مودی کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہئے

کلدیپ نیر
انٹلی جنس رپورٹ کے مطابق سرینگر میں مودی کی ریلی میں عوام کی جوبھیڑجمع تھی ، وہ کوئی زیادہ بڑی تعداد میں نہیں تھی ۔ اس لئے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ دعوی کہ ان کی ریلی میں لوگوں کی تعداد 4000 تھی ، درست نہیں ہے ۔ وہ ایک نکتہ کی وضاحت کرنا چاہتے تھے کہ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے وہ اپنی مرضی سے ملک کی کسی بھی ریاست کا دورہ کرسکتے ہیں ۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی اس وادی میں داخل ہونے کی کبھی بھی ہمت نہیں کرسکیں گے ۔ لیکن مودی نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر کے لال چوک کو سرینگر کا سٹی سنٹر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ علحدگی پسندوں کے چیلنج کا سامنا کرنے کی بھی ہمت رکھتے ہیں ۔

وہاں کے عوام کے لئے اس طرح کی باتیں سننا کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ہندوستانی حکومت ان کے لئے کچھ نہیں کرنے والی ہے ، جس طرح سابقہ حکومتوں نے ان کے ساتھ مذاق کیا ۔ یہ بھی اسی طرح کا ایک مذاق ہے ۔ ان کے اختیارات کم کردیئے گئے اور انھیں ترقی کے مواقع فراہم نہیں کئے گئے ۔ شیخ عبداللہ اس ریاست کے نہایت مقبول وزیراعلی تھے ۔ جنہوں نے اس وقت جب آزادی کی جد وجہد میں شامل تھے تو انھوں نے ناقابل بیان مصائب جھیلے۔ جب برطانوی حکومت کا زوال ہوا اور جب ریاست جموں و کشمیر کو اس بات کی آزادی دے دی گئی وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ضم ہوجائے اور آزادانہ طور پر ان دونوں سے خود کو الگ تھلگ رکھے تو جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے خود مختار اور آزاد رہنے کو ترجیح دیا ۔ لیکن جب پاکستان کی فوجوں نے وقتاً فوقتاً اسے نشانہ بنانا شروع کیا تو مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان کی حمایت کے طلبگار ہوئے ۔

اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے تب کہا کہ وہ اس ریاست کو آزادانہ اسٹیٹس کی منظوری نہیں دے سکتے ۔ لیکن مہاراجہ بالآخر جب ہندوستان کے ساتھ انضمام کے لئے رضامند ہوگئے تو بھی نہرو نے ان کی درخواست کو منظوری نہیں دی اور جب تک شیخ عبداللہ نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی تو اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ مودی کو عمر عبداللہ سے ملنا چاہئے تھا کیونکہ وہ اس ریاست کے منتخبہ لیڈر ہیں ۔ وہاں کے عوام نے انھیں اپنا لیڈر منتخب کیا ہے ۔ مودی کا ایجنڈہ بالکل مختلف ہے ۔ یہاں تک کہ مودی نے انھیں خاطر میں لایا ۔ دوسری طرف عمر عبداللہ نے بھی مودی سے دوری بنائے رکھی حالانکہ دونوں کو اپنے اپنے نظریات میں تبدیلی لانی چاہئے کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آسکیں ۔
یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ الیکشن مہم کے دوران مودی نے پاکستان کا نام لینا تک گوارا نہیں کیا ۔ کیا وہ اسے نظر انداز کرنا چاہتے تھے ؟ طویل المدتی حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے سے روابط بہتر نہ بنائیں ۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام آباد پورا کشمیر اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ حصہ جو نئی دہلی کے حصے میں ہے ، لیکن نہ ہی یہ ممکن ہے اور نہ ہی اس کا کوئی جواز بنتا ہے ۔ تمام عملی مقاصد کے لئے کشمیر کو خط قبضہ کے ذریعہ اس حد پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ کشمیری اپنی الگ شناخت کی بات کررہے ہیں اور وہ اسے ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔

