! …مودی کی سیکولر امیج

کوئی مندر میں جابیٹھا کوئی مسجد میں جابیٹھا
بُرا کیوں مانیں ہم واعظ عقیدہ اپنا اپنا ہے
! …مودی کی سیکولر امیج
وزیراعظم نریندر مودی کے دو روزہ دورۂ متحدہ عرب امارات کو ہندوستانی عوام کے منقسم احساسات کو گرمادینے والے واقعہ سے تعبیر کیا جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی ۔ ابوظہبی میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسجد شیخ زائد کا دورہ اور معائنہ برصغیر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ ابوظہبی میں ہی مندر کے لئے جگہ کی فراہمی کا اعلان بھی ہندوستان میں دو طبقوں کے درمیان ملے جلے احساس کو نئی سوچ دیتے ہوئے کئی سوال پیدا کردیئے ہیں۔ وزیراعظم مودی کا 34 سال بعد کسی ہندوستانی وزیراعظم کاپہلا دورہ یو اے ای ہے ۔ اس سے دونوں ملکوں کے دیرینہ تعلقات کومستحکم بنانے میں مدد ملے گی ۔ جہاں تک مسجد و مندر کا موضوع ہے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مسجد کا دورہ نہیں کیا ۔  وزیراعظم بننے کے بعد انھوں نے دیگر کئی ملکوں کاسفر کیا ، نیپال ، بھوٹان اور دیگر ممالک کے سفر میں مندروں کا دورہ کیا تھا اب عرب ملک کے سفر کے دوران مسجد کا دورہ کیا ہے تو اس کے پیچھے کئی سیاسی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں ۔ بہار میں آنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بہار کے مسلم رائے دہندوں کو ایک سیکولر پیام دینا ہے تو دوسری طرف مندر بنانے کیلئے ابوظبی حکام سے جگہ حاصل کرنے سے ہندو رائے دہندوں میں مودی کی امیج کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی ۔ لیکن مودی کی یہ ڈپلومیسی ان کے مزاج اور پارٹی کے نظریات کے بالکل برعکس ہے تو اس میں صفر کامیابی نہیں ہوگی ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ  نے اس نکتہ کی جانب موزوں سوال اُٹھایا ہے ۔ ہندوستان میں انھوں نے کبھی بھی کسی مسجد کا دورہ نہیں کیا اور خود کے امیج کو مخالف سیکولر لیڈر کے طورپر پروان چڑھاتے رہے ہیں اب وہ ہندوستان سے باہر عرب ملک میں مسجد کا دورہ کیا ہے تو اس کو صرف ایک سیاحتی سفر سے زیادہ نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ کیوں کہ ابوظہبی میں جامع مسجد شیخ زائد سیاحتی مرکز ہے ، یہاں آنے والا ہر شہری اس مسجد کو دیکھے بغیر نہیں رہتا ۔ اگر نریندر مودی نے ہندوستان میں کبھی کسی مسجد کا دورہ نہیں کیا، ٹوپی پہننے سے انکار کرنے والے مودی میں یہ تبدیلی سفری حد تک ہی سمجھی جائے تو ہندوستان میں کوئی خاص نمایاں تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی اور جو لوگ ابوظہبی میں مندر بنانے کیلئے جگہ کے حصول پر خوش ہورہے وہ اس کا سہرا وزیراعظم مودی کے سر باندھنے کی کوشش کررہے ہیں تو اُن کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمراں اپنی فراخدلانہ اور آزادانہ پالیسی کیلئے مشہور ہیں۔ دبئی اور دیگر مقامات پر ہندو مندر ، گرجا گھر ، گردوارہ بھی پہلے سے ہی موجود ہے ۔ دبئی میں 1958 ء میں پہلا مندر بنایا گیا تھا لہذا وزیراعظم مودی کے دورہ سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ متحدہ عرب امارات کے حکمراں سے مودی کی ملاقات کو مندر مسجد کے تناظر میں دیکھنے سے زیادہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خاص کر تجارتی روابط ، سرمایہ کاری ، عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔ متحدہ عرب امارات میں چونکہ گجراتیوں کی تعداد قابل لحاظ ہے اور تجارتی نکتہ نظر سے دبئی اس وقت گجراتیوں کیلئے پسندیدہ منزل بنتا جارہا ہے تو نریندر مودی کا یہ دورہ ہندوستان کے وزیراعظم سے زیادہ گجراتیوں کے نمائندہ کی حیثیت سے بھی متصور کیا جارہا ہے ۔ جس لیڈر کو ٹوپی پہننے سے اعتراض ہو جس نے مسلسل دو سال تک صدرجمہوریہ کی افظار پارٹی میں شرکت نہیں کی اور جس نے کسی مسلم کو لیڈر اور وزیر نہیں بنایا اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ وہ دبئی سے واپسی کے بعد ہندوستان میں سیکولر کردار کو مضبوط بنائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دستوری عہدہ کی مجبوری کو پورا کرنے کیلئے ہندوستان میں آئندہ کسی مسجد کا دورہ کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے متحدہ عرب امارات میں اپنی خارجہ پالیسی کو موافق سیکولر بنانے کی کوشش کی ہو اور ہندوستان میں اپوزیشن کانگریس کی ساکھ کو مزید خراب کرنے کیلئے ان کا یہ دورہ معاون ثابت ہوسکتا ہو اس سے ان کا باطن تبدیل نہیں ہوگا ۔ اگر باطن اور نظریات اور خفیہ پالیسیاں تبدیل ہوتی ہیں تو پھر مودی کے دورہ عرب ملک یو اے ای کو کامیاب قرار دیا جاسکے گا ۔یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان میں کس حد تک سیکولر تبدیلی آئی ہے ۔