ظفر آغا
یوگی آدتیہ ناتھ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ اترپردیش بخوبی کام کاج سنبھالا بھی نہیں تھا کہ مسلمانوں پر قہر ٹوٹ پڑا۔ مہنت یوگی کے اولین حکم ناموں میں سے پہلا حکم نامہ غیر قانونی مسالخ پر پابندی عائد کرنا تھا، نام کو تو یہ حکم محض غیر قانونی مسالخ کے لئے تھا مگر عالم یہ تھا کہ غیر قانونی مسالخ تو کیا اتر پردیش کے وہ تمام مسالخ جن کے پاس لائسنس موجود تھا وہ اس قانون کے چند گھنٹوں کے اندر بند کردیئے گئے اور پولیس نے کچھ مقامات پر ان مسلم گھروں میں بھی چھاپے مارنے شروع کردیئے جہاں شادیوں کی تقاریب ہورہی تھیں، انہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ شادی میں گائے کا گوشت تو نہیں کھلایا جارہا ہے۔ الغرض یوگی کے راج میں چند گھنٹوں کے اندر وہاں کے مسلمانوں پر ’’ فوڈ ایمرجنسی‘‘ عائد کردی گئی۔ بہ الفاظ دیگر یہ حکم صادر ہوگیا کہ اتر پردیش کا مسلمان یوگی آدتیہ ناتھ کی مرضی سے ہی اپنا کھانا کھا سکتا ہے۔
آخر اس نادرشاہی فیصلے کی اس قدر جلدی کیا تھی؟ مسالخ پر یہ عذاب کیوں ٹوٹا ؟ اس فیصلہ کے کئی اہم سیاسی، سماجی اور معاشی اسباب تھے جن پر روشنی ڈالنا لازمی ہے۔ اولاً یوگی حکومت سیاسی سطح پر دو اہم اشارے دینا چاہتی تھی۔ سب سے پہلے یہ فیصلہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب اترپردیش میں باقاعدہ ہندوتوا راج قائم ہوچکا ہے اور ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست باقاعدہ قانونی سطح پر ایک ہندو اسٹیٹ بن چکی ہے۔ اس طرح یو پی میں مسالخ پر پابندی عائد ہوتے ہی اترپردیش میں سنگھ کا ہندو راشٹر قائم ہوگیا۔ اس فیصلہ کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو چناؤ میں بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی سزا دی جارہی تھی۔ ساتھ ہی اس فیصلہ سے یو پی کے مسلمانوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا جارہا تھا کہ اب تم باقاعدہ دوسرے درجہ کے شہری ہو اور تمہارا کھانا پینا تک ہمارے قبضے میں ہے۔ یہ تو تھے اس فیصلے کے سیاسی اسباب، اس کے ساتھ ساتھ مسالخ پر پابندی عائد کرنے کے چند اہم معاشی اور سماجی اسباب بھی تھے۔ معاشی سطح پر مسلمانوں میں قصائی کا پیشہ ایک اہم پیشہ ہے، ملک میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہندوستان میں گوشت کی کھپت بھی بہت بڑھی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پیشہ ایک بڑی انڈسٹری کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ بھی ایک سماجی حقیقت ہے کہ ہندو سماج میں گوشت کھانے کو معیوب سجھے جانے کی وجہ سے اس انڈسٹری میں کثیر تعداد میں مسلمان ہی پائے جاتے ہیں۔ ویسے پسماندہ ہندو ذاتیں اور دلت بھی اس پیشہ میں پائے جاتے ہیں پھر بھی مسلمانوں میں بھینسے کا گوشت عام غذا ہونے کے سبب ہر مسلم بستی میں درجنوں گوشت کی دکانات پائی جاتی ہیں۔ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی بھی ہے، ظاہر ہے کہ ان حالات میں قصائی کا پیشہ بالخصوص مسلمانوں میں ایک اہم پیشہ بن کر اُبھرا ہے جس میں کم و بیش 50 فیصد مسلمان روزگار سے جڑے ہیں۔ اس پیشہ سے مسلمانوں کے ایک طبقہ کی معاشی حالت بھی کافی بہتر ہوئی ہے۔ غالباً اس وقت مسلمانوں میں قصائی معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ خوشحال طبقہ ہے۔ مسالخ کے تعلق سے یوگی جی کے ایک فیصلہ نے اس طبقہ کی معاشی طور پر کمر توڑ دی ہے۔
