مودی کی اسرائیل سے بڑھتی قربت …؟

فیض محمد اصغر
ہندوستان ہمیشہ سے ہی عربوں کا حلیف سمجھا جارہا ہے اس نے انگریزوں کی غلامی اور پھر ان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی عرب ممالک کی ہر مسئلہ و ہر معاملہ میں تائید و حمایت کی جس کے نتیجہ میں عرب و مسلم ممالک اور ہندوستان کے باہمی تعلقات خوشگوار اور مثالی رہے ۔ ان خوشگوار تعلقات کی مثال وہ 70 لاکھ ہندوستانی ہیں جو خلیجی ممالک میں برسرروزگار ہیں اور ہر سال اپنے وطن کو 140 ارب سے زائد رقم روانہ کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ہندوستان کے سرکاری خزانے و بیرونی زر مبادلے کے ذخائر میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے اس کی ترقی و خوشحالی میں غیر معمولی اضافہ کررہے ہیں ۔ آج خلیجی ممالک میں چھوٹی چھوٹی دکانات سے لے کر ہائر مارکٹس ، مشہور ومعروف برانڈس کے آوٹ لٹس ، اسپتال ، کالجس ، اسکول ، میڈیکل کالجس و انفارمیشن ٹکنالوجی کے ادارے و کمپنیاں ، سونے چاندی کے بازار سب کے سب ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔ مشرق وسطی کی تعمیراتی صنعت پر بھی ہندوستانی تارکین وطن چھائے ہوئے ہیں ۔ عرب ملکوں کی حکومتوں اور عوام نے ہندوستانی تارکین وطن کو اپنا غلام نہیں بنایا بلکہ مہمان سمجھا ہے اور ہندوستان کی ترقی و خوشحالی میں عرب و مسلم ممالک کے رول کو اگر کوئی نظر انداز کرتا ہے تو وہ احسان فراموش ہوگا ۔ عرب ممالک سے بہتر خوشگوار تعلقات کے نتیجہ میں ہی ہندوستانی سڑکوں پر ڈیزل و پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں ۔ کیونکہ عرب ممالک ہندوستان کی 60 فیصد پٹرول ضروریات پوری کرتے ہیں۔ سال 2012-13 میں عرب ممالک اور ہندوستان کی باہمی تجارت 180کروڑ ارب ڈالرس ہیں ۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں جس طرح ہند ۔ چین باہمی تجارت میں چین فائدہ میں رہتا ہے ۔ اسی طرح خلیجی ممالک کے ساتھ باہمی تجارت میں ہندوستان نہ صرف فائدہ بلکہ بہت زیادہ فائدہ میں ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ اسرائیل کے دوست اور حامی وزیراعظم نریندر مودی کی کابینی رفیق مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ تارکین وطن ہندوستانیوں کیلئے ہندوستان جنم بھومی اور خلیجی ممالک کرم بھومی ہے ۔ عربوں سے اس قدر خوشگوار تعلقات کے باوجود نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کرہ ارض کے ناجائز اور بدقماش ملک اسرائیل سے قربتیں بڑھارہی ہیں ۔ اسرائیلی تعلقات قائم کرنے کا سہرا سابق وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ کو جاتا ہے ۔ 1992 میں باضابطہ اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کئے ۔ اس معاملہ میں پی وی نرسمہاراؤ نے عرب ممالک بالخصوص فلسطین کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی کو بھی پس پشت ڈال دیا ۔

پی وی نرسمہاراؤ نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے اس موقف اور ان الفاظ کوبھی نظر انداز کردیا جو انہوں نے 1938 میں تحریر کئے تھے ۔ گاندھی جی نے مملکت اسرائیل کے قیام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا ’’مشرق وسطی میں اسرائیل کا قیام انسانیت کے لئے جرم ہوگا‘‘ ۔ خود ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے 1944 میں اسرائیل کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دیا تھا ۔ اس طرح 1974 میں پی ایل او کو فلسطین کی سرکاری و نمائندہ تسلیم کرنے والا پہلا غیر عرب ملک بننے کا اعزاز بھی ہندوستان کو ہی حاصل رہا ۔ لیکن 1992 سے اسرائیل اور فلسطین کے تئیں ہندوستان کی جاریہ پالیسی میں بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں ۔ ہوسکتا ہیکہ یہ تبدیلیاں عرب ممالک سے ہندوستان کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوں ۔ پی وی نرسمہاراؤ نے عہدہ وزارت عظمی پر فائز رہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام ، بابری مسجد کی شہادت جیسے اقدامات کئے ہیں ۔ اس سے لگتا ہیکہ وہ کانگریس کے دور اقتدار میں بی جے پی کے وزیراعظم رہے۔

