مودی حکومت کی وہی گھسی پٹی حرکتیں!

پی چدمبرم

سال 2013-14ء سے دیکھیں تو مسٹر نریندر مودی شخصی طور پر کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار مودی بس ’وکاس‘ (ترقی) کی بات کرتے رہے۔ 31 فیصد رائے دہندے جنھوں نے مئی 2014ء میں بی جے پی کیلئے ووٹ ڈالے، اُن کا زیادہ تر حصہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے نعرے سے متاثر ہوگیا۔ ایک اور پُرکشش نعرہ رہا: اچھے دن آنے والے ہیں۔ پھر وعدے کئے گئے: ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے؛ سالانہ 2 کروڑ نوکریاں؛ کسان کی آمدنی کو دوگنا کرنا؛ اقل ترین حکومت (بہ اعتبار جسامت)، اعظم ترین حکمرانی؛ روپیہ کی خرید و فروخت بلحاظ 40 روپئے فی ڈالر؛ پاکستان کو منہ توڑ (اور قطعی) جواب؛ اور کئی دیگر۔
وزیراعظم مودی نے لفظوں کی بازیگری جاری رکھی۔ 15 اگست 2014ء کو اپنے پہلے یوم آزادی خطاب میں انھوں نے تمام تفرقہ پسند مسائل پر 10 سال کی رضاکارانہ پابندی کی تجویز پیش کی۔ اُن کے قطعی الفاظ یوں تھے: ’’ہم کافی جھگڑ چکے، کئی لوگ مارے جاچکے ہیں۔ مترو! پیچھے مڑ کر دیکھئے اور آپ کو پتہ چلے گا کہ اس سے کسی کا بھی بھلا نہیں ہوا ہے۔ مادرِ ہند کو بدنام کرنے کے سواء ہم نے کچھ نہیں کیا ہے۔ اس لئے، میں وہ تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ چاہے یہ ذات پات کا زہر ہو یا فرقہ پرستی یا علاقائیت یا سماجی و معاشی بنیاد پر امتیازی سلوک کیوں نہ ہو، یہ سب ہماری آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ آئیے! ایک بار ہمارے دلوں میں عہد کرلیں، آئیے کہ ہم اس طرح کی تمام سرگرمیوں پر دس سال کیلئے رضاکارانہ پابندی عائد کردیں، تب ہم ایسے سماج کی طرف بڑھیں گے جو اس طرح کے تمام تر تناؤ سے آزاد رہے گا۔‘‘
زبردست شروعات، تیز زوال
وہ بہت اچھی شروعات ہوئی۔ کئی گوشوں نے سوچا کہ مسٹر مودی ہر کسی کے وزیراعظم بنیں گے۔ افسوس! وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہے۔ انھوں نے گاؤ رکشک جیسے نام نہاد عناصر کے حملوں کو آہنی پنجہ سے ختم نہیں کیا۔ انھوں نے اینٹی رومیو اسکواڈز، گھر واپسی گروپوں یا کھپ پنچایتوں کی سرگرمیوں کو نہیں روکا۔ وزیراعظم نے اس طرح سزا سے بچ نکلنے کے بارے میں کھلے عام کچھ نہیں کہا اور اس کی مذمت نہیں کی۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ ہجومی تشدد، سرعام ہلاکتوں اور نام نہاد عزت نفس کی خاطر ہلاکتیں بڑھتی رہی۔ متوسط اور شریف النفس لوگ اُن پر بھروسہ کھونے لگے۔اگرچہ وزیراعظم نے پریس کانفرنس منعقد کرنے سے انکار کیا، اور بی جے پی نے کامیابی سے میڈیا کے بڑے حصے کو اپنے بس میں کرلیا، ایڈیٹرز اور اینکروں کو برطرف کروایا اور ’امدادی صحافت‘ کے دور میں پہنچ گئے، لیکن پھر بھی میڈیا میں سوالات اٹھائے گئے اور ناقدانہ اداریے اور آرٹیکلس بدستور شائع ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں، بے باک سوشل میڈیا کو کوئی بھی چیز بی جے پی زیرقیادت حکومت کو آئینہ دکھانے سے نہیں روک سکی۔
مارکیٹس اور سنگدلی
