مودی ‘داغدار وزراء کو کابینہ میں رکھنے کی روایت پر عمل پیرا

سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے وزراء کی برطرفی سے قبل بحث ناممکن ‘اپوزیشن جماعتوں کا متحدہ موقف

نئی دہلی 24 جولائی (سیاست ڈاٹ کام ) کانگریس کے زیر قیادت اپوزیشن نے آئی پی ایل کے سابق سربراہ للت مودی کی متنازعہ انداز میں مدد کے مسئلہ پر وزیر خارجہ سشما سوراج سے استعفی کے مطالبہ پر اٹل موقف اختیار کرتے ہوئے آج اصرار کیا کہ پارلیمنٹ میں پیدا شدہ تعطل کے خاتمہ کیلئے حل تلاش کرنا حکومت کی مرضی پر منحصر ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ (مودی ) ماضی میں گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنی کابینہ میں داغدار وزراء کو برقرار رکھنے کی روایت کو مرکز میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کے خلاف بی جے پی ارکان کی جانب سے دھرنا منظم کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے بشمول بی ایس پی اور جے ڈی (یو) ‘ مختلف اپوزیشن جماعتوں نے جو للت مودی اور ویاپم اسکامس کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہا کہ بی جے پی ارکان کے ایسے مظاہروں کے بجائے حکومت کوچاہئے کہ وہ اُن تمام کے خلاف کارروائی کریں جو سنگین الزامات کا سامنا کررہے ہیں

تاہم حکومت نے اصرار کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر بحث کیلئے تیار ہیں اور الزام عائد کیا کہ اپوزیشن جماعتیں بحث سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الزامات کے تبادلوں کے نتیجہ میں رواں ہفتہ کے دوران پارلیمانی کارروائی مکمل طور پر ٹھپ رہی ۔ کانگریس کے ایک ترجمان راج ببر نے کہا ہے کہ بحث صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جب داغدار وزراء کو سبکدوش کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا جائے ۔ بعدازاں ایسے مسائل پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایوان کی کارروائی کو موثر انداز میں چلایا جائے لیکن حکومت محض بہانے تلاش کرنے کی جان توڑ کوششوں میں مصروف ہیں ۔ راج ببر نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’’ مودی جب گجرات کے چیف منسٹر تھے مایاکوڈنانی ‘ پرشوتم سولانکھی اور بابو بھائی بوکھیریا جیسے کئی داغدار وزراء ان کی حکومت میں شامل تھے اور وہ مرکزمیں اس روایت کو برقراررکھنا چاہتے ہیں۔ وہ (مودی ) دنیا بھر کی سیر کررہے ہیں اور تقاریر کررہے ہیں لیکن ہندوستان میں خاموش ہیں‘‘۔ بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے بھی بحث سے قبل استعفوں پر اصرار کیا اور کہا کہ ’’دھرنے اور مظاہروں کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ قواعد کی خلاف ورزی کرنیو الوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور کارروائی کا مطلب استعفے ہیں جس کے بعد ہی بحث ہوسکتی ہے ‘‘۔ جے ڈی یو لیڈر شردھ یادو نے بھی ایسے ہی نظریات کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ حکمراں جماعت کے ارکان دھرنے کیوں دے رہے ہیں جبکہ وہ خود اقتدار میں ہیں۔