ظفر آغا
آخر وہ وقت آ ہی گیا جس کا انتظار تھا ۔ جی ہاں ! آخر الیکشن کمیشن کی جانب سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے چناؤ کی تاریخوں کا اعلان ہوگیا ۔ قارئین واقف ہوں گے کہ 7 اپریل اور 12 مئی 2014 کے درمیان لوک سبھا کی 543 سیٹوں کے لئے ملک بھر میں چناؤ مکمل ہوجائے گا اور 16 مئی کو انتخاب کے نتائج آجائیں گے ۔ ملک بھر میں 81.4 کروڑ لو گ اس چناؤ میں ووٹ ڈالنے کے مستحق ہوں گے جو دنیا کی کسی بھی جمہوریت کی سب سے بڑی تعداد ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی چناؤ پر دنیا بھر کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں ۔ محض اس لئے نہیں کہ ہندوستان میں اگلی حکومت کون سی پارٹی بنارہی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ 2014 کے چناؤ کے بعد ہندوستانی سیاست کیا کروٹ لیتی ہے ۔
جی ہاں 2014 کے لوک سبھا چناؤ کوئی معمولی چناؤ نہیں ہیں بلکہ یہ چناؤ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے اب تک ہونے والے چناؤ میں سے سب سے اہم چناؤ ثابت ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ اس چناؤ میں محض یہ طے نہیں ہونا ہے کہ اگلا وزیراعظم یا اگلی صاحب اقتدار پارٹی کونسی ہوگی ، بلکہ اس چناو میں دو اہم مسائل طے ہونے ہیں جو یہ بھی طے کریں گے کہ ہندوستانی سیاست آنے والے وقتوں میں کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔یہ دو اہم مسائل جو حالیہ چناؤ میں طے ہونے ہیں وہ یہ ہیں ۔ اولاً آیا ہندوستان ایک باقاعدہ ہندو راشٹر کی شکل اختیار کرے گا یا نہیں اور دوم ہندوستانی معیشت میں غریبوں کا کوئی حصہ ہوگا یا یہ ملک محض امبانی اور ٹاٹا جیسے کارپوریٹ مالکان کا اجارہ بن جائے گا ۔
2014 کے لوک سبھا چناؤ میں ایک بات اور جو طے ہوچکی ہے وہ یہ ہے کہ ان چناؤ میں ایک جانب سنگھ پریوار کی پشت پر سوار نریندر مودی ہیں اور دوسری جانب ملک کی تمام وہ سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنے کو سیکولر کہتی ہیں ۔ یعنی چناؤ مودی اور دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے ، مودی اکیلے نہیں ہیں انکے ساتھ محض بی جے پی اور سنگھ پریوار کی ہی طاقت نہیں ہے بلکہ اس بار ملک کا کارپوریٹ یعنی سرمایہ دار طبقہ پوری طاقت کے ساتھ ہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی اور ہندو سماجی نظام نے یہ طے کررکھا ہے کہ ہر حال میں مودی کو ملک کا اگلا وزیراعظم بنانا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ملک کا میڈیا بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور ایماندارانہ صحافت کو پوری طرح بالائے طاق رکھ کر مودی کا کھل کر کمپیئن کررہا ہے اور مودی کو ہر طرح سے وزیراعظم بنوانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے ۔
