موصل، تکریت کے بعد کرکوک پر بھی سرکاری کنٹرول نہیں رہا

بغداد ، 12 جون (سیاست ڈاٹ کام) عراق کی کْرد فورسز کا کہنا ہے کہ تیل سے مالا مال ملک کے شمالی شہر کرکوک سے عراقی فوج کے فرار ہونے کے بعد انھوں نے اس شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ کْرد فورس کے ترجمان جبار یاور نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’’کرکوک کْرد جنگجوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ اب کرکوک میں کہیں بھی عراقی فوج نہیں ہے‘‘۔ کْرد جنگجو سنی مسلمان عسکریت پسندوں کیلئے ڈھال کا کام کرتے ہیں جنھوں نے خطے کے دیگر قصبوں پر بھی رواں ہفتے قبضے کئے ہیں۔ اس دوران عراقی فورسز نے ملک کے وسطی شہر تکریت پر شدت پسندوں کے قبضے کے اگلے ہی روز اس کا کنٹرول مکمل طور پر واپس حاصل کر لیا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ بات عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن ’عراقیہ ٹی وی‘ پر بتائی گئی ہے۔

قبل ازیں موصل شہر پر قبضے سے مشرقِ وسطی میں بھی کئی خدشات نے جنم لیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) نامی تنظیم کی قیادت میں عسکریت پسندوں کا ارادہ ہے کہ جنوبی علاقوں کی جانب مزید پیش قدمی کریں گے جہاں دارالحکومت بغداد اور شیعہ اکثریتی علاقے ہیں۔ ادھر عراقی پارلیمان میں وزیرِ اعظم نوری المالکی کی جانب سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بارے میں بحث ہوئی۔ تاہم اس حوالے سے رائے شماری نہیں کی جاسکی کیونکہ اس عمل کیلئے ارکان کی مقررہ تعداد پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھی۔ اس سے پہلے چہارشنبہ کو عراقی سکیورٹی حکام نے بتایا تھا کہ کہ اسلامی شدت پسندوں نے منگل کو موصل کے بعد سابق صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی کو عراقی فوج نے فضائیہ کی مدد سے سمارا میں روک دیا ہے۔ شدت پسندوں کا تعلق دولتِ اسلامیہ عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) سے ہے۔

اس تنظیم کو القاعدہ کی شاخ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو متحد ہو کر عراق کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا چاہئے۔ اس سے پہلے عراق میں یونیسف کے سربراہ مارزیو بابیل کا کہنا تھا کہ موصل میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ وزیرِ اعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑنے کی بجائے فرار ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو سزائیں دی جائیں گی۔ بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق صوبہ نینوا پر دولتِ اسلامیہ کا کئی ماہ سے غیر رسمی کنٹرول تھا جس میں یہ تنظیم مقامی اہلکاروں سے بھتہ وصول کیا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کو شام کے بڑے حصے اور مغربی و وسطی عراق پر کنٹرول حاصل ہے اور اس کی کوشش ہے کہ عسکریت پسند سنی علاقے قائم کیا جائے۔