خلیل قادری
مرکز کی نریندرمودی حکومت نے اپنے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کی حالت بدلنے کے دعوی کئے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل بی جے پی کے قائدین بشمول نریندر مودی نے ملک کے عوام کو ہتھیلی میںجنت دکھائی تھی ۔ سبز باغ دکھائے تھے اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مودی کے پاس کوئی جادوئی چراغ ہے جسے رگڑتے ہی پل بھر میں عوام کے مسائل ختم ہوجائیں گے ۔ عوام کے بینک کھاتوں میں لاکھوں روپئے جمع کروائے جائیں گے ۔ عوام کو مہنگائی سے نجات مل جائیگی اور پڑوسی ممالک ہندوستان کے تعلق سے منفی سوچ ختم کرنے پر مجبور کردئے جائیں گے ۔ بی جے پی نے شائد خود اس کی توقعات سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کی لیکن جو وعدے کئے گئے تھے ویسا کچھ نہیں ہوا ۔حکومت آج بھی یہ دعوے کرتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے ۔ اس کیلئے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔اس کیلئے مختلف اسکیمات شروع کی جا رہی ہیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ زبانی باتیں ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حکومت کے دعووں کے برخلاف اس کی ترجیحات بالکل مختلف ہیںاور وہ جن ترجیحات کے ساتھ کام کر رہی ہے وہ ملک کی ترقی کیلئے سازگار نہیںکہی جاسکتیں ۔ آج ہندوستان کو کئی مسائل اور چیلنجس کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک ایسا موثر نظام تیار کیا جائے جو بتدریج مسائل کی یکسوئی میں معاون ہو۔ ملک میں ایسا ماحول تیار کیا جائے جس کی وجہ سے سماج میںہم آہنگی پیدا ہونے پائے ‘ نفرت کا ماحول ختم ہوجائے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ سماج میںانتشار پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔ سماج کو فرقہ وارانہ اور مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے ۔ ایسا مسائل پر خاص طور پر توجہ دی جا رہی ہے جن سے سماج میں بے چینی پیدا ہوتی ہے ۔ ان مسائل سے ملک کی ترقی کا دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ ان مسائل کو چھیڑنے سے ملک کی ترقی پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں ۔
ہندوستان کے 120 کروڑ سے زیادہ عوام کی ترقی کو یقینی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ملک میں لاکھوں کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں۔ملک کے عوام کو مہنگائی کی مار سہنی پڑ رہی ہے ۔ بیروزگاری کی وجہ سے نوجوانوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ انہیں ملازمتوں کی ضرورت ہے ۔ انہیں روزگار فراہم کرنے کی ضرورت لیکن ایسا کرنے کی بجائے انہیں نراج کی کیفیت کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ نوجوانوںکو آج ایک بار پھر مندر ۔ مسجد مسئلہ میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عدالتوں میں اس مسئلہ کو رجوع کیا جا رہا ہے ۔ بیان بازیاں شروع ہوگئی ہیں جن کے نتیجہ میں سماج میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے ۔ سالانہ لاکھوں ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے نریندرمودی نے صفائی کے نام پر نوجوانوں کے ہاتھ میںجھاڑو تھمانے کا تماشہ کیا ۔ کچھ دیر تو نوجوان اس کا حصہ بنے رہے لیکن انہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ ان کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے ۔ جب تک نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیںکیا جاتا ۔ ان کی تعلیم کو یقینی نہیں بنایا جاتا ‘ تعلیم کے شعبہ میں مداخلت اور مخصوص نظریہ مسلط کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا اس وقت تک نوجوانوں میں اطمینان کا احساس پیدا کرنا آسان نہیںہوگا ۔ حکومت کا دعوی یہ ہے کہ وہ ملک کو ترقی دینے کیلئے کم کر رہی ہے ۔ اس کیلئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے اسکیمات تیار کی جا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ملک میں کوئی ترقیاتی کام ایسا نظر نہیں آتا جس سے واقعی ملک کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے ۔ آج اگر توجہ دی جا رہی ہے تو ایسے مسائل پر کہ کسے کیا کھاناچاہئے ۔ کسے کیا پہننا چاہئے ۔ کسے کیا کہنا چاہئے ۔ طالب علم اگر ہے تو اسے تعلیم حاصل کرنے سے پہلے سوریہ نمسکار کرنا ہوگا ۔ اگر اسے ترقی کرنا ہے تو یوگا کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب کچھ ایسے کام ہے جن سے ملک ترقی کرنے کی بجائے ترقی کی راہ پر ملک پچھڑ سکتا ہے ۔ سوریہ نمسکار یا یوگا سے ملک و قوم کی ترقی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ ہندوتوا کو فروغ دینے والے مسائل ہیں اور حکومت بھی اسی ایجنڈہ پر عمل آوری کر رہی ہے ۔ وہ محض اس ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ترقیاتی نعروں کا ڈھونگ کر رہی ہے ۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں قانون کرپشن کو ختم کرنے کیلئے نہیں بنایا جا رہا ہے بلکہ یہاں گائے کی رکھشا کیلئے قانون بنایا جا رہا ہے ۔ اس معاملہ میں ایک ریاست دوری ریاست پر سبقت لیجانا چاہتی ہے ۔ کرپشن ختم کرنے سے متعلق قانون کی بات آتی ہے تو ہر حکومت اس میں تکلیف محسوس کرتی ہے اور اسے قانون سازی کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے لیکن جب بڑے جانوروں کے ذبیحہ کی بات آتی ہے تو فوری قانون بنادیا جاتا ہے ۔
