مودی ۔ کے سی آر تعلقات ملک کیلئے خطرناک : گنیش چکراورتی

نرمل ۔ 14 ؍ اکٹوبر ( جلیل ازہر کی رپورٹ ) نرمل کے سیاسی تاریخ میں سیاسی زلزلہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ آج ضلع مستقر نرمل کے بلدیہ کے صدرنشین اے گنیش چکراورتی ٹی آر ایس جن کے ہمراہ ٹی آر ایس کے اٹھارہ اراکین بلدیہ و مجلس اتحاد المسلمین کے اراکین بلدیہ ایک معاون رکن بلدیہ اور ایک سابق صدرنشین بلدیہ اے انورادھا نے ٹی آر ایس سے استعفی دے دیا ۔ آج تک ہم نے یہ سنتے آئے کہ فلاں قائد نے اپنے حامیوں کے ساتھ استعفی دے دیا ہے لیکن اس اندازے سے نرمل ہی نہیں ریاست کے کسی علاقہ میں بھی صدرنشین بلدیہ اراکین بلدیہ کے ہمراہ استعفی دیا ہو ‘ آج دوپہر مسٹر اے گنیش چکراورتی نے پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تمام اراکین کو اپنے ہمراہ بیٹھا کر اعلان کیاکہ آج ہم تمام ٹی آر ایس کو چھوڑ رہے ہیں ۔ اخباری نمائندوں کے اس سوال پر کہ اتنی بڑی تعداد میں پارٹی چھوڑنے کا سبب کیا ہے ؟ اے گنیش چکراورتی نے بتایا کہ سب سے پہلے ریاست کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھرراؤ کی ذہنیت اور ان کی نیت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ سیاست میری وراثت ہے ہمارے خاندان میں دور دور تک متعصب ذہنیت کا ایک بھی فرد نہیں جبکہ ہمارے خاندان کے افراد بلدیہ نرمل پر صدرنشین کے عہدہ پر کوئی بیس سال فائز رہے ۔ میری پیدائش سیکولر خاندان میں ہوئی ہے اور ہم مسلسل جائزہ لے رہے ہیں کہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے فرقہ واریت کو ہوا دینے والے نریندر مودی سے چندراشیکھرراؤ کی قربت بالخصوص نوٹ بندی میں تائید جی ایس ٹی میں تائید کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اصلیت بتا دی ہے ۔ ان تمام چیزوں کے دیکھتے ہوئے ہم نے طئے کیا ہے کہ سیکولرازم کی دھجیاں اڑانے والی قیادت کو اقتدار سے روکنے اورتمام طبقات بالخصوص اقلیتوں اور دلتوں کی ترقی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینے کے مقصد سے یہ قدم اٹھایا گیا ۔ مسٹر گنیش چکراورتی نے مقام رکن اسمبلی و کارگذار ریاستی وزیر کے دیرینہ تعلقات ہیں دراڑ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اراکین بلدیہ خود ہی کسی بھی واڑ میں عوامی مسائل کی یکسوئی کے لئے جو بھی وعدے کر رہے تھے اس کی توجہ وزیر موصوف کو دلائی جاری تھی تاہم ریاستی وزیر نے کبھی توجہ نہیں دی اور ہم کیا منہ لیکر پھر ایک بار رائے دہندوں سے ووٹ مانگنے جائیں ۔ یہ چیز بھی ہمیں بیزار کر رہی تھی کیونکہ چار سالہ دور اقتدار میں چندرشیکھرراو نے پہلے تو وعدوں سے انحراف کیا اورملک کے سیکولرزم کو تار تار کرنے والی شخصیتوں کا آلہ کار بن گئے ۔ جبکہ ہماری پرورش سیاسی خاندان میں ہوئی اور یہ تعلیم دی گئی کہ انسانیت کو اہمیت دی جائے ‘ ذات پات کو نہیں ۔ بعدازاں دو گھنٹہ بعد سابق رکن اسمبلی مسٹر اے مہشورریڈی اپنے حامیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ صدرنشین بلدیہ نرمل کی قیام گاہ پہونچے ۔ سینکڑوں حامیوں کی موجودگی میں صدرنشین بلدیہ نرمل مسٹر اے گنیش چکراورتی نے کانگریس میں شمولیت کا اعلان کردیا تمام اراکین بلدیہ اور صدرنشین بلدیہ کوالیٹی مہشورریڈی نے پارٹی کھنڈوا ڈال کر کانگریس میں شامل کرلیا اور اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مہشورریڈی نے کہا کہ آج کا تاریخی دن ریاست تلنگانہ میں کانگریس کی اقتدار پر واپسی کا بگل ہے ۔ کیونکہ ریاست کی تاریخ میں اجتماعی طور پر قیادت سے بیزار ہو کر کانگریس پارٹی میں اٹھارہ ٹی آر ایس کے اراکین بلدیہ اور دو مجلس اتحاد المسلمین کے اراکین کے علاوہ ایک معاون رکن اور سابق صدرنشین بلدیہ برائے انورادھا کے علاوہ دو سابق اراکین بلدیہ بھی ٹی آر ایس سے استعفی دے کر کانگریس میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ان تمام کا کانگریس پارٹی میں خیرمقدم کرتا ہوں اور یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب کانگریس ساری ریاست میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے برسراقتدار آئیگی ۔ یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ متحدہ ضلع عادل آباد کے مختلف اسمبلی حلقوں میں ٹی آر ایس کے امیدواروں کو عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ہر طرف عوام دیہی علاقوں میں شدت سے ٹی آر ایس کے مخالفت پر اتر آئے ہیں ۔ آج جن لوگوں نے پارٹی کو استعفی دے کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی ان میں صدرنشین بلدیہ اے گنیش چکراورتی وارڈ نمبر 1 لنگم وارڈ 4 پی سریکھا ‘ واڈر نمبر 5 ‘ ٹی نرسیا وارڈ 6 ‘پی چندرا کلاں وارڈ نمبر 11 ‘ اے راجو بانی وارڈ نمبر 12 اے منجولہ وارڈ نمبر 13 ‘ ایم اے علیم وارڈ نمبر 14 ‘ ایس سوپنا وارڈ نمبر 15 این ارون وارڈ نمبر 19‘ اطہر وارڈ نمبر 20 ‘ گوپی وارڈ نمبر 21 دنریش وارڈ نمبر 25 ‘ سوپنا وارڈ نمبر 26 ‘ اے سدھاکر وارڈ نمبر 27 ‘ بھوپتی ریڈی وارڈ نمبر 30 فرحت بیگم وارڈ نمبر 31 ‘ پی گنیش وارڈ نمبر 32 کے پدما وارڈ نمبر 34 سی روی شامل ہیں ۔ ٹی آر ایس سے اتنی بڑی تعداد میں استعفی دے کر کانگریس میں شمولیت کے ساتھ ہی نرمل کے سیاسی پس منظر یکسر تبدیل ہوگیا ۔ سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات ساری ریاست پر مرتب ہوں گے ۔ تاہم الیٹی مہشورریڈی کانگریس کے استحکام کو دیکھتے ہوئے کافی مسرور دکھائی دے رہے تھے ۔