مودی کا طریقۂ کار ۔ چند قدم پیش رفت

اشیماگوئل
پروفیسر معاشیات
اندرا گاندھی ادارہ برائے ترقیاتی تحقیق
جاریہ سال کے اوائل میں نریندر مودی کی بحیثیت وزیراعظم ہندوستان انتخابی کامیابی سے ملک کے لئے معاشی احیاء کی اُمیدیں پیدا ہوگئی تھیں۔ لیکن نئی حکومت کا پہلا بجٹ جولائی کے اوائل میں جب پیش کیا گیا جس کا مقصد اعلیٰ تر ترقی، روزگار، بہتر سہولتیں، انفراسٹرکچر اور حکمرانی ہے۔ لیکن نئے بجٹ کے اقدامات ان مقاصد کو کیسے حاصل کرسکیں گے، واضح نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی حکمت عملی اور لفاظی میں کچھ اتحاد ہے لیکن بیشتر اقدامات کافی اچھی طرح یکجہت نہیں ہیں۔ چنانچہ جامع کہانی نہیں سناتے۔ جن تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا ہے، مقدار کے اعتبار سے نمایاں اہمیت نہیں رکھتیں۔

حکومت کی بدانتظامی کی وجہ سے ہندوستانی معیشت طویل عرصہ سے ابتر ہے۔ بیرونی جھٹکوں کے علاوہ بلند افراط زر اور پست فروغ حکومت کے اخراجات کا نتیجہ ہے جن کی وجہ سے کئی اقسام کی غذائی اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ مسلسل زرعی تحدیدات نے مناسب طلب ۔ رسد پر ردعمل کو روک دیا۔ ناقص حکمرانی نے سودوں کی زیادہ لاگتوں کا بوجھ ہندوستانی معیشت پر لاد دیا اور خانگی سرمایہ کاری اور سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی۔ اس کی درستگی کے لئے قابلیت پیدا کرنے والی حکومت کے خرچ کے حصہ میں اضافہ ہونا اور تحدیدات درخواست کردی جانی چاہئیں۔

سابق معاشی نظاموں کے بحیثیت مجموعی جاری رہنے کے باوجود بجٹ بعض کلیدی معاشی مسائل کے حل کی کوشش ضرور کرتا ہے جو حالیہ برسوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ مختلف قسم کی سرمایہ کاری میں اضافہ اور سرمایہ کاری کے مالیہ کو بہتر بنانے سے ترقی اور ملازمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ مزدوروں کی کثرت کے شعبوں پر توجہ بشمول انفراسٹرکچر اور تعمیر امکنہ، زرعی مارکیٹنگ، دیہی برقی توانائی، شوارع اور آبپاشی، سرکاری اخراجات کی ہیئت میں تبدیلی شعبوں میں رکاوٹوں سے چھٹکارا دلائے گی۔ ٹیکس کے نظام اور سرکاری خدمات میں چھوٹی اصلاحات سے بھی سرگرمی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

اصلاحات کی کمزوری جس کا اظہار بجٹ میں ہوتا ہے، ہندوستان کی معیشت کی سمت میں تبدیلی کو دو کلیدی وجوہات کی بنا پر ممکن ہے کہ منحرف نہ کرسکے۔ پہلی وجہ یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا انتظامیہ سابق متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) سے زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ جبکہ یہ کمزور طبقات اور خسارہ کے اہداف کو ادائیگیوں کی منتقلی برقرار رکھتا ہے۔ اس کے پس پردہ رجائی مالی توسیعات ہیں۔ یہ توسیعات اندرون ملک اعظم ترین ممکنہ حد تک اور بین الاقوامی ترقی کے احیاء کی عکاس ہیں۔ تیل کی قیمتیں کم ہوچکی ہیں اور زیادہ طاقتور روپیہ اور ڈیزل کی قیمتوں میں خودکار اضافہ کی رعایتوں میں کمی کرے گا۔ اندرون ملک حصص منڈی کے کاروبار کے عروج کی وجہ سے سرکاری شعبہ کی صنعتوں کے حصص کی فروخت کے ذریعہ بھی مزید وسائل حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف اس وقت ممکن ہے اگر پرانی اور غیر منافع بخش حکمت عملیاں جیسے خسارہ کی پابجائی کے لئے سرمایہ کاری میں تخفیف کا طریقہ کار ترک کردیا جائے۔

