موسم گرما میں مسجد کے صحن میں نماز پڑھنا

سوال : اکثر لوگ موسم گرما میں صحن مسجد میں فرض نماز ادا کرتے ہیں ،بعض علماء فرماتے ہیں کہ منبر ومحراب یعنی اصل مصلیٰ سے علیحدہ نماز پڑھنے سے نماز کی افضلیت فوت ہو جاتی ہے اور بعض کا قول ہے کہ مسجد کا صحن داخل مسجد ہے اس لئے دونوں برابر ہیں ،یہ بات ظاہر ہے کہ نماز خواہ داخل مسجد ہو یا خارج مسجد سب جگہ ادا ہو جاتی ہے مگر جب مسجد و مصلیٰ بنا کر منبر و محراب قائم کیا گیا ہے تو اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ اصل مصلیٰ پر نمازپڑھنے میں فضیلت ہے ،لہٰذا گزارش ہے کہ تشفی بخش جواب ارسال فرمائیں ؟
سید حمایت علی،گڈی ملکا پور
جواب: مساجد میں منبر تو خطیب کے خطبہ پڑھنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں ،تاکہ مرتفع مقام پر کھڑے ہونے سے اس کی آواز دور تک جائے اور تمام حاضرین کو خطبہ سنائی دے ،وسط مسجد میں محراب قایم کرنے کی بڑی غرض و غایت یہ ہے کہ امام صف کے وسط میں قیام کرے ،کیونکہ امام کا صف کے کسی ایک جانب میں کھڑا ہونا اور برابر وسط میں نہ ہونا خلاف سنت اور مکروہ ہے رد مختار جلد ۱ صفحہ ۳۹۹۰میں ہے : قال فی المعراج وفی مبسوط بکر السنۃ ان یقوم فی المحراب یعتدل الطرفان ولق قام فی احد جانبی الصف یکرہ ،اوراسی صفحہ میں ہے :السنۃ ان یقوم الامام ازاء وسط الصف الا تری ان المحاریب ما نصبت الا وسط المساجد وھی عینت لمقام الامام ۔ امام کا محراب میں یا اس کے مقابل کھڑا ہونا اسی وقت ضروری سمجھا گیا ہے جبکہ جماعت کثیر ہو اور امام کے محراب میں کھڑے نہ ہونے سے امام کے وسط میں نہ ہونے کا اندیشہ و شبہ ہوتا ہے ،اور اگر یہ اندیشہ نہیں ہے تو امام محراب کے سوا ہر جگہ وسط صف میں کھڑا ہو سکتا ہے ۔چنانچہ رد مختار کے اسی صفحہ میں ہے :والظاہر ان ھذا فی الامام الراتب لجماعۃ کثیرۃ لئلا یلزم عدم قیامہ فی الوسط ،فلو لم لزم ذٰلک لایکرہ۔
مگر یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ امام مسجد کے دو ستونوں کے درمیان یا کسی گوشے یا کنارے میں ستون کے متصل نہ کھڑا ہو بلکہ وسط میں ایسی جگہ کھڑا ہو کہ اس کے پیچھے مصلیوں کی صف دونوں جانب برابر آسکے رد مختار میں اسی صفحہ میں ہے :والاصح ما روی عن ابی حنیفۃ انہ قال علہ الصلاۃ والسلام ـ’’توسطوا الامام وسد وا الخلل ۔بنا بریں صورت مسؤلہ میں جبکہ صحن مسجد داخل مسجد ہے اور امام کا محراب میں کھڑے ہونا محض وسط صف میں ہونے کیلئے لازمی ہے ، تو ایسی حالت میں اگر مصلیان مسجد موسم گرما میں بغرض راحت و حضور قلب امام کو محراب کے مقابل مسجد کے ستون سے علحدہ کھڑا کر کے نماز پڑھا کریں تو اس میں زوال فضیلت کا اندیشہ ہے ۔

