محمد ریاض احمد
ملک میں 2019 کے عام انتخابات کے لئے نئی صف بندیوں کا آغاز ہوچکا ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ کوئی بھی اتحاد بنے یا بکھرے ان انتخابات میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کو 2014 جیسی کامیابی ہرگز نہیں ملے گی۔ ساتھ ہی 2019 وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے بھی پریشانیاں لے کر آئے گا اور شاید وہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے سے قاصر رہیں ، جبکہ عام انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے اور دوسری علاقائی جماعتوں میں اتحاد ہوگا اور ملک میں مخلوط حکومت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ موجودہ آثار و قرائین، سیاسی حالات، کسانوں، نوجوانوں، دانشوروں، خواتین، محنت کش طبقہ اور تاجرین کی مودی حکومت کے تئیں ناراضگی کا یقینا اپوزیشن فائدہ اٹھائے گی۔ حالات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انتخابی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل سمجھے جانے والی اترپردیش، بہار جیسی ریاستوں میں بی جے پی 2014 کے عام انتخابات کی طرح مظاہرہ نہیں کر پائے گی۔
مودی کی زیر قیادت انتخابات میں بی جے پی نے اُس وقت اترپردیش کی 80 میں سے 71 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، 5 پر سماج وادی پارٹی اور 2 پر کانگریس کو کامیابی ہوئی تھی (امیٹھی سے راہول گاندھی اور رائے بریلی سے سونیا گاندھی منتخب ہوئی تھیں) لیکن حال ہی میں پھول پور گورکھپور اور کیرانہ کے ہوئے ضمنی انتخابات میں مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی کی تائید سے سماجی وادی پارٹی کے امیدواروں اور کیرانا سے اجیت سنگھ کی پارٹی نیشنل لوک دل کی امیدوار محترمہ تبسم حسن نے غیر معمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے بی جے پی قیادت بالخصوص امیت شاہ، وزیر اعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر یوپی یوگی آدتیہ ناتھ کی نیند حرام کردی ہے۔ ان انتخابات میں دلچسپی کی بات یہ رہی کہ گورکھپور اور پھول پور کی پارلیمنٹ میں یوگی آدتیہ ناتھ اور ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ نمائندگی کررہے تھے۔ ریاست میں برسر اقتدار رہتے ہوئے اور فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل کر ہندو ووٹرس کا مذہبی استحصال کی ممکنہ کوشش کے باوجود بی جے پی امیدوار ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کے اتحاد کے سامنے ٹک نہیں پائے۔ اس سے بی جے پی قیادت کو اندازہ ہوگیا کہ 2019 کے انتخابات میں ریاست سے اسے کافی تعداد میں نشستیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اترپردیش میں جو پارٹی یا اتحاد زیادہ سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل کرتے ہیں وہی اقتدار پر فائز ہوتے ہیں۔ یوپی میں امید ہے کہ بی جے پی کو 30 سے 35 نشستوں پر ہی کامیابی مل سکتی ہے مابقی نشستیں سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، کانگریس اور نیشنل لوک دل کے حق میں جائیں گی۔ اپوزیشن کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ صدر کانگریس راہول گاندھی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے مقابل ایک دانشورانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں،
بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی ناکامیوں کو راہول گاندھی جس انداز میں منظر عام پر لارہے ہیں اس سے خود سنگھ پریوار پریشان ہے یہاں تک کہ این ڈی اے کا اہم حصہ سمجھی جانے والی شیوسینا بھی عہدہ وزارت عظمی کے لئے مودی کی بہ نسبت راہول کو موزوں تصور کررہی ہے۔ مودی جی جنہیں اپنے فن خطابت پر ناز ہے صرف اور صرف سنگھ پریوار کے استحصال پسندانہ طریقوں کا بہ آسانی شکار بننے والوں کو متاثر کرپا رہے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ، دانشور طبقہ، نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ کسانوں کے علاوہ تاجرین، بالخصوص چھوٹے تاجرین مودی حکومت کی پالیسیوں کو لے کر سخت نالاں ہیں۔ اس سلسلہ میں اترپردیش کے ایک کسان نے مودی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بڑا ہی اچھا جواب دیا، اس کا کہنا تھا ’’مودی ایک اچھا بیوپاری ہے لیکن اب ہم اس کا شکار نہیں بنیں گے‘‘ ویسے بھی امیت شاہ اور مودی کی جوڑی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مکار سوداگروں کی جوڑی ہے جنہوں نے مکیش امبانی، انیل امبانی، گوتم اڈانی اور ان کے قبیل کے کئی ایک صنعت کاروں کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔ بقول راہول گاندھی مودی جی کے پاس پریشان حال کسانوں سے ملاقات کے لئے وقت نہیں ہے لیکن اپنے صنعت کاروں دوستوں اور ان کے ارکان خاندان سے ملاقات کے لئے وہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ مودی جی نے قرضوں میں ڈوبے کسانوں کی مصیبتوں پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی لیکن اپنے صنعت کار دوستوں پر عائد قرض میں سے ڈھائی لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کردیا۔ 2019 کے عام انتخابات میں نریندر مودی اور بی جے پی و این ڈی اے کی امکانی ہزیمت میں کسانوں کے تئیں مودی حکومت کا رویہ، بے روزگاری میں اضافہ، نوٹ بندی جیسا معیشت کو دہلادینے والا فیصلہ، جی ایس ٹی کا نفاذ، فرقہ پرستی خاص کر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں پر بے تحاشہ مظالم، انہیں ان کے مذہبی فرائض سے روکنے کی کوشش، مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی گھناونی سازش، حیوانوں کے نام پر مسلمانوں کا قتل، ہجومی تشدد کا رجحان، سرکاری خزانہ پر مختلف انداز میں ڈاکہ ڈالنے والے (بینکوں کو دھوکہ دینے والے) صنعت کاروں کو فرار ہونے سے روکنے میں حکومت کی ناکامی، صرف بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگاکر مودی کا صنف نازک سے متعلق جھوٹا وعدہ، ملک میں عصمت ریزی کے خطرناک حد تک بڑھتے واقعات اور ان واقعات میں بی جے پی قائدین کے ملوث پائے جانے کے انکشافات اور بیرونی ملکوں میں پڑی اربوں ڈالرس بلیک منی واپس لانے میں ناکامی کا اہم کردار ہوگا۔ مودی حکومت پر گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ، قومی تحقیقاتی ایجنسی ( این آئی اے) دیگر مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں اور اداروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے بھی متعدد مرتبہ الزامات عائد کئے جاچکے ہیں۔ ان تمام حالات کو دیکھا جائے تو مودی اور بی جے پی کی شکست 2019 کے انتخابات میں یقینی دکھائے دیتی ہے
لیکن سنگھ پریوار اتنی آسانی سے ہار نہیں ماننے والا۔ ہندوستان کو جو مختلف مذاہب، ذات پات، رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والوں کا بین مذہبی اور دنیا بھر میں کثرت میں وحدت کی حیثیت سے ایک مثالی ملک ہے، ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا سنگھ پریوار خفیہ ایجنڈہ رکھتا ہے اور پچھلے ساڑھے چار برسوں سے اس نے اپنے اس ایجنڈہ کو عملی جامہ پہنانے کافی اقدامات بھی کئے ہیں جن میں ملک کی تاریخ کو مسخ کرنے کا ناپسندیدہ عمل بھی شامل ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اگرچہ میڈیا کے 98 فیصد گھرانوں نے جنہیں بلا شک و شبہ ’’بکاو مال‘‘ کہا جاسکتا ہے مودی حکومت کی چاپلوسی میں صحافتی اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اُڑادیں اور ہم یقین سے کہ سکتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز جنت نشاں ہندوستان میں صحافت کو گزشتہ چار ساڑھے چار سال میں جو نقصان پہنچا شائد ہی پچھلے 71 سال میں نہیں پہنچا ہوگا۔ بکاؤ میڈیا مودی جی کی حکومت کی ناکامیوں کو کارنامے بنا کر پیش کررہا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں ایسے موضوعات کو اچھالا جارہا ہے جس سے لوگوں کا بہ آسانی مذہبی استحصال ہو اور وہ غیر ارادی طور پر بی جے پی کے ووٹ بینک بن کر رہ جائیں اس میڈیا کے ذریعہ بی جے پی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہی ہندوتوا اور ہندووں کی نجات دہندہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کو ہندووں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہندووں کا سب سے بڑا مسئلہ ذات پات کا ہے اسے بی جے پی حل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ بی جے پی شریعت اسلامی میں مداخلت کی خاطر مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ رچ رہی ہے حالانکہ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ہندو بیوائیں ہر روز مر مر کر جی رہی ہیں۔ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں بلکہ کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں مذہب کا چولا اوڑھے عناصر نے ان مجبور و بے بس خواتین کے ساتھ اپنے منہ کالے کئے۔ حد تو یہ ہے کہ ان بیواوں کو پیاز، لہسن، خشک میوہ جات اور دوسری غذائی اشیاء کے استعمال سے تک روکا جاتا ہے۔
