مودی سیاح زیادہ اور وزیراعظم کم ہیں

غضنفر علی خان

وزیراعظم مودی اپنی ایک سالہ حکمرانی میں بمشکل چند ماہ ملک میں رہے ۔ انھوں نے بیرونی ممالک کے اتنے سفر کئے ہیں کہ اب خود انھیں یہ یاد نہیں رہا کہ وہ خود ہندوستانی ہیں اور ان ہی ہندوستانی عوام نے انھیں وزارت اعظمی کا اعزاز بخشا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ وہ ہندوستان کی ہمہ جہتی ترقی ، خوشحالی اور قومی یکتا سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ انھیں قومی مسائل کا پختہ شعور بھی نہیں ہے۔ ان کی ترجیحات یکسر غلط اور رفتہ رفتہ نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں ۔ وہ اتنے بیرونی دورے کیوں کررہے ہیں ایک ایسا سوال ہے کہ اس پر ملک کے سیاسی مبصرین ماہر امور خارجہ اور ان سب سے زیادہ عوام پریشان ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کو براعظم ایشیا ، یوروپی ممالک ، امریکہ اور جرمنی سے زیادہ دلچسپی ہے ۔ ہندوستان تو ان کے لئے ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ ہے ۔ وہ جگہ جگہ اپنی خود ستائی کی انتہا کررہے ہیں ۔ اس خود ستائی کے ساتھ ساتھ وہ عظیم ہندوستانی کی توہین کے بھی مرتکب ہورہے ہیں ۔ ان کا بیرونی ممالک میں یہ کہنا کہ ’’آج یعنی ان کے اقتدار پر آنے کے بعد ہندوستانی باشندے شرمندگی محسوس نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کے سر فخر سے بلند ہوگئے ہیں ۔ انکا دعوی ہر لحاظ سے غلط ہے ۔ ہم ہندوستانی باشندوں نے ہمیشہ اپنے وطن عزیز پر فخر کیا اور کرتے رہیں گے ۔ ہمارے سر نہ کبھی شرم سے جھکے ہیں اور نہ کبھی جھکیں گے ۔ ہمارے سپاہیوں نے دشمنوں کو شکست دی ۔ ہم نے کبھی پیٹھ پر گولی نہیں کھائی ہم ہر وقت سینہ سپر رہے اور اپنے سینے پر گولیاں کھائی ہیں ۔ ہمیں کیوں شرمندگی کا احساس ہوگا ، ہاں اگر مودی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج ہندوستانیوں کو شرمندگی ہورہی ہے کیونکہ ان کے وزیراعظم مودی جیسی شخصیت ہیں جنھیں نہ تو بین الاقوامی سیاست کا کوئی اندازہ ہے اور نہ قومی مسائل سے واقفیت ہے ۔ ہمیں ہندوستانی ہونے پر اس وقت ضرور شرمندگی محسوس ہوئی تھی جبکہ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے مودی جی کو یہ سبق دیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی تحمل پسندی کم ہورہی ہے ۔

اس وقت شرمندگی ہوئی تھی جب آر ایس ایس اور بی جے پی ، وشوا ہندو پریشد نے گرجا گھروں کو نقصان پہنچایا تھا ۔ اس وقت ہم ہندوستانی شرم سے زمین میں گڑگئے تھے جبکہ ایک 75 سالہ بوڑھی عیسائی راہبہ کے ساتھ زنا بالجبر ہوا تھا ۔ اس وقت ہمیں ہندوستانی ہونے پر شرمساری ہوئی جبکہ یہی ذہنیت رکھنے والوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا ۔ ہاں ہماری یعنی ہم ہندوستانیوں کی قومی تاریخ میں 6 ڈسمبر 1992 ایک سیاہ دن تھا اور ہم بحیثیت ایک سیکولر ، وسیع النظر قوم کے اپنے دامن پر لگائے گئے اس داغ پر آج تک شرمندہ ہیں اور مسجد کی تعمیر تک ہندوستانی قوم کی یہی ذہنی کیفیت رہے گی ۔ مودی وزیراعظم ہونے کے باوجود بیرونی ممالک میں اپنی ہر تقریر میں یہ کہہ رہے ہیں اب ہندوستانی قوم شرمندہ نہیں ہے ۔ کیونکہ زمام حکومت ان کے ہاتھ ہے ۔ مودی جی ہم نے ہمیشہ ’’کثرت میں وحدت‘‘ والی قوم کی حیثیت سے جینا سیکھ لیا ہے ۔ آپ برائے مہربانی ہمیں کوئی سبق نہ سکھائیں ہم نے دنیا کو عقل و دانش کا درس دیا ۔ ہم نے دنیا کو یہ بتلایا کہ ’’پودوں میں حیات کے پورے سامان ہوتے ہیں ۔ دنیا کو نہیں معلوم تھا کہ پودے بھی سانس لیتے ہیں ہم نے آریہ بھٹ جیسا سائنسداں دنیا کو دیا ۔ علم حساب میں صفر کی قدر و قیمت سے دنیا کو روشناس کرایا ۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہم احساس شرمندگی کے شکار تھے اب نہیں رہیں گے ۔ آپ تاریخ سے ناواقف ہیں آپ ہندوستان کو نہیں پہچانتے اس کے تہذیبی مزاج کو اس کے ethos کو نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کا آپ کو کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی یہ کہتے ہیں ہم پچھلی حکومتوں کی غلطیوں کی وجہ سے آج خفت اور شرمندگی کے شکار ہیں ۔ ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا ماضی قریب ہو کہ ماضی بعید ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہے ۔ آپ کو شاید یاد نہ ہوگا کہ کچھ برس قبل وزیراعظم برطانیہ تھیاچر نے ہندوستان کے دورہ کے موقع پر کہا تھا کہ ’’ہندوستان نے ساری دنیا کو عقل سکھائی ہے‘‘ ۔ India has taught wisdom to the world ۔ آپ عجیب انسان ہے ایک بیرونی مغربی ممالک کے وزیراعظم تھیاچر کہہ رہی ہیں کہ ’’ہندوستان نے ساری دنیا کو عقل سکھائی‘‘ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ’’پچھلے دنوں کی وجہ سے ہمیں شرمندگی ہوئی ہے‘‘ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنا ماضی قریب ستاتا ہوگا ۔ 2002 کے فسادات آپ کے دامن پر سیاہ اور بدنما دھبے ہیں ۔ آپ کو شرمندگی ہوئی ہوگی کہ آپ نے جو کچھ کیا تھا غلط کیا تھا ۔