یہ تو رہا مسلم بستیوں میں واقع دکانات پر گوشت کے کاروبار کی تباہی کا حال۔ دوسری طرف ہندوستان دنیا بھر میں گزشتہ دو دہائیوں میں ’’ میٹ ایکسپورٹ‘‘ کا ایک اہم ترین مرکز بن کر اُبھرا ہے یعنی میٹ ایکسپورٹ انڈسٹری بھی گوشت کی تجارت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ آل انڈیا میٹ و مویشی ایکسپورٹ اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری فوزان علوی کے مطابق اس وقت ملک میں میٹ ایکسپورٹ کی تجارت لگ بھگ 50,000 کروڑ روپئے سالانہ کی ہے۔ حالانکہ اس تجارت میں کثیر تعداد میں غیرمسلم بھی موجود ہیں لیکن اس تجارت میں ابھی بھی مسلمانوں کا دبدبہ ہے اور اس انڈسٹری سے بھی کثیر تعداد میں مسلمانوں کو روزی روٹی مہیا ہورہی ہے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کی میٹ ایکسپورٹ تجارت کا تخمینہ ایک ہزار کروڑ روپئے سالانہ تک پہنچتا ہے تو پھر ہندو راشٹر میں یہ کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان مالدار ہوں اور وہ کوئی ایسے پیشہ سے وابستہ رہیں جس سے انہیں بڑی تعداد میں روزگار نصیب ہو یعنی مسلمانوں کی کمر توڑ دو۔ یہ اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے جس کے تحت کبھی مرادآباد کی براس انڈسٹری تو کبھی علیگڑھ کی تالا انڈسٹری اور کبھی میرٹھ کی قینچی انڈسٹری جیسی مسلم صنعت کو فسادات کے ذریعہ تباہ کیا گیا تھا۔ اب میٹ انڈسٹری نے مسلمانوں کو راحت دی تھی تو اس کی کمر بھی معاشی طور پر توڑی جارہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے یو پی چناؤ کے بعد دہلی میں منعقدہ بی جے پی کی ایک اہم میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایک ’’ نیو انڈیا ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر ویرساورکر اور سنگھ کے ایجنڈہ پر یقین رکھنے والے مودی کا ’ نیو انڈیا ‘ ہندو راشٹر ہی ہوسکتا ہے۔ اس ہندو راشٹر میں مسلمانوں کی حیثیت دوسرے درجہ کے شہری ہی کی نہیں بلکہ تیسرے درجہ کے شہری سے بھی بدترین ہوسکتی ہے تبھی تو یہ حال ہے کہ آپ کے باورچی خانہ میں کیا پکوان کیا جائے اور کیا نہیں کیا جائے اس کا فیصلہ بھی یوگی جی جیسوں کے ہاتھ میں ہوگا، اور یاد رکھیئے یہ فیصلہ محض اتر پردیش میں ہی نہیں لاگو ہوا ہے بلکہ ان تمام ریاستوں میں جہاں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے ہر جگہ مسالخ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایک انڈسٹری تھی جس کو اب منظم طریقہ سے محض یو پی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تباہ کیا جارہا ہے تاکہ مسلمان سر نہ اٹھا سکیں۔ مسالخ پر عائد پابندی کا لب لباب یہ ہے کہ مودی جی کے ’ نیو انڈیا ‘ میں نئے اچھوت کے طور پر زندگی بسر کرنے کیلئے مسلمانوں کو تیار رہنا ہوگا۔