مودی کا ایجنڈہ کیا ہے ؟ مودی کا ایجنڈہ بقول مودی گجرات ماڈل ہے ! گجرات ماڈل کیا ہے ؟ گجرات ماڈل کی دو خصوصیات ہیں ۔اولاً گجرات ماڈل کی سب سے پہلی کامیابی 2002 ء کے گجرات فسادات ہیں ۔ گجرات میں فساد نہیں ہوئے تھے بلکہ مودی کی قیادت میں بقول سونیا گاندھی ’مسلم نسل کشی‘ ہوئی تھی ۔ اس مسلم نسل کشی کا مقصد محض مسلمانوں کوڈرانا یا دھمکانا نہیں تھا جیسا کہ 1984ء میں سکھوں کے ساتھ دہلی کے فسادات میں ہوا تھا ۔ دہلی سکھ مخالف فسادات اور گجرات 2002 کے مسلم کش فسادات میں فرق یہ ہے کہ دہلی میں سکھوں کو اندرا گاندھی کے قتل کا مزہ چکھایا گیا تھا جبکہ گجرات میں مسلمانوں کو باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری بنایا گیا تھا ۔ دہلی میں آج سکھ سربلند کرکے چلتا ہے ۔ جبکہ گجرات میں مسلمان آج بھی دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔ یعنی مودی پورے ہندوستانی مسلمانوں کو گجرات ماڈل پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کا ارادہ کرچکے ہیں ۔ اسی لئے وہ سنگھ کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں کیونکہ سنگھ کو ہندو راشٹر چاہئے جس کی اب سنگھ تیاری کرچکا ہے ۔ گجرات ماڈل کا دوسرا اہم عنصر سرمایہ داروں کا ’ڈیولپمنٹ‘ ہے یعنی اس ماڈل کے تحت کسانوں کی زمین امبانی ، اڈانی ، ٹاٹا جیسے سرمایہ داروں کو کوڑیوں کے دام میں دی جائے گی ۔ چاہے کسان بھوکے مریں ۔ اسی طرح گجرات میں سارا ڈیولپمنٹ سرمایہ داروں کے لئے ہوگا اور غریب اللہ کے سہارے جئے گا ۔ یعنی ہندوستانی ریاست میں اب تک نہرو ماڈل کے تحت غریب کا جو حصہ تھا ، مودی گجرات ماڈل کے تحت اس حصہ کو ختم کردیں گے ۔
اس پس منظر میں 2014 کے لوک سبھا چناؤ کا اعلان ہوا ہے ۔ یعنی اگر گجرات ماڈل کامیاب ہوا تو یوں سمجھئے کہ آنے والے وقتوں میں ایک یقنی حکومت ہی نہیں قائم ہوگی بلکہ ایک نئے ہندوستان کی بنیاد رکھی جائے گی ۔ اس ہندوستان میں غریب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی اور اقلیتوں کے لئے نہ توکوئی جگہ ہوگی اور نہ ہی ان کو سر اٹھانے کی اجازت ہوگی ۔ اس کے لئے ملک کے کم و بیش تمام سرمایہ دار ، ملک کا ہندو سماجی نظام ،میڈیا ، افسران اور نظام کے جو بھی عناصر ہوسکتے ہیں وہ تمام عناصر اپنی پوری شد و مد کے ساتھ مودی کے گجرات ماڈل کو کامیاب کرنے کے لئے کمربستہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس چناؤ میں دولت کی ریل پیل ہوگی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ شروع ہوچکی ہے ۔ گجرات ماڈل کو کامیاب بنانے کے لئے اقلیتوں ، پسماندہ ، دلت اور ہر طرح کے غریب کے مفاد کا سودا کرنے کے لئے جو بھی تیار ہے اس کو منہ بولے دام دئے جارہے ہیں ۔ میڈیا خریدا جاچکا ہے اور اس میں کچھ اردو کے اخبار بھی شامل ہیں ۔ مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کرنے کے لئے اماموں کا سودا شروع ہوچکا ہے ۔ کچھ مسلم پارٹیاں بھی بنائی جارہی ہیں ۔ الغرض میر جعفر اور میر صادق کی بھی تلاش ہورہی ہے ۔
لب لباب یہ ہے کہ 2014 کے لوک سبھا چناؤ محض یہ نہیں طے کریں گے کہ اس ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا بلکہ یہ بھی طے کریں گے کہ آیا ہندوستان میں اقلیتیں سر اٹھاسکتی ہیں یا نہیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوگا کہ اس ملک کے غریبوں کا ہندوستان میں کوئی حق ہوگا یا نہیں ؟ ۔ ہندوستانی مسلمان اقلیت بھی ہیں اور غریب بھی اس لئے 2014 کے چناؤ ہندوستانی مسلمانوں کی گردنوںکا چناؤ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اگر اس چناؤ میں ذرا سی بھی لغزش ہوگئی تو بس یوں سمجھئے کہ چناؤ ہی نہیں ہاریں گے بلکہ گجرات کی طرح زندگی بھی ہارسکتے ہیں ۔