مودی مخالف مجوزہ عظیم اتحاد کی راہ آسان نہیں

کرناٹک ۔ /29 مئی (سیاست ڈاٹ کام)کرناٹک کے وزیراعلیٰ کی حلف برداری تقریب میں یکجہتی دکھانے والے اپوزیشن کے رہنماؤں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا وہ 2019 کے عام انتخابات تک متحد رہیںگے؟کرناٹک میں کانگریس جے ڈی ایس کی حکومت بن چکی ہے۔ وزیراعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی نے اپنا ٹرسٹ ووٹ بھی حاصل کر لیا ہے۔ مگر اس بار کرناٹک کا یہ انتخاب صرف ایک ریاست بھر کا مسئلہ نہیں رہا۔ اس انتخاب اور اس کے بعد ہوئے واقعے نے ملک کو اگلے عام انتخابات کی ایک تصویر دکھانے کی کوشش کی۔دراصل، بینگلورو میں اس حکومت کی حلف برداری تقریب کے دوران کمارسوامی اور ان کے والد 85 سالہ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیو گوڑا کے استقبال میں یو پی اے صدر سونیا گاندھی، کانگریس صدر راہل گاندھی، لوک سبھا میں کانگریس کے رہنما ملکارجن کھڑگے، سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو، بسپا سپریمو مایاوتی، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس صدر ممتا بنرجی اور این سی پی کے رہنما شرد پوار موجود تھے۔ان کے علاوہ راجد رہنما تیجسوی یادو، لوکتانترک جنتا دل کے شرد یادو، جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ اور جھاممو رہنما ہیمنت سورین، جھارکھنڈ کے ایک اور سابق وزیراعلی ٰبابولال مرانڈی، راشٹریہ لوک دل کے چودھری اجیت سنگھ، سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری، سی پی آئی کے سکریٹری ڈی راجا، کیرل کے وزیراعلی ٰپنرائی وجین، آندھر پردیش کے وزیراعلیٰ این۔ چندربابو نائیڈو، دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال بھی پہنچے۔تلنگانہ راشٹر کمیٹی کے صدر اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کیچندرشیکھر راؤ ایک دن پہلے ہی دیوگوڑا اور کمارسوامی سے مل کر ‘انتہائی ضروری وجہوں سے ‘ تقریب میں شامل نہیں ہو پانے کا افسوس جتا گئے تھے۔ وہیں، ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن بھی تمل ناڈو کے توتی کورن میں ہوئے گولی کانڈ کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے کیونکہ وہ وہاں گئے ہوئے تھے۔یعنی اگر بڑی ریاستوں کی بات کی جائے تو اڑیسہ کے نوین پٹنایک کو چھوڑکر غیر این ڈی اے جماعتوں کا ایک ہجوم بینگلورو میں لگا۔سیاست کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ کمارسوامی کی حلف برداری کے دوران اگلے عام انتخابات میں اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد کی ایک تصویر بنتی نظر آئی ہے۔دراصل اپوزیشن جماعتوں کو یہ پتا ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد لگاتار ہوئے اسمبلی انتخابات میں اکادکا مثالوں کو چھوڑ دیں تو یہ صاف ہے کہ موجودہ حالت میں بی جے پی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے اور روایتی سیاسی فارمولیسے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ایسے میں حزب مخالف لمبے وقت سے نئے سیاسی فارمولے کی تلاش کر رہا تھا۔ حال ہی میں ہوئے گورکھ پور اور پھول پور لوک سبھا ضمنی انتخاب میں ملی کامیابی نے اس کو ایک فارمولہ دیا تھا۔
جہاں پر روایتی مخالف دو علاقائی جماعتوں ایس پی اور بی ایس پی نے آپسی اختلاف بھلاکر بی جے پی کا مقابلہ کیا اور کامیابی پائی۔کرناٹک میں حالانکہ کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ انتخاب سے پہلے اتحاد نہیں کیا لیکن انتخابی نتیجہ آنے کے ساتھ ہی کانگریس نے اس سمت میں قدم بڑھا دیا۔ بعد میں سارے حزب مخالف جماعتوں نے اس میں شامل ہوکر اس فارمولے کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ ایسے وقت جب حزب مخالف کو مودی کا مقابلہ کرنے کا ایک فارمولہ مل گیا ہے اور چھوٹیبڑے تقریبا ً15 جماعتوں نے ایک اسٹیج پر آنے کی کوشش بھی کی ہے تو کئی سوال بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔اس میں سے سب سے پہلا سوال ہے کہ کیا حزب مخالف رہنماوں کی یہ یکجہتی 2019 میں ہونے والے عام انتخابات تک بنی رہے گی۔ دوسرا سوال اس کی قیادت کون کریگاساتھ ہی اس سے پہلے ہوئے اتحاد میں وہ کون سے عوامل تھے جو ان کو کامیاب ملی۔ کیا وہ اس مہاگٹھ بندھن میں موجود ہیں؟