مودی حکومت اکثریت سے محروم ‘ حلیفوں کی تائید پر انحصار

بی جے پی کیلئے 2019 کا سفر مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے
خلیل قادری

2014 میں جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تھے بی جے پی نے خلاف توقع شاندار کامیابی حاصل کی تھی ۔ بی جے پی کو لوک سبھا میں اپنے بل پر اکثریت حاصل ہوئی تھی اور اس نے 284 نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ بی جے پی کو خود یہ امید نہیں تھی کہ وہ اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ اسے اس بات کا تو یقین تھا کہ وہ اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر نریندر مودی کی قیادت میں حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن اسے خود اپنے بل پر اکثریت کے حصول کی امید نہیں تھی ۔ جب لوک سبھا انتخابات کے نتائج سامنے آئے کئی گوشوں سے حیرت ظاہر کی گئی تھی ۔ نریندر مودی کی شخصیت کے اثر کی وجہ سے پارٹی کو شاندار کامیابی ملی تھی ۔ اس کے بعد اسمبلی انتخابات میں بھی پارٹی نے یکے بعد دیگر کامیابی حاصل کی تھی ۔ حالانکہ دہلی اور بہار اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہاں نریندر مودی کی شخصیت بھی رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے میڈیا کو اپنے ساتھ ملانے کا کام کیا اور اب یہی میڈیا ہر معمولی سی بات پر مودی اور ان کی حکومت کی مدح سرائی میں مصروف ہے ۔ ملک اور عوام کو درپیش مسائل کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے میڈیا کی جانب سے حکومت کی تعریفوں کے بل باندھنے اور حکومت کے ایجنڈہ کے مطابق حکومت مخالف طبقہ کو قوم مخالف قرار دینے اور حکومت کی جوتیاں چاٹنے والوں میں حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ بانٹنے میں مصروف ہوگیا ہے ۔ یہ میڈیا اب اس حقیقت پر بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے کہ چار سال قبل لوک سبھا میں اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی بتدریج ایوان میں اپنی عددی طاقت سے محروم ہوگئی ہے اور اسے اپنے بل پر لوک سبھا میں اکثریت حاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ اب یہ بی جے پی حکومت نہیں بلکہ این ڈی اے حکومت ہوگئی ہے کیونکہ ایوان میں اگر اسے اکثریت ثابت کردکھانا ہے تو اپنی حلیف جماعتوںکی تائید کی ضرورت ہوگی ۔ شائد یہی وجہ رہی کہ گذشتہ بجٹ اجلاس میں جب لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو حکومت نے اپنی حلیف اور حواری جماعتوں سے گڑبڑ اور ہنگامہ آرائی کرواتے ہوئے اس تحریک کو موضوع بحث بننے ہی کا موقع نہیں دیا ۔ میڈیا کی جانب سے اس مسئلہ کو موضوع بنانے کی بجائے ایسی باتوں پر توجہ دی جا رہی ہے جن سے قوم یا ملک کی ترقی کا کوئی دور دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے ۔
گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ملک میں لوک سبھا کیلئے جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان کی اکثریت میں اپوزیشن جماعتوں کو کامیابی ملی ہے اور بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سب سے اہمیت کی حامل نشست گورکھپور کی تھی جسے یوگی آدتیہ ناتھ مسلسل حاصل کرتے آ رہے تھے ۔ جب انہیں آر ایس ایس کی ایما پر اترپردیش کا چیف منسٹر بنادیا گیا تو پھر یہاں ضمنی انتخاب ہوئے اور یہاں سے بھی سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے بی ایس پی کی تائید سے کامیابی درج کروائی ۔ اسی کے ساتھ پھولپور نشست کیلئے بھی ضمنی انتخاب ہوا تھا ۔ یہ نشست ڈپٹی چیف منسٹر اترپردیش کیشو پرساد موریہ نے خالی کی تھی ۔ یہاں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی اور سماجوادی پارٹی نے بی ایس پی کی تائید سے کامیابی حاصل کی ۔ اب دو دن قبل کیرانہ لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخابی نتائج سامنے آئے ۔ ان میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے حالانکہ یہاں اس بار یوگی آدتیہ ناتھ نے خود پارٹی کی انتخابی مہم چلائی تھی ۔ یہاں راشٹریہ لوک دل کی تبسم حسن نے بی جے پی امیدوارہ کو شکست دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی ۔ تبسم حسن 16 ویں لوک سبھا میں اترپردیش سے پہلی مسلم رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کامیابی کے ذریعہ لوک سبھا میں راشٹریہ لوک دل کا بھی کھاتہ کھولا ہے ۔ جو نتائج یکے بعد دیگرے سامنے آئے ہیں انہوں نے بی جے پی کی لوک سبھا میں اکثریت کو ختم کردیا ہے ۔ اب لوک سبھا میں بی جے پی کے 272 ارکان ہی رہ گئے ہیں اور وہ بی جے پی حکومت کی بجائے این ڈی اے حکومت میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ ماضی میں ایسی مثالیں رہی ہیں کہ کسی پارٹی کی حکومت بنی اور اس کے ارکان کی تعداد میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے اضافہ ہی ہوا تھا تاہم بی جے پی کیلئے یہ پہلی مثال ہے کہ ضمنی انتخابات میں لگاتار شکستوں کی وجہ سے بی جے پی ارکان کی تعداد میں مسلسل گراوٹ ہی درج کی گئی ہے ۔ اس حقیقت کو اور اس کی وجوہات کو میڈیا کی جانب سے پیش کرنے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے ۔ خود بی جے پی کے حلقوں میں حالانکہ اس پر تشویش ضرور پائی جاتی ہے لیکن سرعام اس کا اظہار کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے اعلی قائدین اپنی نجی محفلوں میں اس کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات پارٹی کیلئے آسان نہیں ہوسکتے ۔ حالانکہ بی جے پی کو میڈیا کی غیر مشروط تائید و حمایت حاصل ہے بلکہ کئی میڈیا گھرانے تو پارٹی کے ترجمان سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر پارٹی کے حق میں کام کر رہے ہیں لیکن ملک کے عوام کے موڈ کا جہاں تک تعلق ہے وہ بتدریج بدل رہا ہے ۔
