مودی حکومت کے ایک اور وزیر کی زبان درازی

غضنفر علی خان
چلئے ایک اور وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے پھر زبان درازی کی، انہوں نے دہلی میں جاری انتخابی مہم کے دوران انتہائی نفرت انگیز ، دل آزار تقریر کی ۔ بی جے پی کے مختلف لیڈر وقفے وقفے سے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ، تقریروں میں غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہی رہتے ہیں ۔ گری راج ہو یا سادھوی نرنجن جیوتی ہو یا کوئی اور ۔ کوئی موقع دل آزاری کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ دراصل اس قماش کے لیڈروں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ بی جے پی کے راج میں انھیں کہیں بھی کچھ بھی کہنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ ہر بار جب بھی نفرت انگیز باتیں کی گئیں تو پارٹی کے صدر امیت شاہ نے یا خود وزیراعظم مودی نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ۔ جب کسی غلطی کی خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو سزا نہیں ملتی ، کوئی بازپرس نہیں ہوتی تو ہر کسی کو ہمت ہوجاتی ہے کہ اس کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ سادھوی نرنجن جیوتی نے بھی سوچا ہوگا کہ ابھی تک کسی کو سزا نہیں ملی تو انھیں کیوں ڈرنا چاہئے ۔ اب یہ وضاحت تو سادھوی ہی کرسکتی ہیں کہ ان کے کہنے کا مطلب کیا تھا ان کا روئے سخن کس کی جانب تھا کیونکہ انھوں نے اپنی اس متنازعہ نفرت انگیز تقریر میں کہا تھا کہ ’’اگر رام زادے (رام کی اولاد) ہیں تو بی جے پی کو ووٹ دیں

اور اگر حرام زادے ہیں تو نہ دیں‘‘ ۔ اس کا تو یہی مطلب ہوتا ہے کہ جو بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے وہ سب کے سب حرام زادے ہیں اور جو ووٹ دیتے ہیں وہ رام زادے ہیں ۔ 2014 کے حالیہ چناؤ میں بی جے پی کو صرف 34 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ کیا سادھوی یہ کہنا چاہتی ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والے 66 فیصد ہندوستانی شہری صحیح النسب نہیں ہیں ۔ وہ کس کی اولاد ہیں ؟ 66 فیصد ہندوستانیوں کو سادھوی سے یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کا حسب نسب کیا ہے ۔ کیا وہ اس ملک کے بیٹے بیٹیاں نہیں ؟ کیا انھوں نے کسی اور ملک میں جنم لیا ہے ۔ کیا وہ مادر وطن کی اولاد نہیں ؟ غرض ایسے کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ کیا سادھوی کوئی جواب نہیں دے سکتیں ۔ Sons of the soil مادر وطن کے سپوت تو تمام ایک ارب 20 کروڑ باشندے بھی ہیں ۔ اس پوری آبادی کی ولدیت کا ٹھیکہ سادھوی کے پاس نہیں ہے ۔ اس بکواس اور ان کی اس ’دریدہ دہی‘ کے لئے پارلیمان میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے انھیں کابینہ سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جس کو نظر انداز کردیا گیا ۔ یہ صحیح ہے کہ شدید اور متحدہ اپوزیشن کے یکساں دباؤ سے گھبرا کر سادھوی نے معافی مانگ لی ہے ۔ لیکن جیسا کہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہے ۔ بی جے پی کے اس نئے سیاسی کلچر میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ دل کی بات دھڑلے سے کہہ لیں ، اپنی بھڑاس نکال لیں اور بہت کچھ ہوا تو معافی مانگ لیں ۔

معافی بھی فیشن بن گئی ہے ۔ جب تک ایسی تقریروں پر سزا وہ بھی سخت قسم کی نہیں دی جائے گی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈروں کی یہ روش ہے کہ جو خود نہیں کہہ سکتے وہ ایسے ہی اپنے لیڈروں کے منہ سے کہلوادے جو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ لامتناہی سلسلہ اس تیزی سے جاری ہے کہ بعض وقت یہ احساس ہونے لگتا ہیکہ ایسے عناصر کی سہولت کے لئے مرکزی کابینہ میں ایک نئی وزارت قائم نہ ہوجائے اور کسی موزوں پارٹی لیڈر کو اس نئی وزارت کا قلمدان نہ دے دیا جائے ۔ اس قلمدان جس کو ’’وزارت برائے دل آزاری‘‘ کہا جائے گا ۔ اگر یہ قلمدان تشکیل پاتا ہے تو اس کے دعویدار بھی بہ کثرت بی جے پی میں پیدا ہوجائیں گے ۔ یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ پہلے ہی سے ایسے دعویدار موجود ہیں ۔ اگر بی جے پی کی قیادت یہ سمجھتی ہے خاص طور پر وزیراعظم مودی یہ باور کرتے ہیں کہ معافی ٹافی سے کام چلایا جاسکتا ہے تو مستقبل قریب میں انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ نفرت پھیلانے دل آزاری کرنا اگر جرم نہ سمجھا گیا اور اس کا موثر انداز میں تدارک نہ کیا گیا تو یہ بی جے پی میں عام رجحان بن جائے گا ۔ حکومت کی پالیسی ایسے لوگوں کے ساتھ ’’نرم گوشہ‘‘ اختیار کرنے کی بنتی جارہی ہے ۔

جب یہ بات عام رجحان بن جائے گی اور نفرت انگیز یا نفرت آمیز بیانات اور تقاریر کا چلن عام ہوجائے گا تو پھر ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ وہ سیکولر قدریں پامال ہوجائیں گی ، جنھیں ہمارے بزرگوں نے بے حد عرق ریزی سے رائج کیا تھا ۔ اس بات کا احساس خود حکومت کو ہونا چاہئے کہ نفرت کوئی ایسی جنس نہیں ہے جس کا چلن عام کیا جانا چاہئے ۔ دوسروں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کئی طبقات اور فرقوں میں بدگمانی پیدا کررہا ہے ۔ اپنی پارٹی کے لئے ووٹ مانگنے کا ہر پارٹی کو حق حاصل ہے لیکن یہ حق مشروط ہوتا ہے ، کیونکہ اس کے حصول کے لئے کسی دوسرے طبقہ کی دل آزاری یا اہانت نہیں کی جاسکتی ۔ حقوق اس وقت زیادہ درست ہوتے ہیں اور زیادہ جائز ہوتے ہیں جب تک کسی اور طبقہ کی دل شکنی نہیں ہوتی ۔ ایک مشہور حکایت ہے کہ ’’ایک شخص سڑک پر آزادانہ طور پر اپنی واکنگ اسٹک گھماتا ہوا چل رہا تھا اس کے قریب سے گذرنے والے دوسرے شخص نے اعتراض کیا تو پہلے شخص نے کہا کہ اسٹک گھمانے کا اس کو حق ہے ۔ اس پر اعتراض کرنے والے شخص نے کہا کہ بالکل صحیح ہے لیکن آپ کا حق وہاں ختم ہوجاتا ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے ۔ اور آپ کی اسٹک (چھڑی) میری ناک کو چھورہی ہے ۔ آزادی اظہار خیال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو چاہے کہدو ۔ کچھ کہنے سے پہلے بی جے پی کی لیڈر یہ تو سمجھ لیں کہ ان کی بات سے کس کی دل آزاری ہورہی ہے ۔ کسی اور کے حقوق سلب ہورہے ہیں ۔ ووٹ آزادی کے ساتھ دیا جاتا ہے اس سلسلہ میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا نہ اس کے استعمال کرنے والوں کو ’’رام زادے‘‘ اور ’’حرام زادے‘‘ کے معیوب ، غیر اخلاقی ، غیر پارلیمانی زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ملک کے کسی بھی انتخابات میں ہر شہری کو بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ جس کسی کو چاہے ووٹ دے ۔ ہندوستان کا کوئی ذی ہوش اور ذی شعور شہری نہ بی جے پی کو ووٹ دینے والوںکو برا بھلا کہہ سکتا ہے اور نہ کانگریس یا کسی اور پارٹی کو ووٹ دینے والوں کو کچھ کہہ سکتا ہے ۔ سادھوی نے تو گالیاں بکنی شروع کردیں ۔ انھیں کسی ہندوستانی شہری کو حرام زادہ کہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ یقیناً اپوزیشن کا یہ مطالبہ درست ہے کہ ان کے (سادھوی) کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والا کوئی بھی شخص یہ کہہ کر عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے کہ سادھوی نے اس کو ’’حرامی‘‘ کہا ہے ۔ یہ اگر ہوتا ہے اور عوامی مفاد کے تحت کوئی بھی شہری یا شہریوں کا گروپ یا کوئی پارٹی سادھوی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے تو اس پر کوئی تعجب نہیں ہوگا ۔ نریندر مودی ، ارون جیٹلی درپردہ سادھوی کے جرم کی پردہ پوشی نہ کریں تو ہی پارٹی کے لئے زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ بی جے پی کسی مخصوص فرد کی تائید کرکے عوامی تائید نہیں حاصل کرسکتی ۔ سادھوی کو کابینہ سے ہٹانا بھی جزوی حل ہے ان کے خلاف تو عدالتی کارروائی ہونی چاہئے ۔