طلاق کا کفارہ
سوال : ایک شخص نے بحالت غصہ اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اور اپنی جگہ سے علٰحدہ بھی کر دیا اب شوہر چونکہ بچوں کو اپنے پاس رکھ لیا ہے اور بچے کمسنی کے سبب پریشان ہیںاگر اس طلاق کا کوئی کفارہ ہو سکتا ہے تو بیان فرمائیں ؟
نام…
جواب: تین طلاق کے بعد زوجہ زوج پر حرام ہو جاتی ہے دوبارہ نکاح کرنا اس صورت میں درست ہے جبکہ دوسرا شخص اس مطلقہ سے نکاح صحیح کے بعد صحبت کر کے طلاق دے اور جب اس طلاق کی عدت ختم ہو جائے گی تب پہلا خاوند اس سے نکاح کر سکتا ہے ۔کنز الدقائق میں ہے :وینکح مبا نتہ فی العدۃ وبعدھا لا المبانۃ با الثلاث لو حرۃ وبا الثنتین لو امۃ حتیٰ یطأ ھا غیرہ ولو مراھقا بنکاح صحیح وتمضی عدتہ لا یملک یمین۔
لڑکے کو سات سال کی عمر تک اور لڑکی کو بالغ ہونے تک پرورش کرنے کا حق ماں کو ہے اور باب پر اس کا خرچ واجب ہے ۔رد المختار جلد دو باب الخضانۃ میں ہے :(والخضانۃ ) اما کانت او غیرھا (احق بہ) ای بالغلام حتیٰ یستغنی عن النساء وقدر بسبع وبہ یفتیٰ (والام والجدۃ )لام او لاب (احق بھا ) بالصغیرۃ (حتیٰ تحیض)ای تبلغ فی ظاہر الروایۃ ۔اسی باب میں ہے :(ولو تستحق)الحضانۃ (اجرۃ الحضانۃ اذا لم تکن منکوحۃ ولا معتدۃ لابیہ )وھی غیر اجرۃ ارضاعہ ونفقتہ کما فی البحر۔ پس صورت مسؤلہ میں زوج اگر اپنی مطلقہ ثلاثہ سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو چاہئے کہ حسب تفصیل سابق دوسرے شخص کی طلاق کی عدۃ ختم ہونے کے بعد نکاح کرے اور تا نکاح ثانی کمسن بچوں کو مدتِ مذکورہ تک خرچہ دیکر زوجہ کے پاس چھوڑے ۔واللہ اعلم بالثواب۔

ویران مسجد پر مکان
سوال : اگر کوئی شخص اپنی ذاتی زمین مسجد کے لئے وقف کی ،اور اس پر مسجد کی تعمیر ہوئی جس کا خود وہ شخص متولی تھا ۔اب وہ مقام ویران ہو گیا اور مسجد باقی نہ رہی ایسی حالت میں کیا وہ شخص اس کا وارث یا کوئی اجنبی شخص اس زمین پر مکان بنا کر اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا نہیں ؟
محمدادریس، کوٹلہ عالیجاہ
جواب: مسجد کے ویران و منہدم ہو جانے کے بعد بھی اس کی زمین بر بنائے قال مفتیٰ بہ قیامت تک مسجد ہی سمجھی جاتی ہے ،اس لئے اس زمین کو مسجد کے سوا کسی اور کام میں لینا شرعادرست نہیں ہے ،پس چاہئے کہ اس زمین کو غلاظت وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر حصار کھینچ دی جائے ،اور جب کوئی وہاں مسجد بنانا چاہے تو اجازت دی جائے ۔در مختار مطبوعہ بر حاشیہ رد المختار جلد ۳ کتاب الوقف میں ہے :ولو خرب ما حولہ واستغنیٰ عنہ یبقی مسجدا عند الامام والثانی ابدا الی قیام الساعۃ وبہ یفتیٰ ۔رد المختار میں ہے :وکذا لو کرب ولیس لہ ما یعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد آخر ۔

دست بوسی کرنا شرعاً جائز ہے
سوال : کیا بادشاہ ،استاد یا پیر یا والدین کی قدم بوسی کرنا اور ان کے قدموں پر پیشانی رکھنا اور ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا اور دست بوسی کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
عبدالقادر،مصری گنج
جواب: عادل بادشاہ یا پیر یا استاد اور والدین کا ہاتھ چومنا اور ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا درست ہے البتہ قدموں پر پیشانی رکھنا ،یا ان کے قدموں کو چومنا یا ان کے روبرو سجدہ کرنا درست نہیں ہے در مختار مطبوعہ بر حاشیہ رد المختار جلد ۵ کتاب الخطر والاباحۃ صفحہ ۲۵۳ میں ہے :لاباس بتقبیل ید الرجل العالم والمتورع علی سبیل التبرک ۔درر :ونقل المصنف عن الجامع انہ لا باس بتقبیل ید الحاکم المتدین والسطان العادل وقیل سنۃ ،مجتبی صفحہ ۲۵۴میں ہے وفی الرھبانیۃ : یجوز بل یندب القیام تعظیما للقادم ،کما یجوز للقاری بین یدی العالم ۔
عالمگیری جلد ۵ کتاب الخطر والاباحۃ باب ملاقاۃ الملوک والتواضع لھم صفحہ ۳۶۸ میں ہے :من سجد للسلطان علی وجہ التحیہ او قبل الارض بین یدیہ لا یکفر ولکن یاثم لارتکابہ الکبیرۃ ھو المختار صفحی ۳۶۹ میں ہے :الانحناء للسلطان او لغیرہ مکروہ لانہ یشبہ فعل المجوس کذا جواھر الاخلاطی ؛ویکرہ الانحناء عند التحیۃ وبہ ورد النھی کذا فی التمر تاشی اسی صبحی میں ہے ِوان قبل ید العالم او سلطان عادل لعلمہ وعدلہ لا باس بہ ھٰکذا ذکرہ فی فتاوی اھل سمرقند ،ان قبل ید غیر العالم اوغیر سلطان العادل ان اراد بہ تعظیم المسلم واکرامہ فلا باس بہ اسی جگہ ہے طلب من عالم او زاھد ان ید فع الیہ قدمہ لیقبلہ لا یرخص بیہ ولا یجیبہ الی ذٰلک عند البعض وذکر نعضھم یجیبہ الیٰ ذٰلک ،وکذا اذا استأذنہ ان یقبل رأسہ او یدیہکذا فی الغرائب۔

