوم پیدائش مودی سرکار کی جانب سے جس دھوم دھام سے منایا گیا اس کا اندازہ پہلے سے قطعاً نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اس روز دہلی کے وگیان بھون میں پہلی شاندار تقریب ہوئی جس میں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی ،وزیر انسانی وسائل و ترقی محترمہ سمرتی ایرانی اور وزیر اقلیتی امور محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے نہ صرف شرکت کرکے مولانا کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ وزیر تعلیم سمرتی ایرانی نے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کی یاد میں تعلیم کے فروغ کے لئے انتہائی اہم اسکیموں کو لانچ کیا ۔ مولانا آزاد کو اس سے بہتر نظرانہ عقیدت پیش نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ مولانا آزاد کی مکمل زندگی تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم کے فروغ میں گزری ۔ تب ہی غالباً جواہر لال نہرو نے مولانا کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم نامزد کیا اور اب ہر برس مولانا کا یوم پیدائش ملک بھر میں ’’یوم تعلیم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جو مولانا کی یاد کو قائم رکھنے کا بہترین طریقہ ہے ۔

یہ تو تھا مولانا آزاد کے یوم پیدائش پر ہونے والا پہلا فنکشن جو سارے ملک کے لئے اہمیت کا حامل تھا لیکن اسی روز شام کو دہلی کے اسکوپ بھون میں مرکزی وزیر اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ کی صدارت میں جو دوسرا فنکشن مولانا آزاد کے یوم پیدائش کی یاد میں ہوا راقم الحروف کی رائے میں پہلے فنکشن سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل تھا ۔ اولاً اس فنکشن کا فوکس اقلیتی بہبود تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کا مقصد اقلیتوں کو ہنر کی تعلیم دے کر ملک اور اقلیتوں دونوں کی ترقی کے لئے راہ ہموار کرنا تھا ۔ اس سے قبل کے راقم الحروف اس پروگرام کے بارے میں کچھ رقم کرے یہ بات یاد دلانی ضروری ہے کہ دور حاضر محض تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہنر کا بھی دور ہے بلکہ اس اکیسویں صدی میں تعلیم محض حصول علم کے لئے نہیں بلکہ ہنر کے لئے بھی ہوتی ہے ۔ مثلاً ڈاکٹر یا انجینئر جیسی ڈگری کا مقصد تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو ایک اعلی ہنر سے جوڑنا ہوتا ہے ۔ اس طرح اب یہ کمپیوٹر کا دور ہے چنانچہ اس دور میں جہاں دیکھو کمپیوٹر سکھانے اور اس کی ڈگری حاصل کرنے کے انسٹی ٹیوٹ نظر آتے ہیں ۔ دو لفظوں میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس کے ہاتھ میں کوئی ہنر ہو وہ فرد بھوکا نہیں مرسکتا ۔ یہ بات ہمیشہ سچ تھی اور دور حاضر میں تو اس سے بڑھ کر کوئی اور حقیقت نہیں ہے ۔
لب لباب یہ کہ اگر آج آپ کے پاس ہنر ہے تو آپ کی مارکیٹ ویلو ہے ۔ اگر ہنر نہیں ہے اور آپ محض بی اے جیسی ڈگری بھی کیوں نہ رکھتے ہوں مگر آپ کی مارکیٹ ویلو نہیں ہوگی ۔ اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر اعلی تعلیم حاصل کئے بازار سے کس طرح جڑ کر ترقی کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ ہم مسلمانوں میں اعلی تعلیم ہی نہیں بلکہ بنیادی تعلیم کا ہی فقدان ہے ۔ آخر اس اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے اس مسئلہ کا کیا ہوسکتا ہے کہ کم از کم تعلیم کے ساتھ مسلمان لڑکے لڑکیاں بازار سے جڑ کر روزگار کے لائق بن سکیں ۔ محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے مولانا آزاد کے یوم پیدائش کے موقع پر جو پروگرام اپنی وزارت کی جانب سے لانچ کیا اس کی افادیت یہی ہے کہ یہ پروگرام اقلیتوں میں ہنر کی تعلیم عام کرکے ان کو مارکیٹ ویلو کو بڑھانے اور ان کو روزگار دلوانے میں انتہائی کارگر ثابت ہوگا ۔ چنانچہ آیئے نجمہ ہبت اللہ نے ابھی ہنر کے تعلق سے جو پروگرام لانچ کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالیں ۔

