مودی کی دعوت نواز کی آزمائش

محمود شام، کراچی (پاکستان)

ایک سال پہلے میاں نواز شریف نے بھی یہی کوشش کی تھی۔ ابھی سرکاری نتائج کا بھی اعلان نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے دی تھی ۔لیکن پھر ایسی ہاہا کار مچی کہ انہیں باقاعدہ سرکاری دعوت بھیجنے کا موقع ہی نہیں ملا۔مگر بھارت کی طرف سے تو با ضابطہ دعوت نامہ آیا ہے۔میرا ذاتی خیال تو ہے کہ میا ں صاحب کو جانا چاہیے اور وہ شاید جانے کی کوشش بھی کریں لیکن یہاں صرف کوشش نہیں ہمت کی ضرورت ہوگی ۔ملک میں جو ہلچل مچی ہے اس میں وہ حوصلہ دکھا سکتے ہیں ۔ذرا مشکل ہوگا ۔

امن کی آشا ۔اخباری گروپ کے لئے بھی نراشا بنی ہوئی ہے اور اس کی حمایت کرنے والے ججوں اور حکومتی حلقوں کے لئے بھی ۔میڈیا سے پچاس سال سے زیادہ عرصہ سے جڑے ہونے میں پاکستانی پریس پر ایسا برا وقت میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔عجب حالات ہیں۔ سرکار اس گروپ کے ساتھ ہے لیکن اسے بچا نہیں سکتی ۔پہلے سخت وقت اخباروں پر سرکار کی طرف سے آتا تھا اب کے جنتا باہر نکل آئی ہے ۔اخباری گروپ کے دفتر ملازموں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ سرکار کی جانب سے جب کسی چینل یا اخبار کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی تھی تو پوری برادری باہر حمایت میں آجاتی تھی ۔اس بار میڈیا کمیونٹی بٹ گئی ہے۔ جنگ جیو گروپ ایک طرف باقی سب دوسری طرف۔بعض اخباری لیڈر ان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن انہیں پوری برادری کا ساتھ نہیں مل رہا ہے۔میرا پاکستان ایک ہی وقت میں بہت برے حال اور بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے کہ کسی میڈیا گروپ کی ٹکر پہلی بار پاکستان کی طاقتور فوج سے ہوئی ہے

لیکن فوج نے روایتی انداز میں لاٹھی کا استعمال نہیں کیا ہے بلکہ پورے قانونی عمل کا سہارا لیا۔ جس پر انہیں بہت سے عوامی حلقوں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے مگر اس سے فائدہ یہ ہوا کہ پبلک کی ہمدردیاں بھی دھیرے دھیرے فوج کے ساتھ ہوگئیں ۔بہتری یہی ہے کہ ملک میں اب طاقت کے استعمال کی بجائے قانون کا راستہ اختیار کرنے کی عادت پڑ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف خرابی یہ ہوئی ہے کہ سرکار کی طرف سے ضروری کارروائی میں دیری سے ایسی بڑی تنظیموں کو میدان میں اترنے کا موقع مل گیا۔ جو شدت پسندی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جنہیں عام طور پر لوگ ووٹ نہیں دیتے نہ اپنی تقدیر کے فیصلے ان سے کرواتے ہیں ۔نواز سرکار ہرایسے معاملے کو سمجھنے میں دیر لگاتی ہے۔ پھر حالات اس کے ہاتھ سے باہر نکل جاتے ہیں ۔ان کا پہلا سال اسی ٹال مٹول میں گزرا ہے ۔

میں تو تین ہفتے پاکستان سے باہر تھا اس عرصے میں سیاسی گاڑی اتنی تیز چلی ہے کہ تاریخ پر نظر رکھنے والے بھی حیران رہ گئے ہیں ۔سیاسی پنڈت ایک بار پھر سرکار گرنے کی پیشینگوئیاں کررہے ہیں ۔عمران خان اپنی خیبر پختون خوا کی سرکار سے تو کوئی اچھے کام کروا نہیں سکے وہ ایک بار پھر الیکشن میں دھاندلی کی چیخ پکار کیلئے جلسے جلوس کر نے لگے ہیں اور ایک مذہبی اسکالر علامہ طاہرالقادری کینیڈا سے قوم سے خطاب کر رہے ہیں۔الیکشن جیسی ہوا بنائی جارہی ہے ۔لگتانہیں ہے کہ نواز سرکار زرداری کی طرح اپنے دن پورے کر پائے گی۔مشرف اور زرداری سرکاروں کے خلاف گٹھ جوڑ میں جو تکون کھڑی ہوئی تھی جو بڑی طاقت ور ہو گئی تھی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری ،نواز شریف،جنگ گروپ اس میں سے چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد عدلیہ کا مکمل ساتھ اس تکون کو نہیں مل رہا ہے۔
وکیل برادری کی ہمدردیاں اب ججوں کے ساتھ نہیں ہیں۔آئی ایس آئی کے چیف کو حامد میر پر قاتلانہ حملے کاالزام میں ملوث کر کے جنگ گروپ نے اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کیں اور نواز حکومت کے لئے بھی۔اب یہ کسی اور کے خلاف تو کیا پہل کریں گے انہیں اپنے آپ کو بچانے کی فکر پڑ گئی ہے۔سرکاریں تو آنی جانی ہوتی ہیں۔ گر گئیں تو پھر کسی الیکشن میں جیت کر آسکتی ہیں۔ لیکن میڈیا ایک بار اپنا اعتبار کھودے تو بحال ہونا مشکل ہوتا ہے۔ پرانے اخبار نویس چینلوں کی دھما چوکڑی سے اسی لئے بیزار رہتے تھے کہ بیلینس ختم ہورہا تھا۔ ٹھہرائو نہیں تھا ایڈیٹر کا مقام اور کنٹرول نہیں رہا تھا۔ مالکان اور اینکر پرسن سب کچھ تھے اور عقل کل بن گئے تھے۔خبروں کے بلیٹن میں فلمی گانوں کاا ستعما ل سوچے سمجھے بغیر ہوتا تھا۔ اپنی روایات اقدار ثقافت کو دھیان میں نہیں رکھتے تھے کسی وقت بھی یہ گڑبڑ ہو سکتی تھی جو ہو گئی اور جو معافیوں سے بھی تبدیل نہیں ہو رہی ہے ۔

میڈیا نے اپنی بے احتیاطی اور پروفیشنل کوتاہی سے اپنی آزادی خود خطرے سے دو چار کردی ہے ۔کسی اور کو دوش دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ میڈیا کے سینئر لوگوں کو سر جوڑکر بیٹھنا ہوگا اور خود کوئی کوڈ آف کنڈکٹ بنانا ہوگا ۔میڈیا جیسی طاقت کو صرف مالکان اور اینکرپرسنز پر چھوڑنے کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ اخبارات کی اپنی ایک تاریخ ہے پاکستان میں بھی ہندوستان میں بھی بڑی بڑی جنگیں انہوں نے لڑی ہیں۔ لیکن ایسی حالت نہیں ہوئی تھی۔یہ انتہائی افسوس ناک اور خطرناک ہے اس کو درست پس منظر سیاق وسباق میں جاننے کی ضرورت ہے تب ہی کوئی اپائے ہو سکے گا۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800