دنیش اُنی کرشنن
نریندر مودی حکومت کے لئے جو جاریہ مالی سال 8 فیصد شرح ترقی پر نظر رکھے ہوئے ہے، اپریل تا جون سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح واضح طور پر مایوس کن ہے ۔ اس لئے نہیں کہ 7.1 فیصد کا عدد ایک تصوراتی جی ڈی پی کی شرح کا تعاقب کرنے کا لطف ختم کردیتا ہے۔ ہندوستان اب بھی مسلسل ترقی کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بنا ہوا ہے جس نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی شرح ترقی جون کی سہ ماہی میں 6.7 فیصد رہی لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ خانگی شعبہ مسلسل بحیثیت مجموعی ترقی کی کہانی کے بارے میں خاموش ہے۔ اس قسم کی جی ڈی پی کی شرح ترقی جو ہم ابتدائی طور پر دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اور خانگی اخراجات زیادہ ہیں۔ اس لئے نہیں کہ تازہ خانگی سرمایہ کاری جو طویل مدتی معیاری ترقی کیلئے ضروری ہے، آرہی ہے۔ یہ پہلو اب بھی کمزور ہے۔ ’’خانگی سرمایہ کاری کا احیاء پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے‘‘ (ڈی کے جوشی چیف ماہر معاشیات شرح ترقی کرائسل جو ہندوستان کا ضمنی ادارہ برائے معیاری اور کمزور شرح ترقی ہے) لیکن جوشی کو امید ہے کہ خانگی سرمایہ کاری کا دور ایک بار پھر تازہ ہوگا جبکہ صارفین پر مبنی ترقی کچھ عرصہ تک برقرار رہے گی جس کی مدد اچھی بارش کرے گی جو اس سال ہورہی ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اس کے ساتھ ساتھ صارفین کی طلب میں اضافہ کرے گا۔
مختصر یہ کہ موجودہ مرحلہ پر ہندوستان کی ترقی بڑی حد تک صارفین کی طلب پر منحصر ہے۔ حکومت نے جو مالیہ فراہم کیا ہے، اس سے تازہ سرمایہ کے اخراجات کمپنیوں کی جانب سے شروع ہونے کے بجائے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ شرح ترقی کا سرمایہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ یہ مزید کم ہوکر جون کی سہ ماہی میں 3.1 فیصد رہ گیا جبکہ جنوری تا مارچ کی سہ ماہی کی شرح ترقی میں 1.9 فیصد اضافہ کی امید تھی۔ حقیقی شرح ترقی کی تفصیلات مایوس کن ہیں۔ ماہر معاشیات ڈی بی ایس بینک سنگا پور کی رادھیکا داس ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ توقعات کے برعکس صارفین کے اخراجات میں 6.7 فیصد سالانہ کی کمی ہوئی ، جو قبل ازیں 8.3 فیصد تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں میں صارفین کے اخراجات کم ہوئے ہیں ۔ اس سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ شہری طلب کیلئے اچھی مسابقت ضروری ہے ۔ منجمد سرمایہ کاری کی توسیع میں انحطاط پیدا ہوا اور یہ 3.1 فیصد سالانہ ہوگئی جبکہ توقع تھی کہ 1.9 فیصد اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ ساتھ ہی ساتھ خانگی اور سرکاری شعبہ کے شرح سود میں کمی کردی گئی ۔ حکومت کے اخراجات نے جون کی سہ ماہی کی شرح ترقی میں مدد دی اور یہ 18.8 فیصد سالانہ ہوگئی جو پہلی سہ ماہی سے 2.9 فیصد زیادہ تھی اور یہ ایک مستحکم اضافہ ہے۔ مالی صرفہ اور اعلیٰ تر رعایتیں جو تقسیم کیلئے دی گئیں ، ان کے بھی اثرات مرتب ہوئے۔ رادھیکا راؤ کہتی ہیں کہ بحیثیت مجموعی متوقع جی ڈی پی پہلی سہ ماہی میں کم ہوگی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹھوس بحالی آئندہ سہ ماہیوں میں ہونا ضروری ہے تاکہ 8 فیصد کا نشانہ حاصل کیا جاسکے جو پورے مالی سال کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ امیدیں ابتداء میں مثبت برسات اور زیادہ تنخواہوں پر منحصر تھیں۔ سمجھا جارہا تھا کہ اس سے صارفین کی طلب میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجہ میں معیشت بہتر بنے گی۔ یہاں پر کلیدی نکتہ یہ ہے کہ صارف ترقی کی بنیادی وجہ ہے، خانگی سرمایہ کاری نہیں لیکن خانگی سرمایہ کاری کی بحالی کا فقدان نریندر مودی حکومت کیلئے فکرمندی کی وجہ ہے۔ ماہرین معاشیات نے نشاندہی کی ہے کہ کم استعمال کی صلاحیت معیشت کو پسماندہ کرسکتی ہے۔ کرائسل کے جوشی نے نشاندہی کی ہے کہ خانگی سرمایہ کاریاں ایک اہم محور ہیں جس سے طویل مدتی پائیدار معاشی ترقی کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ کوشش کی جارہی ہے کہ سرمایہ دوست معاشی شبیہہ مختلف شعبوں میں اور اصلاحات اور تیقنات ، کاروبار کرنا آسان بنادیں گے۔ حکومت نے یہ اقدامات اپنے اقتدار کے پہلے دو برسوں میں کئے ہیں لیکن اس کے باوجود سرمایہ کاری مسلسل کمزور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت مجبور ہوگئی ہے کہ خرچ زیادہ کرے تاکہ رفتار برقرار رکھی جاسکے لیکن اس کے بعد خانگی سرمایہ کاریوں کا مسدود ہوجانا جلد یا بدیر نقصان دہ ثابت ہوگا۔ درحقیقت بعض ابتدائی علامات سرمایہ داروں کے جاریہ سال کے نصف اول میں ارادوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیر کی ریٹنگ میں حکومت کے اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں لیکن ان کو کارناموں میں تبدیلی کس حد تک کیا جاسکے گا ۔ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم کو ضرورت ہے، اس کیلئے ہمیں انتظار کرنا اور دیکھنا ہوگا۔ حکومت درحقیقت کئی چھوٹے اور بڑے اصلاحی اقدامات کے سلسلہ میں پیشرفت کر رہی ہے تاکہ محکمہ جاتی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ معیشت کی راہیں تازہ دیوالیہ قانون، زیادہ غیر ملکی راست سرمایہ کاری اور بالواسطہ محاصل اصلاحات میں پیشرفت رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش ہے لیکن ان اقدامات کو بروقت نافذ کرنے کا اقدام کیا جانا چاہئے ۔ فی الحال یہ چیلنج برقرار ہے۔ اراضی اور محنت ایک بڑا چیلنج ہے ۔ صنعتوں کیلئے جو ہندوستان میں اپنے کارخانے قائم کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بنگال میں سنگور واقعہ پیش آیا۔ حصول اراضی اب بھی انتہائی سیاسی حساس مسئلہ صنعتوں کیلئے بنا ہوا ہے ۔ اسی طرح متعدد محنت قوانین جو ملک میں رائج ہیں، وہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
بہتر سڑک ، ریل اور بندرگاہ کے انفراسٹرکچر بھی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ جب عالمی معیشت انحطاط کے دور سے گزر رہی ہے تو ان شعبوں کی اہمیت متعارف کروانا ہندوستان کیلئے بہتر مقام کی برقراری کیلئے اہم ہوگا۔ ہندوستان خود ایک بڑی سرمایہ کاروں کی منزل ہے۔ خاص طور پر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کیلئے۔
جب تک خانگی سرمایہ کاریاں نہ ہوں اور نئے کارخانے قائم نہ ہوں ، روزگار کے مواقع پیدا کرنا ایک مسائل سے بھرا شعبہ ملک کیلئے بنا رہے گا۔ توقع ہے کہ ماضی میں برسوں کی شرح ترقی نئے ملازمتوں کے مواقع ملک میں فراہم کرنا ضروری ہوگا۔