غضنفر علی خان
5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہر پارٹی بشمول کانگریس اور بی جے پی کے لئے سبق آموز ہیں ۔ بی جے پی اور مودی کے لئے سبق ملا ہے کہ اقتدار ایک بے حد ناقابل اعتماد ساتھی ہے یہ کسی کے پاس بھی جمہوریت میں مستقل طورپر نہیں رہتا ۔ رعونت ، غرور اقتدار کا نشہ اُترجاتا ہے ۔ بی جے پی کی رعونت پر کسی اور نے نہیں اُسے ہندوستان کے ذی شعور رائے دہندوں نے 5 ریاستوں میں اقتدار سے بیدخل کردیا ہے ۔ ان میں مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی حکومتیں تھیں آج یہ اقتدار خواب کی طرح ٹوٹ گیا ۔ 11 ؍ ڈسمبر کو یہ پول کھل گیا کہ بی جے پی اور اس کے تمام لیڈر جن میں مودی جی بھی شامل ہیں حیران رہ گئے کہ ان کی حکومتیں دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگئیں ۔ نہ مودی کی چرب بیانی نے ساتھ دیا اور نہ اُن کی وہ جنتیں کام آئیں جو عوام کو ہتھیلیوں میں دکھایا کرتے تھے ۔ خاص طورپر اس لئے کہ یہ ریاستیں ہندی بولنے والوں کی تھیں اور بی جے پی انھیں اپنی جاگیر سمجھتی تھی ۔ مزید دو ریاستیں میزورم اور ہماری اپنی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کا کبھی کوئی اثر نہیں تھا ۔ ہماری ریاست میں اگر چیف منسٹر کے سی آر کے مقابلہ پر کوئی تھا تو صرف کانگریس تھی ،بی جے پی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔ دونوں ریاستوں میں علاقائی جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ۔ اس لحاظ سے 5 ریاستوں میں بی جے پی کی ہار ہوئی گویا جس چناؤ کو بی جے پی سیمی فائنل قرار دے رہی تھی اس میں اس کو مکمل ہزیمت اُٹھانی پڑی ۔ 3 بڑی ریاستوں میں ناکامی اور کانگریس کی شاندار کامیابی نے بھرم کھول دیا۔
صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی فتح کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کم و بیش ان ہی باتوں کا ذکر کیا تھا ۔ انھوں نے یہ بالکل درست بات کہی ہے کہ ’’بہت بڑی ذمہ داری پارٹی پر عوام نے ڈالی ہے ۔ ہم عوام کی اُمیدوں کو پورا کرتے ہوئے بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، جی ایس ٹی ، نوٹ بندی وہ سینکڑوں مسائل میں شامل ہیںجس کو نئی کانگریس حکومتوں کو حل کرنا ہے ۔ یہ اُمیدیں جو عوام نے کانگریس سے وابستہ کی ہیں انھیں پورا کئے بغیر کوئی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی‘‘ ۔ ابھی 2019 ء کے اوائل میں ملک بھر میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ بقول بی جے پی یہ دونوں پارٹیوں کے درمیان فائنل ہوگا ۔ اور ظاہر ہے کہ اس فائنل کیلئے شکست خوردہ بی جے پی بھی کمر کس کر اُترے گی ۔ ان چند مہینوں میں اگر کانگریس حکومت کسی نہ کسی حد تک مسائل پر اور اُن کے حل پر توجہ کرے گی تو 2019 ء کے عام چناؤ میں بھی اس کو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔ وعدے اور بلند بانگ دعوے مودی جی اور اُن کی پارٹی نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں کئے تھے ان کے پورے نہ ہونے کی سزا 2018ء کے انتخابات میں عوام دے چکے ہیں یعنی عوام کو جمہوریت میں اپنے حقوق کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ یہ بات بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کس پارٹی کو سزا دینے کا حق انھیں کب استعمال کرنا چاہئے ۔ 2018 کے چناؤ کا تجربہ اور سابقہ تجربات نے انھیں یوروپ کے کسی بھی ملک کے عوام سے زیادہ باشعور بنادیا ہے ۔ عوام اب اپنا فیصلہ خود کرنے لگے ہیں انھیں سیاسی پارٹیوں کی خوبیوں اور خامیوں کا علم ہوچکا ۔ انھوں نے ایک مرتبہ بی جے پی کو اقتدار پر لاکر کتنی بڑی غلطی کی تھی اس کا اب انھیں پوری طرح سے علم ہوگیا ۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ داخلی مسائل سے عوام کا گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن 70 سال کے جمہوری دور نے انھیں یہ بھی سکھادیا کہ خارجی حکمت عملی کا ان کی زندگیوں پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ مودی حکومت کی تقریباً تمام داخلی اور خارجی پالیسوں پر اب ان کی گہری نظر ہے اور ان اُمور کا انھیں اندازہ بھی ہے ۔ ہندوستان کا عام ووٹر اب کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے رائے دہندہ جیسا ہوگیا ۔ اب ہندوتوا ، بابری مسجد ، رام مندر بنانے کا وعدہ کرکے یا انھیں کوئی اور نئی بات کرکے دھوکا نہیں دیا جاسکتا یہی دھوکا ہندوتوا کی حامی طاقتوں نے ملک کے عوام کو دیا تھا ، ایک ربع صدی گزرگئی کوئی مندر نہیں بنا ۔ اس ایک مسئلہ پر صرف قتل و غارتگری کی سیاست ہوگی ۔
گاؤکشی سے بھی عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ۔ گاؤکشی کے بہانے سے کسی محمد اخلاق کا دادری میں بے رحمانہ قتل کا غم نہ تو مسلمانوں نے بھلایا ہے اور نہ اس گاؤں کے شریف النفس ہندو بھائیوں نے بھیلایا ہے ۔ ابھی حال میں بلند شہر میں جنونی ہجوم نے ڈیوٹی انجام دینے والے پولیس عہدیدار کا قتل کیا۔ بی جے پی حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ اُترپردیش کے چیف منسٹر نے نت نئے خوابوں کو فروخت کیا ۔ ابھی نفرت کی سیاست پوری طرح ختم نہیں ہوئی بلکہ بی جے پی کے دور میں تو اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ ہر مجرم کو سزا ء کے بجائے کسی نہ کسی انداز میں نوازنے کی پالیسی پر مودی حکومت عمل پیرا ہے ۔ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کاہر موقع حکومت استعمال کرتی ہے ۔عوام ان باتوں سے سخت ناراض اور نالاں ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں امن کی فضا ختم ہورہی ہے ۔ عوام ان واقعات سے تنگ آگئے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کی عصمت ریزی اور اس کے بعد ان معصوم بچیوں کو قتل کرنے کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں ان تمام جرمات اپنے تلخ تجربات کے بعد ہی صرف 5 سال کے عرصہ سے بھی کم مدت میں عوام کو دل شکستہ کردیا ۔ کہاں وہ اُمیدیں جو عوام نے بی جے پی حکومت کی چرب بیانی کی وجہہ سے بنائی تھیں وہ پوری تو کیا بلکہ شروع بھی نہیں ہوئیں انھیں کچھ ملا تو نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، دستوری اداروں میں حکومت کی مداخلت ان کے درپردہ دخل اندازی اور قانونی حیثیت کو گھٹانے کی کوشش نے خود ملک کی جمہوریت کے لئے خطرات پیدا کردیئے ہیں ۔ ہندوستان ایک قانونی حکومت رکھتا ہے ، اس کا اپنا عدلیہ ہے جو آزاد اور خودمختار ہے ۔ لیکن صرف چند برسوں میں بی جے پی کی مودی حکومت جو تباہی اور تاراجی ان عظیم الشان اداروں کی کی ہے اس کی وجہ سے بھی مودی حکومت کو عوام نے مسترد کردیا ۔ کچھ سبق اپوزیشن جماعتوں نے سیکھا ہے اور بی جے پی سے مقابلہ کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد بھی پیدا کیا ہے ۔ راہول گاندھی کی شکل میں ملک میں ایک ایسا لیڈر دیکھنے میں آرہا ہے جو فرقہ پرست طاقتوں اور ہندوتوا کی نعرہ بازی کرنے والے عناصر کی بڑھتی ہوئی طاقت کامقابلہ کررہا ہے ۔ اس قسم کی قیادت کی موجودہ حالت میں ضرورت بھی زیادہ ہوگئی تھی ؎
زمانے نے کسی کی رعونت پر خاک ڈالی ہے
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں