ونوددا
مودی حکومت کے تین سال مکمل ہوچکے ہیں، حکومت اپنی مرضی و منشاء کے مطابق سینہ ٹھوک پیٹ کر چاہے وہ کتنے انچ کا ہی کیوں نہ ہو بلند بانگ دعوے کرتی ہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اور اس کے حواری جو دعوے کررہے ہیں ان میں کتنی سچائی ہے۔ ان جائزوں کے ذریعہ عوام کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ گذشتہ تین برسوں میں مودی حکومت نے کس شعبہ میں کیا کارنامے انجام دیئے ہیں یا زبانی جمع خرچ کے ذریعہ عوام کو بے وقوف بناتی رہی ہے۔ ہم آپ کو باری باری سے بتارہے ہیں کہ پچھلے تین برسوں میں کس شعبہ کی حالت کیا رہی، ہم ہندوستانیوں کو کیا، کیا حاصل ہوا اور کیا، کیا نہیں ہوا۔ آج ہم بات کریں گے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کی ۔2013-14 کا جو بجٹ تھا وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کا آخری بجٹ تھا۔ ڈاکٹر سنگھ کی حکومت نے اپنے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بجٹ کا 4.57 فیصد حصہ مختص کیا تھا لیکن مودی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص بجٹ کو 2017-18 کے بجٹ میں کم کردیا ۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کی اہمیت گھٹاکر اس کے لئے مختص بجٹ میں کمی کرتے ہوئے اُسے 3.8 فیصد کردیا یعنی 4 پوائنٹس سے بھی کم کردیا گیا جبکہ 1986 میں کوٹھاری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا تھا یا تجویز پیش کی تھی کہ جی ڈی پی ( قومی مجموعی پیداوار ) کا 6 فیصد حصہ اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونا چاہیئے۔ بہرحال ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشنل لٹریسی جو ہے اس میں مودی حکومت نے 2014-15 میں 45722 کروڑ روپئے روپئے مختص کئے تھے یعنی منموہن سنگھ حکومت کی مختص کردہ رقم سے 1134 کروڑ روپئے کم۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہ رقم اپنی حکومت کے آخری بجٹ میں مختص کی تھی جو 46856 کروڑ روپئے تھی۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2015-16 میں 47187 کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں یعنی یہ حکومت کا Revised Estimate ہے، اس کا مطلب پچھلے برسوں کی بہ نسبت3535کروڑ روپئے کم۔
اب چلتے ہیں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ نعرہ کی جانب پچھلے تین برسوں میں صرف نعرے ہی تو لگائے گئے ہیں اور نعروں کی پوری ایک دنیا عوام کو دی گئی ۔ گذشتہ تین برسوں میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ بھی سوچھ بھارت کی طرح ایک اہم نعرہ ہے۔
بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم پر عمل آوری کیلئے2016-17 کے بجٹ میں40 کروڑ روپئے فراہم کئے گئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی کی رپورٹ یہ کہتی ہے ابھی تک صرف 5کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔
اب چلتے ہیں نیتی آیوگ کی طرف جو پہلے پلاننگ کمیشن ہوا کرتا تھا، اس نے کہا ہے کہ کچھ کالجس اور یونیورسٹیز کو پوری خود مختاری دے دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ من مانی فیس وصول کرپائیں گے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، شری رام کالج آف کامرس، لیڈی شری رام کالج یہ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کیلئے مرکزی حکومت سے پیسہ جاتا ہے، انہیں حکومت مالیہ فراہم کرتی ہے۔اب ان کو مکمل خود محتاری ہوگی تو وہ اپنی مرضی کے مطابق من مانی فیس طئے کرنے لگیں گے۔ ویسے بھی پنجاب یونیورسٹی کے 66 طلبہ ہیں ان پر ملک سے بغاوت کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ وہ احتجاج کررہے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی نے 100 فیصد فیس بڑھا دی حالانکہ احتجاجی مظاہروں کے بعد ملک سے بغاوت کے االزامات واپس لے لئے گئے ہیں اور فیس بھی کم کردی گئی ہے۔ پہلے فیس میں 1000 فیصد اضافہ کیا گیا اب صرف 10فیصد فیس بڑھائی گئی ہے۔
مودی حکومت کا رویہ اعلیٰ تعلیم کے خلاف ہی رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے قومی اہلیتی ٹسٹ NETکے بارے میں ایک اعلان کیا کہ جو لوگ اس ٹسٹ سے ہوکر نہیں آئیں گے یعنی NET کوالیفائی نہیں کریں گے انہیں ریسرچ کیلئے فنڈ نہیں دیا جائے گا۔ طلبہ نے یو جی سی کے اس اعلان کی مخالفت کی جس کے بعد وزارت فروغ انسانی وسائل نے اُسے واپس لے لیا۔
ویسے آپ کو یا دلادیں کہ پہلے جووزیر فروغ انسانی وسائل تھیں وہ اسی اس یونیورسٹی کے پاس تھیں۔ بے شک دہلی یونیورسٹی کی ڈگری اب تک مل نہیں رہی ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس ہے اور انہوں نے پڑھائی کی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ماہانہ 5000 اور 8000 روپئے والی جو اسکالر شپس ہے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس اسکالر شپ کا نام نان جونیر ریسرچ فیلو شپ ہے جیسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسکالر شپ ہے اسے بند کرنے کے فیصلہ سے بہت سے غریب طلبہ کا نقصان ہوا، اور وہ میس میں کھانے کے پیسے بھی نہیں دے پائے اور آپس میں جھڑپیں بھی اعلیٰ تعلیم پر ایک اور حملہ کے مترادف ہے۔ جہاں تک ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کو ماہانہ 5000 اور 8000 روپئے اسکالر شپ کا سوال ہے پہلے یہ اسکیم تھی کہ جو ایم فل کررہے ہیں انھیں 5000 سے بڑھا کر 8000 روپئے دیئے جائیں اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کو12000 ماہانہ اسکالر شپ دی جائے لیکن بناء کسی صفائی بناء کسی وضاحت اور بنا کسی وجہ کے مودی سرکار نے اس فیصلہ کو نہیںلیا اور کہہ دیا کہ یہ لاگو نہیں ہوگا۔ تب سے لیکر اب تک پچھلے تین سال میں ملک میں منظم طریقہ سے حکومت آہستہ آہستہ ہیومانٹیز، سوشیل سائینس اور لبرل آرٹس کے جو فنڈس ہیں وہ کم کرتی آرہی ہے۔ اسی طرح کا برتاؤ ملک کے ایک بہترین انسٹی ٹیوٹ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل سائینس کے ساتھ کیا گیا۔ چنانچہ اسے مجبور ہوکر اعلان کرنا پڑا کہ اسے اپنے تین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بند کرنے پرسکتے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ تقریباً 3500 اسکالرس ہیں جو JNU میں ہیں ان پر حکومت کے فیصلہ کا اثر پڑا ہے۔ اور پورے ملک میں زائد از 25000 طلبہ پر فنڈنگ بند کرنے سے اثر پڑا ہے۔ یعنی کُل ملا کر ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کی جو بنیاد رکھی گئی تھی اسی نے ہمیں آئی آئی ٹیز دیئے، آئی آئی ایس دیئے، این آئی آئی ٹیز دیئے، بہترین کالجس اور بہترین یونیورسٹی پٹنہ دیئے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان پر حملے کئے جارہے ہیں اور ان کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں۔ کیا یہ اس لئے ہے کہ جو موجودہ سرکار ہمارا مطلب صرف تین لوگوں سے ہے نریندر مودی، ارون جیٹلی اور امیت شاہ، ان میں صرف جیٹلی یونیورسٹی گئے ہیں اور اچھی پڑھائی کی ہے اور وہ ملک کے چوٹی کے وکیل رہے ہیں باقی کے دو کی سکھشا اور دِکھشا کے بارے میں ہمیں جانکاری نہیں ہے۔ کیا یہ اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ سکھشا کو غیر ضروری مانا جارہا ہے۔