ملک کے تقریبا تمام تعلیمی اداروں میں یوگا کو لازمی کیا جا رہا ہے ۔ اس سے نہ ملک کی ترقی ہوگی اور نہ قوم کی ترقی ہوگی ۔ اس سے صرف بابا رام دیو اور ان کے پتانجلی ٹرسٹ کی ترقی ہو رہی ہے ۔ بابا رام دیو بھی کرپشن کے مسئلہ پر خاموش ہوگئے ہیں۔ 2014 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے کالے دھن کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا تاثر عام کیا تھا لیکن اب جبکہ مرکز میں ان کی پسند کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور ان کے ٹرسٹ نے مثالی ترقی کرلی ہے اس کے اچھے دن آگئے ہیں ۔ حکومت کالا دھن واپس لانے پر توجہ کرنے کی بجائے یوگا کے اچھے دن لانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ۔ حکومت بیرونی ممالک میں چھپائے ہوئے کالے دھن کو واپس لا کر عوام کے بینک کھاتوں میں جمع کروانے کا منصوبہ بنانے کی بجائے کالا دھن رکھنے والوں کو اسے جائز دولت میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ اس کے باوجود بابا رام دیو مطمئن ہیں اور وہ کالا دھن لانے کے مسئلہ پر حکومت سے جواب طلب کرنے کی بجائے اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر سبرامنین سوامی رام مندر مسئلہ پر اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ عدالتوں میں یہ مسئلہ مزید الجھایا جا رہا ہے ۔ اتر پردیش کے گورنر بھی اس مسئلہ پر بیان بازی اور تبصروں کو اپنا فرض سمجھ رہے ہیں اور رام مندر کی تعمیر کی تاریخیں بھی طئے کرنے لگے ہیں۔ ملک میں عدالتی نظام موجود ہے اور اس کو قبول کرنے کی بجائے آستھا اور عقیدہ کا مسئلہ بتا کر عدالتوں کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مہاراشٹرا میں جہاں بی جے پی اقتدار پر ہے اور شیوسینا اس کی تائید کر رہی ہے وہاں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر قانون سازی نہیں ہو رہی ہے بلکہ قانون اس لئے بنایا جا رہا ہے کہ سرکاری اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کیلئے یوگا اور سوریہ نمسکار کو لازمی بنایا جائے ۔ یہ بھی ہندوتوا کے فروغ کی کوشش ہے جسے ملک کی دوسری اقلیتوں کو ہراساں کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے ۔
ملک میں کون کیا کھائے گا ‘ کون کس عقیدہ پر عمل کریگا اور کہاں مندر بنے گا کہاں مسجد بنے گی یہ ایسے مسئلے ہیں جن پر حکومت کا کوئی رول نہیں ہونا چاہئے ۔ حکومت کسی ایک مذہب کے عقیدہ کو بڑھاوا دینے اور اسے فروغ دینے کیلئے قائم نہیں ہوتی بلکہ حکومتوں کا کام عوام کو درپیش مشکلات کو ختم کرنا ہوتا ہے ۔ حکومتیں اس لئے قائم نہیں ہوتیں کہ اسکولوں میں یوگا کروایا جائے یا سوریہ نمسکار کیا جائے ۔ حکومتیں اس لئے قائم نہیں ہوتیں کہ عوام کی غذا کیا ہونی چاہئے اس کا فیصلہ ہو ‘ حکومتیں اس لئے قائم ہوتی ہیں کہ عوام کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ حکومتیں اس لئے قائم نہیں ہوتیں کہ مذہبی مسائل میں الجھا کر عوام کے مابین خلیج میں اضافہ کیا جائے بلکہ حکومتیں اس لئے قائم ہوتی ہیں کہ سماج میں اگر نفاق اور نفرت پیدا ہو رہی ہو تو اسے ختم کیا جائے ۔ ملک کے دستور میں یہ بات واضح ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی حاصل ہے ۔ کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے ۔ کوئی اول درجہ کا اور کوئی دوسرے درجہ کا شہری نہیں ہے لیکن آج نریندر مودی حکومت ملک کو معاشی میدان میں ترقی دلانے اور عوام کے مسائل میںکمی کرنے کی بجائے یہ فیصلے کرنے لگی ہے کہ کس کو کیا کھانا چاہئے ۔ کس کو کیا پہننا چاہئے ۔ کس کو یوگا کرنا چاہئے ۔ کس کو سوریہ نمسکار کہنا چاہئے ۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ مہنگائی کو ختم کرے لیکن مودی کے راج میں 200 روپئے کیلو دالوں کی قیمت ہوگئی ہے ۔ اس پر توجہ دینے اور قیمتیںکم کرنے کی بجائے ایسے مسائل پر ترجیحی انداز میں کام ہو رہا ہے جس سے سماج میں ہم آہنگی کی بجائے عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ مودی حکومت دعوے تو ترقیاتی کاموں کے کرتی ہے لیکن اس کی ترجیحات اس کے یکسر مغائر ہیں۔ حکومت کے دعووں اور ترجیحات میں واضح تضاد پایا جاتا ہے اور یہ تضاد ملک کی ترقی کیلئے اچھا نہیں ہے ۔