بہتر عمل آوری ایسی حکمت عملیوں کے خطرات میں کمی کرتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ عمل آوری نئی حکومت کے لئے باعث تقویت ہوگی۔ لیکن اسے یقینی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس کے لئے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ وعدوں پر مبنی فہرستیں مابعد اصلاح ہندوستانی حکومتوں کا درجہ ان کے انتخابی وعدوں سے انحراف کی مقدار کی بنیاد پر مقرر کیا کرتی تھی۔ بی جے پی کی سابق مخلوط حکومت بجٹ کے تیقنات کی تکمیل کے لحاظ سے پہلی کانگریس اور پہلی یو پی اے حکومت کی بہ نسبت پیچھے تھا۔ بی جے پی کو اپنی کارکردگی کے مظاہرہ کا ایک اور موقع ملا ہے۔ لیکن اپنے مقام کو بہتر بنانے کے لئے اس بار اس کو کوشش کرنی چاہئے۔

دوسری وجہ یہ کہ خرچ کی ضروریات کو شعبوں میں دوبارہ مختص کیا جانا چاہئے۔ لیکن یہ عمل گزشتہ حکومت کے عبوری بجٹ سے شروع ہوا ہے جس نے انفراسٹرکچر، تعمیر امکنہ، پانی پر زور دیا اور سماجی خدمات کو نظرانداز کیا۔ اس لئے تسلسل کے باوجود بی جے پی نے ادعا کیا ہے کہ ضروری ازسرنو مختص کرنے کا کام کیا جائے گا۔ بی جے پی آبی وسائل پر نمایاں طور پر زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ مزدوروں کی کثرت والے صنعتی شعبوں، جیسے پارچہ بافی، سیاحت اور تعمیرات پر زیادہ خرچ کرنا چاہتی ہے۔مودی درحقیقت یو پی اے کے عبوری بجٹ کی بہ نسبت سماجی شعبہ کے لئے مختص رقموں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ضمنی طور پر رعایتوں میں اضافہ کے خواہاں ہیں۔ سماجی خدمات پر خرچ ضروری ہے لیکن ماضی میں ایسے خرچ سے جو دباؤ پیدا ہوا تھا، اس سے گریز کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے قابلیت پیدا کرنے کے مقصد سے خرچ کیا جانا چاہئے۔ بی جے پی اس کا ارادہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اثاثہ جات پیدا کرنے کے لئے دیہی روزگار کے انشورنس پر دوبارہ توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ رعایتوں کو معقول بنانے اور دیگر اخراجات میں کمی کے لئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔
تاہم کارکردگی میں اضافہ اور لاگت میں کمی پیدا کرنے کے مقصد سے وزارتوں اور اسکیموں کو معقول بنانے کی اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بجائے نئی اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے جن سے بعض ابتدائی درجہ کا سرمایہ بھی مربوط ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے وزارتی قلمدانوں کی تعداد کم یعنی صرف 45 ہے۔ جبکہ قبل ازیں یو پی اے کی دوسری میعاد میں یہ تعداد 71 تھی لیکن بجٹ میں صرف ایک کم قلمدان کے لئے رقم مختص کی گئی۔
مودی کے پہلے بجٹ کی اصلاحات کے اثرات دور رس نہیں ہوں گے لیکن اگر سمت واضح ہوتی تو یہ ایک قابل قبول نقطہ آغاز ہوتا۔ چنانچہ پالیسی کی سمت کے بارے میں وضاحت کا فقدان فکرمندی کی وجہ ہے۔ ایک طویل مدت میں پہلی بار ہندوستان میں ایک اکثریتی حکومت ہے جس نے اپنی میعاد کی ابتداء میں کارروائیاں کرنے کی عظیم آزادی حاصل کی ہے۔ نمایاں تبدیلی پر عمل آوری کے سلسلہ میں لاپروائی انتخابات کے نتیجہ میں جو آرزوؤں سے بھرپور اختیار حاصل ہوا ہے اس کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہوگا اور یہ بہت خطرناک بات ہے۔