اگر مرغی نجاست کھا لے؟
سوال : اگر مرغی نجاست کھاتی ہے جب اس کو ذبح کرنا چاہیں تو کیا تین روز تک باند کر رکھنا چاہئے تاکہ اس کے جسم سے نجاست تحلیل ہو جائے ؟یا پھر بغیر باند کر رکھے اس کو ذبح کر کے کھا سکتے ہیں ؟
محمد عبدالقدوس، ملے پلی
جواب : مرغی چونکہ اکثر غلہ کھاتی ہے اور اس کے ساتھ کبھی نجاست بھی کھا لیتی ہے اس لئے اس کے گوشت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا نجاست کھا نے کے بعد تین روز تک بند رکھکر ذبح کرنے کا حکم بر بنائے احتیاط و نفاست ہے ورنہ بغیر اس احتیاط کے بھی اس کو ذبح کر کے بلا کراھت کھا سکتے ہیں ۔در مختار مطبوعہ بر حاشیہ رد المختار جلد ۵ صفحہ ۲۳۶ کتاب الخطر الاباحۃ میں ہے :ولو اکلت النجاسۃ وغیرھا بحیث لم ینتن لحمھا حلت ۔رد المختار میں ہے :(قولہ حلت )وعن ھٰذا قالو ا لا باس باکل الدجاج لانہ یخلط ولا یتغیر لحمہ وروی انہ علیہ السلام کان یاکل الدجاج ،وما روی ان الدجاجۃ تحبس ثلاثۃ ایام ثم تذبح فذٰلک علی سبیل التنزہ ؛زیلعی ۔واللہ اعلم بالثواب۔

شرعی حصوں کے خلاف وصیت نافذ ہو گی؟
سوال : زید اگر اپنی زندگی میں اپنے ورثاء کے لئے ایک وصیت نامہ لکھ دے اور اس میں ورثاء کی شرعی حصوں کے خلاف کسی کو کم اور کسی کو زائد لکھے تو کیا ایسی وصیت نافذ ہو گی ؟اور زید کی وفات کے بعد اس پر عمل ہو گا ؟
جواب :ـ مورث کی وفات کے بعد تمام ورثاء عاقل و بالغ اگر اس پر راضی ہوں تو اسی پر عمل ہوگا ورنہ حسب فرائض عمل ہوگا فتاویٰ مہدیہ جلد ۷ صفحہ ۱۵۹ کتاب الوصایا میں ہے : اما اذا کان التملیک مضافا الی ما بعد الموت کالمستفاد من ھٰذا السوال فینہ یکون وصیۃ لھم ولا تصح للوارث بدون رضا الباقی وھو بالغ مالم تکن کقسمۃ المیراث لما فی الانقو ریۃ من الوصایا یعلیلا لمسالۃ بقولہ :ان الوصیۃ لجمیع الورثۃ علی قدر حقوقھم فی الترکۃ جائزۃ لانھا لا تتضمن ابطال حق احدھم واللہ اعلم۔

جانوروں کی خصی کرنا
سوال : کیا جانوروں کی خصی کرنا جائز ہے؟
محمد سبحان،سکندرآباد
جواب: خصی کرنے سے اگر کوئی منفعت ہو تو جائز ہے ورنہ حرام ہے ۔فتاویٰ عالمگیریہ جلد ۵ صفحہ ۳۵۷میں ہے :خصاء بنی آدم حرام بالاتفاق ۔واما خصاء الفرس فقد ذکر شمس الائمۃ الحلوانی فی شرحہ انہ لا باس بہ عند اصحابنا واما فی غیرہ من البھائم فلا باس بہ اذا کان فیہ منفعۃ واذالم تکن فیہ منفعۃ او دفع ضرر فھو حرام کذا فی الذخیرۃ ۔در مختار جلد ۵ صفحہ ۲۵۷ میں ہے (و) جاز (خصائ)البھائم حتی الھرۃ اما خصاء الآدمی فحرام قیل والفرس وقیدوہ بالمنفعۃ والا حرام۔واللہ اعلم بالصواب۔