خیر چھوڑیئے ایسا احساس کسی بیدار ضمیر میں ہی پیدا ہوسکتا ہے ۔ آپ کیوں اور کس اختیار کے تحت ہندوستانی قوم کے تعلق سے غلط اور بے بنیاد تاثر پیدا کررہے ہیں اور حیرت اس بات پر ہے کہ کیوں ہندوستانی عام باشندے ملک کے دانشور آپ کو جواب نہیں دے رہے ہیں۔ کسی بین الاقوامی یا قومی قانون کے تحت کسی کو بھی خواہ وہ وزیراعظم کے عہدہ پر ہی فائز کیوں نہ ہو کوئی قانونی ، اخلاقی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ساری ہندوستانی قوم کی دوسرے ممالک میں غیبت کرے ۔ ہماری برائی کرے ۔ ہم کو پسماندہ اور ناقابل اعتبار قرار دے یا یہ تاثر پیدا کرے کہ ہمارا ماضی شرمندگی کا باعث تھا ۔ مودی جی کو یہ ناقابل اصلاح غلط فہمی ہوگئی ہے کہ سوائے ان کے ملک میں آج تک کوئی ایسا لیڈر پیدا نہیں ہوا جن کی خدمات پر قوم فخر کرسکتی ہے یہ کتنی بڑی غلط فہمی ہے ۔ جس ہندوستان نے گاندھی جی ، جواہر لال نہرو ، مولانا آزاد اور اس فہرست میں تو کئی نام شامل ہیں جنم دیئے ہیں جنھوں نے اپنی کاوشوں سے لیلی ہند کے گیسو سنوارے جنھوں نے اپنے خون سے اس سرزمین کو سینچا ، اس کی آزادی کے لئے جان عزیز قربان کردی ۔ ان کی بنائی ہوئی تاریخ آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد ، بجرنگ دل کے لئے قابل فخر نہ ہوگی لیکن ہندوستانی قوم کے لئے قابل فخر ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ مودی جی کو سیاحی ختم کرکے ملک میں زیادہ وقت دینا چاہئے تاکہ وہ اس کے عظیم الشان ماضی اس کے تابناک مستقبل اس کے شاندار حال کو اس کے صحیح پس منظر میں سمجھ سکیں ۔ کسی بھی وزیراعظم کے لئے بیرون دورے اتنے اہم نہیں ہوتے جتنی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ملک و قوم کے وقار کی اس کی عزت نفس کی ان دوروں کے موقع پر پرزور مدافعت کرے ۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے ۔ عوامی ٹیکس سے جمع کردہ یہ سرکاری خزانہ اس لئے نہیں بنایا گیا ہیکہ لاکھوں کروڑوں روپیہ بے دریغ خرچ کرکے سیاحت کی جائے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر وزیراعظم کو کیا ضرورت لاحق ہوگئی ہے کہ ان کا ہندوستان میں دل لگ ہی نہیں رہا ، بیرونی دوروں سے انھیں ایک طرح کی لذت ملنے لگی ہے ۔ یہ سیاحت یہ دورہ ان کے لئے Addiction بن جائیں گے اور غریب ہندوستان ان کے اس تعیش کا متحمل نہیں ہوسکے گا ۔ ملک کو بدنام کرنے میں آپ کی حکومت میں لوگوں کی کمی نہیں ہے جو آپ نے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ دوسرے ملک کے لیڈر آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کیجئے ان میں تیزی سے پیدا ہونے والے احساس عدم تحفظ کو ختم کیجئے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر روک لگایئے ۔ ملک کے عوام کی شرمندگی کے احساس کا غلط اور بے بنیاد ڈھول نہ پیٹئے ۔ وزیراعظم سیر و سیاحت میں اتنے مشغول اور مسرور ہیں کہ انھیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ فوج کے پاس اسلحہ کی کمی ہوگئی ہے اور اگر خدا نہ کرے جنگ ہوئی تو ہندوستانی فوج کے پاس بمشکل 20 دن کا ہی ساز وسامان ہے ۔توجہ دینے کی بات تو یہ ہے کہ ملک کے دفاع کو پہلے مضبوط کیا جائے ۔ فوج کی ضرورتوں کو اولین ترجیح دی جائے جو رقم بیرونی دوروں پر خرچ ہورہی ہے اس کا رخ فوج کی اہم ضرورت کی تکمیل کی طرف کیا جائے نہ صرف وزیراعظم کے بیرونی دوروں بلکہ مرکزی کابینہ کے وزراء کے دوروں پر بھی روک لگا کر اور ان کے اخراجات کم کرکے دفاعی بجٹ کی طرف ان تمام وسائل و ذرائع کا رخ موڑ دیا جانا چاہئے ۔