ظفر آغا
/16 مئی کو جب لوک سبھا چناؤ کے نتائج آرہے تھے اور یہ طے ہو گیا تھا کہ نریندرمودی اپنے دَم خم پر اگلی مرکزی حکومت بنا سکتے ہیں تو مجھ کو بے ساختہ ایک فلم کا ڈائیلاگ یاد آگیا۔ وہ فلم تھی مشہور ڈائرکٹر شیام بنیگل کی ’’جنون‘‘ دراصل فلم ’جنون‘ کا پس منظر 1857ء کی جنگ آزادی تھا، جس میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے ہاتھوں دہلی یعنی ہندوستان ہار کر اس ملک میں غلام ہو گئے تھے۔
راقم الحروف کو یہ فلمی ڈائیلاگ اس لئے یاد آیا کہ مودی کی شاندار جیت اور 1857ء کے پس منظر پر مبنی فلم جنون کے اس سین میں اس قدر مماثلت ہے کہ جس کا بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مودی کی فتح 1857ء کی غدر سے کم نہیں ہے۔ جس طرح 1857ء میں انگریزوں کے ہاتھ دہلی ہار کر مسلمان غلام ہو گئے تھے، اسی طرح مودی کے ہاتھوں دہلی ہار کر مسلمان ایک بار پھر غلامی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ مودی کو مسلمانوں کی بھرپور ہرانے کی کوشش کے باوجود وہ ہندوستان کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مودی اب کیوں مسلمانوں کو خاطر میں لائیں گے۔ مودی تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ ان کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت کتے کے پلے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس زبر دست ہار کے باوجود ہندوستانی سیاست کے موجودہ مسلم قائدین یا پھر یوں کہئے کہ فلم ’جنون‘ کے جاوید بھائی کی طرح اپنے اپنے گھروں کے آنگن میں بیٹھے کبوتر اُڑا رہے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف ٹیلی ویژن چیخ چیخ کر مودی کی شاندار فتح کا اعلان کر رہا تھا اور دوسری طرف خود کو قائد ملت کہنے والے مسلم قائدین کی جانب سے ایک لفظ بھی نہیں سنائی پڑرہا تھا۔ ایک موت کا سناٹا تھا، جو مسلم محلوں میں صاف نظر آرہا تھا اور اس سخت وقت میں کسی بھی مسلم قائد کے منھ سے ایک لفظ نہیں سنائی پڑرہا تھا، جو مودی کی جیت پر مسلمانوں کے لئے مرہم کا کام کرتا۔ بھلا کوئی قائد ملت بولتا تو بولتا کیسے! کیونکہ یہ خود ساختہ قائد ملت میر جعفر و میر صادق کی طرح پہلے ہی اپنے ضمیروں کا سودا کرکے مسلمان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے۔ اب ان کے پاس جاوید بھائی کی طرح محض کبوتر اُڑانے کے اور کوئی شغل نہیں بچا تھا۔
جی ہاں! /16 مئی 2014ء کو مودی کی فتح اور مسلم ووٹ بینک کی بھر پور شکست تھی۔ مسلم ووٹ بینک کے بارے میں راقم 2004ء کے لوک سبھا چناؤ کے بعد سے مسلمانوں کو ’’بادشاہ گر‘‘ لکھتا رہاہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ 2004ء کے لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی مسلمانوں نے اٹل بہاری واجپائی کو چناؤ ہرا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ کوئی مسلم نسل کشی کرواکر گجرات بھلے ہی جیت لے، لیکن اس کی پارٹی بغیر مسلم حمایت کے ہندوستان پر حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن 2014ء میں مودی نے بغیر مسلم حمایت کے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھرپور اکثریت سے جتاکر یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان بادشاہ گر تو کیا ہندوستانی سیاست میں چپراسی کی حیثیت کا بھی حامل نہ رہا۔ آخر بادشاہ گر کی حیثیت کھوکر مسلمان چپراسی کی حیثیت تک پہنچا کیوں؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ ذرا سوچئے کہ جس مسلم ووٹ بینک کے آگے پیچھے دس برسوں سے سونیا گاندھی، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی، لالو، نتیش کماراور نہ جانے کتنے لیڈر گھوم رہے تھے، اب یہ لوگ مسلم ووٹ بینک کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ مودی کی اس کامیابی نے ہر ہندوستانی جماعت کو ہندو سیاست کی طرف راغب ہونے پر مجبور کر دیا ہے، یعنی مسلمان کی ہندوستانی سیاست میں کوئی اہمیت ہی نہ رہی، یعنی مسلمان تو ہندوستانی سیاست کا چپراسی بھی نہ رہا۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔
کیا مسلمانوں کی یہ حیثیت بنانے کے لئے مودی ذمہ دار ہیں؟ کیا سنگھ پریوار نے کوئی کرشمہ دِکھایا کہ جس کے سبب مسلم ووٹ بینک برباد اور بے اثر ہو گیا؟۔ یہ مودی اور سنگھ کا کمال نہیں ہے، کیونکہ آر ایس ایس کے قیام اور ہندوستان کی آزادی سے اب تک کوئی بھی جماعت مسلم ووٹ بینک کی یہ حیثیت نہیں بناسکی تھی۔ آخر جب بابری مسجد شہید ہوئی اور سارا ہندوستان رام مندر کا دیوانہ ہو گیا تھا تو اس وقت بی جے پی کو اکثریت کیوں نہیں ملی؟ پھر گجرات میں 2002ء میں نفرت کو ہوا دی گئی، اس کے باوجود اٹل بہاری واجپائی ہار گئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان 2014ء سے قبل اپنی سوجھ بوجھ سے ووٹ ڈال کر ہندو فرقہ پرستی کے سیلاب روکے ہوئے تھے۔ لیکن اس بار ایسا کیوں ہوا کہ مسلمانوں کی عقل پہ تالے پڑ گئے اور مسلم ووٹ بینک منتشر ہوگیا؟۔
مودی اور سنگھ کو معلوم تھا کہ مودی کی شاندار قیادت اور میڈیا کے بھر پور پروپیگنڈے کے باوجود اگر کوئی مودی کے بڑھتے قدم کو روک سکتا ہے تو وہ محض متحدہ مسلم ووٹ بینک ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ مسلمان محض اپنا ووٹ ہی متحد ہو کر نہیں ڈالتے، بلکہ وہ تو یہ بھی بھانپ لیتے ہیں کہ کس حلقۂ لوک سبھا میں کونسی پارٹی بی جے پی کو ہرا سکتی ہے۔ بس وہ 2014ء سے قبل اسی کے ساتھ مل کر بی جے پی کو ہرا دیتا تھا۔ مسلمانوں کی اس سیاسی دُور اندیشی کو ختم کرنے کے لئے مودی اور اس کی ٹیم نے پچھلے دو ڈھائی برسوں میں مسلم ووٹ بینک کو تباہ کر نے کے لئے حکمت عملی تیار کی اور اس حکمت عملی کا بنیادی جز یہ تھا کہ مسلمانوں کے ذہن میں خصوصاً کانگریس اور ہر سیکولر پارٹی کے متعلق شک پیدا کردو کہ کانگریس نے دس برسوں میں کچھ بھی نہیں کیا۔ ملائم سنگھ اور مودی میں مظفر نگر فسادات کے بعد فرق کیا رہ گیا؟۔ مایاوتی چناؤ کے بعد مودی سے ہاتھ ملا سکتی ہیں اور نتیش کمار تو کل تک مودی کے ساتھ ہی تھے۔
یہ ایسی آوازیں تھیں، جو چناؤ سے پہلے اور چنائو کے آخری لمحوں تک مسلمانوں کے کانوں میں ہر وقت ڈالی جاتی رہیں۔ اس کا مقصد محض ایک ہی تھا کہ مسلمانوں کو کنفیوز کر دو، لیکن یہ کام کرے کون؟۔ سنگھ نے اس کام کے لئے ہر قائد ملت کو خریدلیا، اس لئے کہ کم و بیش ہر وہ جماعت جس کے آگے اسلامی، جمعیت، مشاورت یا بورڈ کا لیبل لگا ہوا تھا، یا تو وہ خاموش تھی یا پھر یہی بیان دے رہی تھی کہ کانگریس نے دھوکہ دیا، ملائم سنگھ نے مظفر نگر میں فساد کروایا، مایاوتی اور نتیش نے مودی سے ہاتھ ملایا۔ یعنی ہر قائد مسلمانوں کو یہی مشورہ دے رہا تھا کہ کجریوال کی عام آدمی پارٹی کا ہاتھ تھام لو، جس کا جنم خود سنگھ کی کوکھ سے ہوا ہے۔ بیچارہ مسلمان کرتا تو کر تا کیا، وہ کنفیوز ہو گیا، مسلم ووٹ بینک منتشر ہو گیا اور اب وہ 1857ء کی طرح غلامی کے دہانے پر ہے۔ اسی لئے مجھ کو فلم’جنون‘ کا یہ ڈائیلاگ یاد آرہاہے کہ ’’ہم دہلی ہار گئے اور جاوید بھائی آپ یہاں کبوتر اڑا رہے ہیں‘‘۔ جی ہاں! مسلمان ایک بار پھر دہلی ہار گئے اور آج کے خود ساختہ مسلم قائدین کبوتر اُڑا رہے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ ان کے بینک بیلنس بھر گئے اور ہمارے اور آپ کے گلے نَپ گئے۔