وزیراعظم نے مارکیٹ کی طاقت کو بہت زیادہ کمتر بھی جانا ہے۔ مارکیٹ ہی نے سب سے پہلے وزیراعظم اور اُن کی حکومت تک رسائی حاصل کی۔ منڈیاں نوٹ بندی جیسی ناقص رکاوٹیں پسند نہیں کرتے ہیں۔ کروڑہا لوگوں اور کاروباروں پر اس کی وجہ سے پڑنے والے مضر اثرات اور پریشانیوں کے علاوہ نوٹ بندی سنگین غیریقینی کیفیت کا سبب ہوئی، اور مارکیٹس حکومت کے پالیسی اقدامات میں غیریقینی کیفیت اور غیرمتوقع پن کو ناپسند کرتے ہیں۔ جب نوٹ بندی کے بعد ناقص طور پر ترتیب شدہ اور غیرمؤثر طریقے سے عمل درآمد کردہ جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سرویسز ٹیکس) سامنے آیا، تب مارکیٹس نے پالیسی بنانے والوں کو اُن کی نااہلی کی سزا دی۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ ہونا ہی تھا: سرمایہ کا ہوا ہوجانا، سرمایہ کاری میں سست روی، این پی ایز (غیرکارکرد اثاثہ جات) کا بڑھنا، قرض کی فراہمی میں انحطاط، برآمدات کا جمود، زرعی شعبے کی پریشانی، اور دھماکو بے روزگاری۔ اس مدات کے دوران بی جے پی کو بہار میں شدید جھٹکہ برداشت کرنا پڑا۔ اگرچہ اُس نے اترپردیش اور اترکھنڈ میں شاندار جیت درج کرائی، لیکن وہ پنجاب، گوا اور منی پور میں ہار گئی۔ بی جے پی کو بدتر شکست سلسلہ وار ضمنی انتخابات میں ہوئی جن میں وہ ریاستیں شامل ہیں جہاں وہ برسراقتدار پارٹی ہے۔میرا ماننا ہے کہ کرناٹک میں غیرمتوقع طور پر ناکام ہوجانے کے بعد مسٹر مودی نے تمام گوشوں کے وزیراعظم کا بھیس نکال پھینکا۔ ویسے وہ بنے بھی نہیں، اور ’اُمیدوار‘ مودی ہی رہے کیونکہ بی جے پی نے جو وعدے کئے تھے وہ ہنسی مذاق کی باتیں بن گئے اور وہ متبادل اب باقی نہیں رہا۔ مسٹر مودی ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں بہت پیچھے جانے اور ہندو ہردے سمراٹ (ہندو دلوں کا راجا) کا چوغہ پہن لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں، جو گجرات میں اُن کی یو ایس پی (منفرد کارآمد ترکیب) رہی۔
قانون برائے مندر کا واویلا
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک (سربراہ) مسٹر موہن بھگوت نے پُرشور مطالبات کی شروعات کرتے ہوئے ایودھیا میں متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون بنانے پر زور دیا، حالانکہ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیردوراں ہے۔ اس کی تقلید میں ہر ہندوتوا آرگنائزیشن نے قانون کا مطالبہ کرڈالا ہے۔ بعض نے آرڈیننس کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک بی جے پی ایم پی نے پرائیویٹ ممبر کا بل پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ شیوسینا نے حکومت کو چیلنج کیا کہ آرڈیننس لائے۔ ایک دھرم سبھا بھی 25 نومبر کو منعقد کرتے ہوئے قانون کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بتایا گیا کہ مندر کی تعمیر کا آغاز کرنے کی تاریخ کا یکم فبروری 2019ء کو کمبھ میلہ میں اعلان کیا جائے گا۔
صدر بی جے پی نے معاون اشارے دیئے ہیں۔ مسٹر نریندر مودی نے گہری خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ دراصل ان حرکات کا ایک نہج ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بی جے پی میں مسٹر مودی کی ہدایت کے بغیر کوئی حرکت نہیں ہوتی، کوئی بھی ہندوتوا آرگنائزیشن کو آر ایس ایس کی منظوری کے بغیر کام کرنے کی آزادی نہیں، اور آر ایس ایس و بی جے پی کی جانب سے کوئی بھی بڑا فیصلہ مسٹر بھگوت اور مسٹر مودی کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر نہیں لیا جاتا ہے۔ کسی الیکشن سے قبل کوئی فرد لارڈ رام کی پوجا کرتے ہوئے ان کا آشیرواد حاصل کرسکتا ہے۔ کسی الیکشن کے بعد بھی کوئی شخص لارڈ رام کی پوجا کرتے ہوئے اظہار تشکر کرسکتا ہے۔ لیکن جب بی جے پی الیکشن جیتنے کیلئے اپنا پورا بھروسہ لارڈ رام پر ڈال دے تو یہ اعتراف ہے کہ عوام بی جے پی پر بھروسہ کھوچکے ہیں۔برائے مہربانی اس تحریر کے ابتدائی حصوں کو دوبارہ ملاحظہ کیجئے اور یوم آزادی 2014ء کو وزیراعظم مودی کے الفاظ پڑھئے۔ واقعی، انھوں نے بہت پیشرفت کرلی ہے!