11نومبر کو دہلی میں مرکزی وزیر محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے مولانا آزاد کے یوم پیدائش پر حکومت کی جانب سے ایک اکیڈیمی کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام ہے Moulana Azad National Academy for skills جس کو ’مانس‘ کا لقب دیا گیا ہے ۔ اب اس اکیڈیمی کا مقصد اور افادیت کیا ہے ! عموماً اکیڈیمی ایک ایسا مرکز ہوتا ہے جو اعلی تعلیم اور انعام و اکرام سے جڑا ہوتا ہے یہاں بڑے بڑے عالمی سمینار ہوتے ہیں مثلاً اردو اکیڈیمی ۔ لیکن مانس ایک ایسی اکیڈیمی ہے جو حکومت کی جانب سے کم تعلیم حاصل کئے ہوئے بچے بچیوں کو ایسے ہنر کی تعلیم اور ڈگری دے گی جس سے ان کو بازار میں جلد از جلد نوکری مل سکے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی جانب سے ملک اور عالمی ترقی کے لئے ایک پروگرام لانچ کیا تھا جس کا نام تھا ’’Make in India‘‘ اس کا مقصد تھا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار ہندوستان آکر اپنا سرمایہ لگائیں اور وہ جو بھی چیز بنانا چاہتے ہوں وہ ہندوستان میں آسانی سے بنائیں ۔ لیکن یہ اسکیم تب ہی کارگر ہوسکتی ہے جبکہ ملک میں ہر قسم کا ہنر موجود ہو ۔ اگر ہنر نہیں ہوگا تو سامان بنے گا کیسے اور ’’Make in India‘‘ جیسی اسکیم کامیاب کیسے ہوپائے گی ۔ چنانچہ مرکزی وزارت اقلیتی امور نے ’مانس‘ پروگرام کو لانچ کرکے Skill Development کو کامیاب کرنے کا کام کیا ہے ۔
ہندوستانی مسلمانوں میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ وہ صدیوں سے طرح طرح کی دستکاری میں ماہر رہے ہیں ۔ آج بھی جب مسلم بچہ کچھ نہیں کرپاتا تو وہ سڑک کے کنارے پنکچر لگانے کی دکان کھول کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر کار یا اسکوٹر میکانک بن جاتا ہے ۔ یا پھر بجلی کی مرمت یا پلمبر جیسا کوئی کام ہو ان سب ہنر میں بھی مسلم بچے خاص مہارت حاصل کرلیتے ہیں یعنی مسلمانوں میں skill (ہنر) حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صلاحیت کو دور حاضر کے بازار کے ساتھ جوڑ کر اس کو جلد از جلد روزگار کے ساتھ جوڑ دیا جائے ۔ نجمہ ہبت اللہ کا ’مانس‘ بس یہی کام کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے ۔ ابھی شروعاتی دور میں وزارت اقلیتی امور نے دو ہنر پر فوکس رکھا ہے ۔ پہلا پروگرام جو شروع کیا گیا ہے وہ Health care Training programme ہے جس کے تحت دو سو بچے بچیوں کو Bed side Attendent & Home Health care Attendent کا ہنر سکھایا جائے گا ۔ اس ہنر کی ہندوستان اور بیرون ہندوستان ہر جگہ بہت مانگ ہے اور اس کورس کی ڈگری لینے والا چار دن بھی خالی نہیں بیٹھ سکتا ہے اسی طرح دوسرا ہنر جو مانس شروع کررہا ہے وہ Security Training ہے ۔ آج ہر جگہ ہندوستان کیا دنیا بھر میں Security Guards کی ضرورت ہے ۔ کام زیادہ ہے اور کام کرنے والے کم ہیں ۔ حکومت سے ڈگری ملنے کے بعد اس ہنر کا کوئی بھی بچہ دنیا میں کہیں بھی قابل روزگار ہوجائے گا ۔ فی الحال یہ اکیڈیمی دہلی میں مولانا آزاد فاؤنڈیشن بھون ، نئی دہلی ریلوے ریزرویشن بھون کے سامنے قائم ہوئی ہے ۔ جلد ہی مانس اکیڈیمی کے سنٹر بھوپال ، جے پور اور دیگر جگہوں پر بھی کھولے جائیں گے ۔ حیدرآباد ، ممبئی ، لکھنؤ اور پٹنہ جیسے شہروں میں بھی مانس کا قیام ہونا چاہئے ۔ کیونکہ ان جگہوں پر کثیر مسلم اقلیتی آبادی ہے جہاں کم تعلیم کے ساتھ بچے اور بچیاں ہنر سے جڑ کر خود اپنا اور ہندوستان کا مقدر سنوار سکتے ہیں ۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی 125ویں یوم پیدائش پر اس سے بہتر کوئی اور خراج عقیدت نہیں ہوسکتا تھا کہ اقلیتوں کے بچے ہنر حاصل کرکے خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں ۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے ’مانس‘ پروگرام لانچ کرکے اس اہم کام کی داغ بیل رکھی جس کے لئے وہ قابل مبارکباد ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتیں اور بالخصوص مسلم اقلیت اس پروگرام کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تاکہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں ۔