محمد ریاض احمد
ہندوستان کی تاریخ میں جن 15 وزرائے اعظم نے قوم کی خدمت کی ہے ان میں مسٹر نریندر مودی واحد وزیراعظم ہیں جنھیں ایک فیکو (دروغ گو) ، جملہ باز، وعدوں سے منحرف ہوجانے والے، بیرونی دوروں کے شوقین اور خود پسندی کے عارضہ میں مبتلا وزیراعظم قرار دینے میں سیاسی قائدین سے لے کر ملک کے ایک عام آدمی نے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ہمارے مودی جی کو ہندوستان کے ایسے واحد وزیراعظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے جو سب سے زیادہ موضوع مذاق بنا ہے۔ اب تو ہندوستانی بیویاں اپنے شوہروں کو مشورہ بلکہ ہدایت دے رہی ہیں کہ وہ وعدے کریں تو نبھائیں مودی جی کی طرح وعدہ خلافی نہ کریں۔ خود کو فیکو (پھیکو) کی حیثیت سے پیش نہ کریں۔ مودی جی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ہندوستان کی تاریخ سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ہاں جملہ بازی، نعرہ بازی، وعدوں کے ڈھیر لگانے اور اپنی تقریر کے ذریعہ عوام کی رائے بدلنے میں انھیں مہارت حاصل ہے۔ مودی جی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ بھولی بھالی عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے، نفرت کے بیج بونے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اس معاملہ میں صدر بی جے پی امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے دوسرے قائدین ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تب ہی تو ایک مرحلہ پر سونیا گاندھی نے انھیں موت کا سوداگر کہا تھا اور بعض تو انھیں گجرات کا قصائی جیسا خطاب دینے میں دیر نہیں کی تھی کیوں کہ بابو بجرنگی نے اسٹنگ آپریشن میں جو انکشافات کئے تھے اس سے سارا ہندوستان واقف ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مودی قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔ بہرحال مودی نے اپنی مذکورہ صلاحیتوں کے ذریعہ بی جے پی کے مرد آہن اڈوانی کو پہلے دیوار سے لگایا اور پھر عہدہ وزارت عظمیٰ کے دعویدار ہوگئے اور وہ وقت بھی آیا جب ملک کی فضاء کو فرقہ وارانہ زہر سے آلودہ کرکے مودی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوگئے۔ گزشتہ ہفتہ مودی حکومت نے اپنی چوتھی سالگرہ منائی۔ وہ اور ان کے کابینی رفقاء یہ دعوے کرتے ہیں کہ 4 برسوں میں ملک کی حالت بدل گئی ہے۔ معیشت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ داخلی و خارجی سطح پر حکومت کی پالیسیاں کامیاب ہوئی ہیں۔ گاؤں گاؤں بجلی پہنچادی گئی ہے۔ کسانوں کے قرض معاف کئے گئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر وزیراعظم کے بے تکان دوروں سے عالمی پلیٹ فارم پر ہندوستان کا موقف مضبوط ہوا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں امن و قانون کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈیجیٹل انڈیا، میک اِن انڈیا جیسی اسکیمات کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مودی جی اور بی جے پی قائدین ملک کی معیشت کے استحکام کے دعوے کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران ملک میں معاشی تفاوت بڑھ گیا ہے۔ ہندوستان کی 73 فیصد دولت صرف ایک فیصد دولت مندوں کے اندرون و بیرون ملک بینک اکاؤنٹس اور تجوریوں میں چلی گئی ہے۔ آج بھی 67 کروڑ ہندوستانی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صرف پچھلے ایک سال میں دولت مند طبقے کی دولت میں 20.913 ارب روپیوں کا اضافہ ہوا ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک سال کے عرصہ میں ارب پتی لٹیروں نے ہندوستانی بینکنگ نظام کو تقریباً 20 ہزار کروڑ روپئے کا چونا لگایا۔ مودی حکومت میں غریبوں کی بجائے امبانی، اڈانی جیسے ارب پتی صنعت کاروں کی مدد کی گئی۔ ان کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ نیرو مودی اور وجئے مالیا نے بینکوں کو دن دھاڑے لوٹ کر (دھوکہ دے کر) ملک سے راہ فرار اختیار کی۔ وہ بڑی خاموشی سے فرار ہورہے تھے اور مودی حکومت غفلت کی گہری نیند میں خراٹے بھر رہی تھی۔ مودی جی، امیت شاہ اور ان کی ٹولی بار بار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہندوستان کی معیشت کو مودی حکومت نے بلندیوں پر پہنچایا۔ اگر یہ معاشی ترقی ہے تو پھر نوٹ بندی کیا تھی جس نے ملک میں اتھل پتھل پیدا کردی۔ متوسط اور غریب عوام نوٹ بندی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر قطاروں میں ٹھہرے ٹھہرے 150 سے زائد مرد و خواتین اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ نوٹ بندی کے بارے میں مودی کا دعویٰ تھا کہ اس سے دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کا خاتمہ ہوگا، بلیک منی کا انسداد ہوگا اور جعلی کرنسی کا بہاؤ بھی ختم ہوجائے گا۔ ایسا تو نہیں ہوا لیکن عوام ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نوٹ بندی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔ دیانتداری، ترقی اور اچھی حکمرانی میرا منتر ہے جیسا نعرہ لگانے والے مودی کی حکومت میں چار بر سوں کے دوران صرف اور صرف نفرتوں، عداوتوں اور عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے، دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر مختلف بہانوں سے حملوں کو فروغ دیا گیا۔ اس حکومت میں وزیراعظم سے لے کر (مودی نے قبرستان اور شمشان کا نعرہ لگاکر یوپی میں سیاسی فائدے اُٹھایا جس کا اثر اب ختم ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ 2019 ء کے انتخاب میں خاص طور پر یوپی بی جے پی کے لئے شمشان ثابت ہوگا) بی جے پی ارکان پارلیمان و مقامی لیڈر بھی ہر چیز کو ہندو مسلم کے زاویے سے دیکھنے لگے۔ کامیاب معاشی اصلاحات کا دعویٰ کرنے والے مودی نے جی ایس ٹی کے ذریعہ بھی عوام پر کاری ضرب لگائی ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں۔ اسکول ہو یا کالج ہر سال طلبہ کا امتحان ہوتا ہے، ان کے تعلیمی مظاہرہ کی بنیاد پر مختلف مضامین میں ان کو نمبرات یا گریڈس دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی ملک میں زراعت، فیول کی قیمتوں (پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں)، روزگار کے مواقع کی تخلیق، امن و امان، نظم و نسق، جرائم کی شرح پر قابو پانے، صنف نازک کے تحفظ اور حقوق انسانی و حقوق اطفال کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جس حکومت میںمذکورہ اُمور کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جاتا ہے اسے کامیاب حکومت یا کامیاب حکمرانی قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں صدر کانگریس راہول گاندھی نے مودی حکومت کی کارکردگی پر رپورٹ کارڈ جاری کیا جن میں زرعی شعبہ، فارن پالیسی، فیول کی قیمتوں، روزگار کے مواقع کی تخلیق میں اسے فیل قرار دیا جبکہ نعروں کی تخلیق میں راہول نے مودی حکومت کو A+ ، خود ستائی یا خود کی تشہیر میں A+ اور یوگا میں B گریڈ دیا ہے۔
خیر یہ تو اپوزیشن رہنما کا فیصلہ تھا لیکن کرناٹک میں جمہوریت کی تباہی و بربادی کے لئے بی جے پی نے گورنر کی مدد سے جو کچھ کیا اس کے بعد 4 پارلیمانی اور 10 اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو جس طرح کی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اس سے لگتا ہے کہ اچھے دن کا نعرہ دے کر عوام کو بے وقوف بنانے والے مودی جی اور بی جے پی کے خراب دن شروع ہوچکے ہیں۔ اترپردیش کے کیرانہ میں متحدہ اپوزیشن کے آر ایل ڈی امیدوار تبسم حسن نے بی جے پی کی خاتون امیدوار کو شکست دے کر یوپی میں بی جے پی کے سیاسی زوال کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کی تبدیلی پر غور کرسکتی ہے۔ اب مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان ریاستوں میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جہاں تک اترپردیش کا سوال ہے یہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور وہاں سے 80 ارکان پارلیمان کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن راہول، اکھلیش، مایاوتی اور اجیت سنگھ (آر ایل ڈی) کا عظیم تر اتحاد بی جے پی کو اترپردیش میں ضرور شکست دے گا۔ 2019 ء کے عام انتخابات میں اترپردیش سے بی جے پی 10 تا 20 نشستوں پر ہی بڑی مشکل سے کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ مودی حکومت کے عوام دشمن اقدامات پر زرخرید غلام میڈیا کے ذریعہ پردے ڈالنے کے باوجود عوام میں شعور بیدار ہوگیا ہے۔ عوام یہ جان چکے ہیں کہ مودی حکومت انھیں 4 برسوں سے مسلسل بے وقوف بناتی آرہی ہے۔ مودی کی حکومت نے چار برسوں کے دوران 9 مرتبہ اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے 310000 کروڑ کی آمدنی حاصل کی۔ گزشتہ سال انڈین آئیل کارپوریشن کا منافع 3721 کروڑ روپئے رہا اور جاریہ سال تو اس کا منافع 5218 کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ہے۔ یو پی اے دور حکومت میں پٹرول کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کو ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کی ناکامی قرار دینے والے مودی کی حکومت میں پٹرول کی قیمت 83 روپئے اور ڈیزل کی قیمت 76 روپئے ہوگئی حالانکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت فی بیارل 80 ڈالرس ہے۔ بڑی شرم کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی بہ نسبت بنگلہ دیش میں 68.47 روپئے، پاکستان میں 50.67 روپئے، مالدیپ میں 41.40 روپئے، نیپال میں 66.99 روپئے، بھوٹان میں 66.63 روپئے، میانمار میں 43.83 روپئے اور سری لنکا میں 49.67 روپئے فی لیٹر پٹرول فروخت کیا جارہا ہے۔ بہرحال مودی جی کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہندوستان کی عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
mriyaz2002@yahoo.com