موجودہ تناظر میں یہاں کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے اور اس کو حل کرنا اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے ۔ لیکن اس مسئلے کو معلق نہیں رکھا جاسکتا ہے ۔ جو کچھ بھی موجودہ وقت میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے وہاں کے حالات بہتر ہونے کی بجائے بگڑنے کے آثار زیادہ ہیں ۔ اب جبکہ دونوں ممالک کے پاس نیوکلیئر ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے تو ایسی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کی تلخی ہند و پاک دونوں کے لئے نہ صرف تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے یہ ایک خطرناک بات ہوسکتی ہے ۔ میں جو تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں اس سے دونوں ممالک کے چہرے مسخ ہونے سے بچ جائیں گے اور وہ اپنے مسائل بھی حل کرسکتے ہیں ۔ ایک ایسا حل جو پاکستان کو پسند نہیں آئے گا اور نہ ہی ہندوستان اس کے لئے تیار ہوگا ۔میری تجویز یہ ہے کہ پورا کشمیر ہندوستان کا وہ حصہ جو ہندوستان کے تحت ہے اور وہ جو پاکستان میں ہے ایک ہوجائے ۔ یعنی پاکستان کو دلی کے ساتھ اس بات پر متحد ہوجانا چاہئے کہ ٹریننگ ڈیفنس اور خارجہ امور اس کے تحت ہونے چاہئیں اور پاکستان بھی اس حصے کو اسی طرح اپنے طور پر استعمال کرے ۔ پھر جنگ بندی لائن کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی ۔ دونوں جانب کے کشمیری افراد کو ڈیفنس اور خارجہ امور کے علاوہ دیگر معاملات پر اختیار رکھیں گے۔
اگر ایسا نہ ہو تو ایک چھوٹی ریاست کے لئے خارجہ امور اور ڈیفنس پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ سوسائٹی کی فلاح اور بہتری اس کی ترجیح ہونی چاہئے ۔ دراصل کشمیر کی نئی ریاست کو ترقی کے امور پر خرچ کرنی چاہئے نہ کہ ہتھیاروں پر ۔ کشمیریوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہندوؤں کی اکثریت والا جموں اور بدھسٹوں کی اکثریت والا لداخ اس بڑی آبادی والے خطے کے تحت نہیں چاہیں گے جہاں مسلمانوں کی 95 فیصد آبادی ہے ۔

کئی سال قبل جب پاکستان میں پرویز مشرف کے ہاتھوں میں اقتدار تھا تو اس وقت ایک فارمولہ آگرہ سمیٹ کے طور پر سامنے آیا ۔ مشرف نے ہندوستان کی سرزمین پر اپنا پہلا بیان کشمیر کے بارے میں دیا تھا جب ان کی میٹنگ دہلی کے دانشوروں کے ساتھ ہورہی تھی ۔ یہ میٹنگ اس سمیٹ کے ایک روز قبل شام کو ہورہی تھی جہاں انھوں نے کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ انھوں نے کہا تھا کہ خط قبضہ کو سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی پاکستانی لیڈر اس بات کے لئے رضامند ہوتا ہے تو وہ اپنے ملک واپس نہیں جاسکتا ۔ لیکن مشرف کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ کوئی بھی ہندوستان کی حکومت اگر اس کے لئے تیار ہوگئی تو اس کا خاتمہ یقینی ہے ۔ کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی اس مسئلہ کا حل جمہوریت پر کاری ضرب کے مترادف ہوگا ۔
اب وقت آگیا ہے کہ مودی جب مکمل اختیار کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہیں تو انھیں کشمیر مسئلہ کا کوئی ٹھوس حل نکالنا چاہئے جو دونوں ممالک کے لئے قابل قبول ہو ۔ اور کسی طرح کی کوئی ناانصافی کا باعث نہ ہو ۔ اس لئے انھیں اگر کشمیر کو ترقی دینی ہے تو انھیں چاہئے کہ وہ برسوں پرانے کشمیر کے مسئلہ کو حل کریں جو دونوں ممالک (ہندوستان اور پاکستان) کی گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے ۔