مودی چناؤ تو ہار رہے ہیں لیکن کیا وہ ہار آسانی سے تسلیم کریں گے؟

ظفر آغا

خدا خدا کر کے چناؤ ختم ہوئے۔ جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت چناؤ 2019 کا آخری مرحلہ جاری ہوگا۔ بس اب چناوی نتائج کا انتظار ہے۔ اور انتظار بھی کیسا کہ بس پوچھیے مت۔ آخر اس بار چناوی نتائج کے لیے بے چینی بھی فطری ہے۔ کیونکہ یہ چناؤ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے اب تک کے سب سے اہم چناؤ ہیں۔ اس بار محض یہ نہیں طے ہونا کہ اگلی حکومت کون بنائے گا، بلکہ اب تو یہ طے ہونا ہے کہ آیا ہندوستان اپنی گنگا-جمنی تہذیبی نہج پر قائم رہے گا کہ نہیں۔ کیوںکہ سنگھ نے تو اب باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر نریندر مودی اگلے وزیر اعظم بنے تو یہ ملک باقاعدہ ہندو-راشٹر بن جائے گا۔ مودی کے پچھلے دور میں جو کچھ کمی رہ گئی وہ اب پوری ہو جائے گی۔ پرگیہ ٹھاکر نے یوں ہی پچھلے ہفتے یہ نہیں کہا کہ گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے ’دیش بھکت تھا، ہے اور رہے گا‘۔ یہ بیان محض پرگیہ کا ذاتی بیان نہیں تھا۔ پرگیہ آر ایس ایس کی چہیتی ہیں۔ انھوں نے جس طرح سنگھ کے اشارے پر مالیگاؤں میں ایک مسلم قبرستان میں بم دھماکے کروائے تھے، اس سے سنگھ نے پرگیہ کو اپنی امان میں لے لیا تھا۔ ابھی بھوپال لوک سبھا سیٹ پر پرگیہ ٹھاکر کو دگ وجے سنگھ کے خلاف چناؤ لڑوانے کا فیصلہ بھی سَنگھ کا تھا۔ اور ان کا پورا چناؤ سَنگھ نے خود ہی لڑوایا۔ یعنی پرگیہ ٹھاکر نے گوڈسے کی تعریف میں جو بیان دیا وہ بیان سَنگھ کی ایما پر ہی دیا گیا تھا۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پرگیہ کے بیان کو سَنگھ کے دوسرے چہیتوں نے بھی دہرایا۔

الغرض، پرگیہ ٹھاکر کے بیان کے ذریعہ سَنگھ نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر مودی اگلے وزیر اعظم بن رہے ہیں تو ہندوستان گاندھی کا ہندوستان نہیں بلکہ سَنگھ اور بی جے پی کا ہندوتوا نظریہ کا ہندوستان ہوگا جو بالفاظ دیگر باقاعدہ ایک ہندو راشٹر ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی اگلے وزیر اعظم بن رہے ہیں! راقم الحروف چناؤ کے پہلے مرحلے کے بعد سے ہی یہ لکھتا چلا آرہا ہے کہ مودی چناؤ ہار رہے ہیں۔ جیسا پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ اتر پردیش میں مودی مخالف لہر نے وہاں بی جے پی کی کمر توڑ دی۔ جس صوبہ اتر پردیش سے پچھلی بار بی جے پی اور اس کے حلیف کو 80 میں سے 73 سیٹیں ملی تھیں وہاں اس بار بی جے پی کو 18-15 سیٹوں سے زیادہ ملنا ناممکن ہے۔ کیونکہ اتر پردیش میں بی جے پی کے خلاف زمینی سطح پر پچھڑوں، دلتوں اور مسلم اکثریت کا سماجی و سیاسی اتحاد بن گیا ہے۔ یہ تمام سماجی گروہ مل کر بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ یو پی میں بی جے پی ڈوب چکی ہے۔ یعنی بی جے پی کو یو پی میں کم از کم پچاس سیٹوں کا نقصان ہے۔

یہ تو رہی صور تحال اتر پردیش کی۔ پھر اس کے بعد ہر صوبہ میں بی جے پی 2014 میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس بار ہر صوبہ میں دو، چار، دس سیٹوں کانقصان تو ہونا ہی ہونا ہے۔ یعنی یو پی میں ہونے والا خسارہ کہیں سے کم ہونے کی جگہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بی جے پی کو امید تھی کہ وہ اس خسارے کو غنڈہ گردی کے ذریعہ بنگال، آسام اور نارتھ ایسٹ سے پورا کر لے گی، لیکن بنگال میں ممتا بنرجی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر وہاں بھی بی جے پی کی ساری کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ آسام اور نارتھ ایسٹ میں سٹیزن بل نے کھیل خراب کر دیا۔ اب اس پس منظر میں بی جے پی پھر سے اقتدار میں آئے تو آئے کیسے!