جو سیاسی حالات اب ملک میں ابھر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کیلئے مشکلات زیادہ ہوسکتی ہیں۔ اس کو کامیابی حاصل کرنا زیادہ آسان نہیں رہ جائیگا ۔ علاقائی سطح پر کئی مسائل ایسے ہیں جہاں بی جے پی کی ریاستی حکومتیں انہیں حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ بی جے پی کا گڑھ سمجھے جانے والے گجرات میں بی جے پی کو کانگریس نے کانٹے کی ٹکر دی اور اپنی اسمبلی نشستوں کی تعداد کو تقریبا دوگنی کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ کرناٹک میں بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود اقتدار حاصل نہیںکرسکی ۔ حالانکہ چور دروازے کو استعمال بھی کیا گیا تھا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ اترپردیش میں پارٹی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا جا رہا ہے ۔ تین لوک سبھا حلقوں کے ضمنی انتخابات میں پارٹی ایک جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ اسی طرح پڑوسی ریاست بہار میں بھی حالانکہ وہ نتیش کمار کو استعمال کرکے چور دروازے سے اقتدار میں شراکت داری تو حاصل کرچکی ہے لیکن عوام کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ لالو پرساد یادو کے فرزند تیجسوی یادو ان کے سیاسی جانشین کے طور پر ابھر رہے ہیں اور یہاں انہوں نے بی جے پی ۔ جے ڈی یو کو روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اسی طرح اب آئندہ چند مہینوں میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان تینوں ریاستو ں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں لیکن آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کیلئے اپنا اقتدار برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا ۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں خاص طور پر کانگریس کے امکانات بہترین دکھائی دے رہے ہیں اور کانگریس پارٹی عوام کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے ۔ ان ریاستوں میں خاص طور پر کسان برادری بی جے پی سے ناراض ہے اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کیلئے حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب وہاں اسے شیوسینا کی مخالفت کا سامنا ہے ۔ شیوسینا نے آئندہ انتخابات تنہا لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور بی جے پی اپنے بل پر ریاست میں اپنی عددی طاقت کو برقرار رکھنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ سینا ۔ بی جے پی اتحاد ختم ہوتا ہے اور کانگریس ۔ این سی پی اتحاد برقرار رہتا ہے تو ریاست کا سیاسی منظر نامہ بھی بدل کر رہ جائیگا ۔ اس کا خود بی جے پی قائدین اعتراف کرنے لگے ہیں ۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی اپنی مقبولیت بنائی ہوئی ہے اور یہاں بھی بی جے پی سب کچھ کرگذرنے کے باوجود سیاسی اعتبار سے خود کو مستحکم نہیں کرپائی ہے ۔ یہاں اس کی ہر طرح کی کوششیں ناکام ہی ثابت ہوئی ہیں۔ ٹاملناڈو میں بی جے پی محض نام کی پارٹی ہے اور یہاں اس کی کوئی عوامی نمائندگی نہیں ہے ۔ مستقبل کے تعلق سے بھی اشارے پارٹی کیلئے مستحکم نہیں ہیں۔ کرناٹک میں حالانکہ پارٹی کچھ حد تک مستحکم ہوئی ہے لیکن کانگریس ۔ جے ڈی ایس اتحاد سے اسے توقع کے مطابق کامیابی ملنے کی امید کم ہی دکھائی دے رہی ہے ۔ پنجاب میں کانگریس اپنی گرفت مضبوط بنائے ہوئے ہے ۔ بی جے پی اور شرومنی اکالی دل اب تک اپنی اسمبلی انتخابات کی شکست سے ابھر نہیں سکے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کیلئے ایسا کرنا آسان نظر نہیں آتا ۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی سے تلگودیشم نے دوری اختیار کرلی ہے اور وہاں بھی وہ کسی سہارے کے بغیر اپنے بل پر کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔ تلنگانہ میں بی جے پی اپنے قدم جمانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے لیکن یہاں بھی اس کیلئے سفر آسان نہیں ہوسکتا اور اس کو توقعات کے مطابق کامیابی ملنا مشکل ہی ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کیلئے 2019 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل سے مشکل ہی ہوتا جا رہا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتیں ایک عظیم اتحاد بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو یہ مشکل اور بھی بڑھ سکتی ہے ۔