آج ہندوستان اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام ، اسرائیلی فورسس کی جانب سے کی جارہی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ، یہاں تک کہ ڈیپ فریزر میں رکھی ہوئی اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوئے معصوم فلسطینی بچوں کی نعشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو آگے بڑھایا ہے ۔ اس کا کریڈٹ پی وی نرسمہاراؤ کو جاتا ہے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کو حقیقت میں پی وی نرسمہاراؤ کا جانشین قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جن کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کیلئے بے چین ہے ۔ اب تو بی جے پی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر مالیتی عصری اسلحہ خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ ہمارے ملک کے 80 ہزار کروڑ روپئے میں دفاعی پراجکٹ کو منظوری دی اس میں سے 32000 کروڑ روپئے اسرائیل سے 8356 دبابہ شکن گائیڈڈ میزائل خریدے جائیں گے ۔ اسرائیلی ڈیفنس فرم رافیل اڈوانسڈ ڈیفنس سسٹم سے یہ میزائل خریدے جارہے ہیں ۔ اس معاملت کے لئے ہندوستان نے امریکہ کی ترغیبات اور پرکشش پیشکشوں کو بھی ٹھکرادیا ۔ جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے گجرات میں 2002 کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کے لئے وہ ساری دنیا میں بدنام ہیں ۔ اب بھی عوام انھیں گجرات کا قصائی کہتے ہیں ۔

گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے بھی مودی نے سال 2006 میں اسرائیل کا دورہ کیا حالانکہ دنیا کے اکثر ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ نے مودی کو ویزے جاری کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس وقت انھیں اسرائیل نے تھام لیا ۔
جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ 1992 سے ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کافی مستحکم ہوئے ہیں ۔ اس سلسلہ میں یہ لکھنا ضروری ہوگا کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران ہمارے ملک نے اسرائیل سے کم از کم 10 ارب ڈالرس کے اسلحہ خریدے ۔ اس طرح روس کے بعد اسرائیل ہندوستان کو ہتھیار سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے ۔ حالیہ عرصہ کے دوران غزہ پر جو فضائی حملے کئے اور جس قدر تباہی مچائی اس پر شاید بے زبان جانوروں کو بھی دکھ ہوا ہوگا ۔ اسرائیل کے فضائی حملوں میں 2200 سے زائد فلسطینی مارے گئے ۔ شہداء میں 500 سے زائد معصوم بچے تھے ۔ ان بچوں کی موت پر دنیا دہل گئی لیکن مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں غزہ پر اسرائیلی بربریت کی مذمت کرنے سے گریز کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ہندوستان عرب ممالک کے احسانات کے باوجود اسرائیل سے قربت حاصل کیوں کررہا ہے ؟ ۔ اس کا جواب یہ ہیکہ اسرائیل اور ہندوستان کی دائیں بازو جماعتوں کی پالیسیوں ان کی نظریات میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے لئے بدنام ہیں ۔ عالم اسلام میں انہیں غزہ کا قصائی کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کیلئے کافی بدنام و رسوا ہوئے ہیں ۔ انھیں مظلوم عوام گجرات کا قصائی کہتے ہیں ۔ سابق فرانسیسی صدر نکولاس سرکوزی نے یاہو کو دروغ گو ، بارک اوباما کو ناقابل فہم اور امریکی عہدیداروں نے انتہائی ذلیل شخص کہا ۔ ادھر ہندوستان میں صدر کانگریس سونیا گاندھی کے خیال میں مودی موت کے سوداگر اور جھوٹے سے تعبیر کیا ۔ بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی نرسمہاراؤ کے حقیقی وارث ہیں ۔ جہاں تک ہندوستان اور اسرائیل کی باہمی تجارت کا سوال ہے ۔ 1990 میں یہ صرف 200 ملین ڈالرس تھی لیکن جولائی 2013 تک باہمی تجارت سالانہ 16 ارب ڈالرس تک پہنچ گئی ہے ۔ 1992 سے 2013 تک ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان زرعی و آبپاشی ، سائنس و ٹکنالوجی ، تعلیمی ،تحقیقی ، سیکورٹی اور دفاعی تنظیموں میں متعدد معاہدات ہوئے ہیں ۔ خاص طور پر انسداد دہشت گردی و انسداد شورش کیلئے ہندوستان اسرائیل کی مہارت سے زبردست استفادہ کررہا ہے ۔ اور ہندوستانی پولیس عہدیداروں کو اسرائیل میں تربیت دی جارہی ہے ۔ نومبر 2011 میں ہندوستان کے کوبرا کمانڈؤ نے انتہا پسندی سے نمٹنے کی خاطر اسرائیل سے ہزار سے زائد X-95 اسالٹ رائفلس خریدے ہیں ۔ اسی طرح 2011 میں ہی ہمارے وطن عزیز نے یہودی مملکت سے چار کالکن AWACS طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ۔

ستمبر کے دوسرے ہفتہ میں امریکہ میں مودی اور نتن یاہو کی ملاقات نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے ۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان تعلقات کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے جو پڑوسی ممالک کی دہشت گردی کا نشانہ ہیں زبردست فائدہ ہوگا ۔ بالخصوص دہشت گردی سے نمٹنے میں یہ تعلقات کارگر ثابت ہوں گے ۔ اسرائیلی میڈیا میں ایسے مضامین بھی شائع ہوئے ہیں جس میں ہند ۔ اسرائیل تعلقات میں ہندوستان کی کثیر مسلم آبادی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جارہا ہے ۔ موجودہ حالات سے ایسا لگتا ہیکہ اسرائیل نوازی میں پوری طرح ڈوبی مودی حکومت اسرائیل کو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات پر ترجیح دے گی جبکہ اسرائیل ہندوستان کے ذریعہ علاقہ میں ایک نیا کھیل کھیل سکتا ہے ۔ اور اسی کھیل پرخاص طور پر چین کی بہت گہری نظر ہے ۔ اور شاید پاکستان کے سیاسی و فوجی حلقوں میں بے چینی کی لہر پائی جاتی ہے۔