مودی حکومت کی صرف باتیں، کام کچھ نہیں

نئی دہلی ۔ 29 ۔ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے وعدوں کی بنیاد پر ’اچھے دن‘ آنے کی امیدیں رکھنے والے عوام میں اب تیزی سے مایوسی پھیلتی جارہی ہے۔ نہ صرف کسان، نوجوان، خواتین اور عام آدمی بلکہ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں میں بھی نہ امیدی پیدا ہورہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سرکردہ عالمی فنڈ مینجر جم راجرس نے جو ہندوستان کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’(وزیراعظم نریندر مودی کی) نئی حکومت نے اب تک صرف باتوں کے سواء کوئی کام نہیں کیا ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کیونکہ (وزیراعظم نریندر) مودی کافی تجربہ کار ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کئی ماہ تک صرف یہ کہتے ہوئے اپنی مہم چلائی تھی کہ ہندوستان کو کس طرح صحیح راستہ پر لایا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے ان تمام باتوں کے باوجود شاید ہی کچھ کیا ہے‘‘۔ مودی حکومت آئندہ ماہ اقتدار پر اپنا ایک سال مکمل کرلے گی۔ صرف راجرس ہی وہ واحد نہیں ہے جو اپنی توقعات تبدیل کر رہے ہیں بلکہ دیگر کئی سرمایہ کار بھی ایسا کر رہے ہیں۔ سی این ایکس نیفٹیڈ جو مارچ میں اپنی بلندیوں پر پہنچ گئی تھی لیکن اب 10 فیصد کے انحطاط سے گزر رہی ہے جبکہ تکنیکی تجزیہ نگاروں کو مزید انحطاط کا اندیشہ ہے ۔ اس طرح ملک کا تجارتی و اقتصابی مارکٹ حکومت سے پوری طرح مایوس ہورہا ہے۔ جنہیں شکایت یہ ہے کہ معیشت کو سدھارنے کیلئے حکومت خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔

کئی لوگوں کو توقع تھی کہ مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے قیام کے بعد صورتحال میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ 16 مئی 2014 ء کو عام انتخابات کا پہلا ووٹ گنے جانے کے ساتھ ہی شیر بازار میں ایک نئی جان کے ساتھ زبردست اچھال پیدا ہوا تھا اور بنچ مارک میں 30 فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا تھا جو 2009 ء کے بعد ہندوستانی حصص کی قیمتوں میں اضافہ کا بہترین سال بھی ثابت ہوا لیکن 2015 ء میں سرمایہ کاروں کا یہ اعتماد اور امیدیں رفو چکر ہوگئیں۔ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو تاریخ ساز اکثریت حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کاروں نے اسٹاک بازار کی قیمتوں اور حصص کی قدر میں ان توقعات کے ساتھ بھاری اضافہ کیا تھا کہ بڑے پیمانہ پر اصلاحات ہوں گے اور کمپنی کی آمدنیوں میں یہ اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

اقتصادی اصلاحات کے محاذ پر اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ حکومت آہستگی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ درحقیقت اقتصادی سروے 2014-15 ء نے یہ استدلال پیش کردیا کہ بڑے پیمانہ پر اصلاحات بالعموم بحران کن حالات میں ہی کئے جاسکتے ہیں ۔ سروے میں مزید کہا کہ اکثر ملکوں کے اصلاحات دراصل مابعد جنگ کے حالات میں کئے گئے تھے یا پھر کسی بڑے بحران سے قبل یا اس کے بعد کئے جاتے رہے ہیں۔ ہندوستان میں ایسا کوئی بحران نہیں ہے اور فیصلہ ساز اتھاریٹی فی الحال ایسے اقدامات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی‘‘۔ نریندر مودی حکومت کے ایک سال کے دوران تیل کی قیمتوں میں کمی سے بھی مدد حاصل ہوئی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آمدنی کی بحالی کیلئے تجزیہ نگاروں کی توقع سے کہیں زیادہ وقت درکار ہوگا۔ مزید برآں حالیہ غیر موسمی بارش کے سبب فصلوںکو نقصان اور مستقبل میں کمزور مانسون اور موسم برسات کے آغاز میں تاخیر سے بھی ہندوستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں حکومت اپنی توجہ اور مسائل دیہی معیشت پر ہی مرکوز کرسکتی ہے جس سے قلیل مدتی مرحلہ میں تجارتی و اقتصادی مارکٹ متاثر ہوسکتا ہے۔