ہندو سماج میں جہز کی لعنت اس قدر موذی مرض کی طرح سرائیت کر گئی ہے کہ ہر روز کئی ہندو دلہنیں زندہ جلادی جاتی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں یہ خواتین پھانسی لے کر یا زہر پی کر خودکشی کرلیتی ہیں۔ ہندووں کے مفادات کی نگہبانی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے چہرہ پر یہ بھی ایک بدنما داغ ہے کہ ہندوستان میں خاص کر ہندووں میں صرف 20 سال میں 20 لاکھ سے زائد نومولودوں کو مادر شکم میں اور آنکھ کھولتے ہی اس لئے بڑے ہی سفاکانہ انداز میں موت کی نیند سلادیا گیا کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں۔ کیا مودی حکومت ہر روز دنیا میں آکر ظالموں کے ہاتھوں گلا گھونٹے جانے یا پھر نالوں یا موریوں کی نظر کئے جانے اور سنسان اور ویران میدانوں میں پھینک دیئے جانے، کوڑے دانوں میں ڈال دیئے جانے والی لاکھوں بچیوں کو بچا پائی ہے؟ ہندوستان آج کئی ایک مسائل کا شکار ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مودی حکومت میں ان مسائل کے حل کی صلاحیت نہیں۔ صرف وہ فرقہ پرستی اور ای وی ایم کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کررہی ہے (ایسا ہم نہیں بلکہ ساری دنیا بھی کہتی ہے) ۔ اگر 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو اتفاقاً کامیابی مل بھی جاتی ہے تو اس میں فرقہ پرستی اور اے وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں) میں گڑبڑ کا اہم رول ہوگا لیکن اپوزیشن اب جاگ چکی ہے۔ کانگریس، ترنمول کانگریس، بی ایس پی ، سماج وادی پارٹی اور کمیونسٹ جماعتوں نے اے وی ایم کی بجائے عام انتخابات میں بیالٹ پیپرس کے استعمال کا مطالبہ کیا ہے۔ بہرحال جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے کہ میڈیا بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی کی شکل میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کے بیج بونے میں مصروف ہے، ایسے فرضی سروے بھی پیش کررہا ہے جس میں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی اور نریندر مودی کی کامیابی کو یقینی قرار دیا جارہا ہے، لیکن غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں کئے گئے سروے میں یہ واضح ہوگیا کہ مودی جی کی مقبولیت دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ عام آدمی مہنگائی روکنے میں ان کی ناکامی سے نالاں ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیموں میں بے تحاشہ اضافہ نے ہر ہندوستانی کو متاثر کیا ہے۔ مختلف سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دلت اور آدی واسیوں میں بھی مودی کی مقبولیت گر گئی ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے موڈ آف دی نیشن سروے کروایا جس میں مودی کی مقبولیت میں جنوری 2018 سے جولائی 2018 کے دوران 4 فیصد کی کمی آئی جبکہ سروے میں حصہ لینے والے افراد میں 46 فیصد نے عہدہ وزارت عظمیٰ کے لئے راہول گاندھی کو مودی کا متبادل قرار دیا ہے۔ مودی حکومت کو گرانے اور عہدہ وزارت عظمیٰ پر راہول گاندھی یا کسی اور اپوزیشن قائد کو بٹھانے میں ترنمول کانگریس کی سربراہ و چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی اہم رول ادا کریں گی۔ انہی کی کوششوں کے نتیجہ میں فی الوقت اپوزیشن کا اتحاد مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ یوپی کی طرح بہار میں بھی جہاں بی جے پی مخلوط حکومت میں شامل ہے اس کی حالت خراب ہونے والی ہے۔ بہار کے بعد گجرات، راجستھان اور کرناٹک میں بھی بی جے پی کا مظاہرہ ناقص رہے گا۔ جموں و کشمیر، پنجاب، دہلی، مہاراشٹرا، تامل ناڈو اور آندھرا پردیش میں بھی بی جے پی کوئی خاص مظاہرہ کرنے والی نہیں ہے، ہاں گجرات میں اس کا مظاہرہ کسی قدر بہتر ہوسکتا ہے لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 26 پارلیمانی نشستوں میں سے کم از کم 21 نشستوں کے حدود میں واقع اسمبلی حلقوں میں کم ووٹ ملے ہیں۔ بہرحال بی جے پی سے آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو نے ناطہ توڑ لیا ہے اور مہاراشٹرا میں شیوسینا بھی شاید دوری اختیار کرلے۔ اکالی دل بھی اس اتحاد کو لے کر پریشان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عام انتخابات 2019 میں بی جے پی کس کا سہارا لیتی ہے۔ مذہب کا یا پھر ای وی ایم کا؟
mriyaz2002@yahoo.com