لیکن بی جے پی کوئی کانگریس نہیں کہ عوامی فیصلے کو سر آنکھوں پر رکھ کر جو چناوی نتائج آئیں ان کو تسلیم کرے اور خاموشی سے اقتدار سے دست بردار ہو جائے۔ پھر جیسا عرض کیا کہ سَنگھ تو نریندر مودی کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہندو راشٹر بنانے کو کمربستہ ہے۔ سنہ 1925 میں سَنگھ کے قیام سے اب تک آر ایس ایس نے ہندو راشٹر کا جو خواب سجایا ہے اس کو وہ آسانی سے چکناچور ہونے نہیں دے گی۔ یعنی چناوی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش کے پورے امکان ہوں گے۔ لیکن یہ کام ہو کیسے سکتا ہے! اس کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ووٹنگ مشینوں کے ساتھ کوئی ایسا کھیل کیا جائے کہ حقیقتاً جو نتائج ہونے چاہئیں وہ بی جے پی کی جیت میں تبدیل ہو جائیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور سیول سوسائٹی کے اہم کارکنان ووٹنگ مشین کے بارے میں اس خطرے سے آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ لیکن مودی کے ہاتھوں بکا ہوا الیکشن کمیشن کچھ سننے کو راضی ہی نہیں ہے۔ یعنی اگر ووٹنگ مشین کے ذریعہ کچھ گڑبڑی ہوتی ہے تو کمیشن کان نہیں دھرے گا۔ اور اگر یہ ممکن نہیں ہوا تو دوسرا راستہ وہ ہو سکتا ہے جو امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کارکنان نے کولکاتا میں اپنایا تھا۔
امیت شاہ محض ایک سیاسی شخص نہیں ہیں۔ وہ مودی اور سَنگھ کے بہت کامیاب منیجر بھی ہیں جو غنڈہ گردی سے لے کر ہر قسم کے تشدد کا کام بھی سرانجام دلوا سکتے ہیں۔ آخر انہی امیت شاہ پر مودی کے گجرات کے دور میں کوثر بی اور دیگر افراد کو فرضی انکاؤنٹر کروانے کا الزام لگا تھا۔ اسی الزام کے سبب امیت شاہ کو عدالت نے گجرات سے چھ ماہ کے لیے تڑی پار بھی کر دیا تھا۔ گو عدالت سے اس معاملے میں وہ بری ہو گئے لیکن زیادہ تر افراد آج بھی ان کو ان معاملات میں معصوم ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر خود سَنگھ کے پاس وشو ہندو پریشد اور ہندو یوا واہنی جیسی نہ جانے کتنی تنظیمیں ہیں جو موقع در موقع گجرات جیسے نہ جانے کتنے فسادات میں ملوث رہی ہیں۔ یعنی مودی کو دوسری بار وزیر اعظم بنانے کے لیے ملک میں ہنگامہ آرائی بپا کروانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے لیے بھی امیت شاہ سے لے کر پرگیہ ٹھاکر جیسے ماہر موجود ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی اپنی طرز کے پہلے وزیر اعظم ہیں جن کا بنیادی سیاسی مشن ہندوستان کی خدمت کرنا نہیں بلکہ ہندوستان کو سَنگھ کے نظریہ کے طرز پر ہندو راشٹر بنانا ہے۔ پھر سَنگھ خود تو ملک کو ہندو راشٹر بنانے پر کمربستہ ہے ہی۔ اس پس منظر میں نریندر مودی چناؤ ہار کر خاموشی سے اقتدار سے دست بردار ہو جائیں تو یہ حیرت ناک بات ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستانی عوام کا دباؤ ہوگا کہ جس کے بوجھ تلے مودی اور امیت شاہ جیسے تشدد میں یقین رکھنے والے بھی جھک جائیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یاد رکھیے کہ ہندوستان کو ایسا خطرہ لاحق ہے جس کا اندازہ ابھی سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے حزب اختلاف پارٹیوں کو ابھی سے محض اگلی حکومت بنانے کی حکمت عملی پر غور و خوض کرنے کے ساتھ ساتھ چناوی نتائج کے بعد خطرناک امکانات سے نمٹنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے مودی اقتدار سے شرافت کے ساتھ باہر جانے والی شئے نہیں ہیں۔ اور مودی کی حرکتوں کا جواب صرف ممتا بنرجی کے طرز پر ہی دیا جا سکتا ہے، جس کے لیے اپوزیشن کو ابھی سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