روش کمار
سال 2013 ء میں نریندر مودی نے اُس وقت کی حکومت کو روپئے کی گرتی ساکھ پر الزام عائد کیا تھا۔ عوام نے ان کی جذباتی تقریر پر ’’واہ ! مودی جی ، واہ !!‘‘ کہتے ہوئے انہیں سراہا تھا ۔ اسے کہتے ہیں تقریر ۔ ہم ایک ایسا قائد چاہتے ہیں جو بات کرے ۔ ہماری قوم کے بھوکے شکم کو بھاشن اور شعلہ بیانی تقریر چاہتے ہیں نہ کہ پیٹ بھر راشن !!!
قدرتی طور پر ہم ہمارے قومی قائدین سیان کی لمبی زبان سے آواز نکلتا دیکھنا چاہتے ہیں جس کو مودی نے محسوس کرلیا اور انہوں نے تقریر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ جب پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بام عروج پر پہنچیں ، مودی گرجے ، صرف گرجے برسے نہیں ۔ جب مزید روپئے کی قدر میں گراوٹ آئی ، انہوں نے بجلی کی سی تیزی دکھائی ۔ ٹوئیٹ کے ٹوئیٹ ، مباحث کے بعد مباحث میں حصہ لیتے گئے۔
اس کے بعد سال 2014 ء میں جب وہ وزیراعظم بنے تو جنہوں نے ان کی تعریفیں کی تھیں، انہیں زبردست عہدے ملے ۔ کچھ ٹی وی نیوز اینکرس کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہاں تک کہ کچھ ایڈیٹرس کو حاشیہ میں ڈال دیا گیا جس کے خوف سے میڈیا خاموش ہوگیا جس کے بعد گود میں بیٹھے کتے کی طرح Lapdog میڈیا وجود میں آیا ۔ اب مودی کیلئے پوری آزادی تھی کہ وہ جو چاہے کہہ سکتے تھے ۔ تاہم حیرت انگیز طور پر وزیراعظم مودی خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ پٹرول کی بڑھتی قیمتوں پر بھی چپ سادھ لی ، روپئے کی قدر میں گراوٹ اور نوٹ بندی پر بھی، یہاں تک کہ چپ ہوگئے جبکہ مودی جی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ وقت ان کی تڑپتی بھڑکتی اور شعلہ بیان تقریر کا صحیح وقت ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کو وعدہ کے مطابق روزگار نہ سہی ، کم از کم وہ ان کی تقریر سے محروم نہیں رہ سکتے !!
اصل قومی دھارا سے جڑا میڈیا کے ’’وشوا گرد انڈیا‘‘ مودی جی کو اس قسم کا اقدام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے قوم کمزور ہوتی ہے ! اور اگر وہ (مودی) ٹی وی اینکرس سے خوفزدہ ہیں تو انہیں نہ صرف برطرف کیا جاسکتا ہے بلکہ ایک یا دو لاٹھی مارنے سے وہ (اینکرس) چبھتے سوالات سے باز آجائیں گے؟ کیا ہم نے اسی ہندوستان کی خواہش کی تھی ؟ آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر سامنے لایئے ۔
2018 ء سے پہلے ہم نے ہندوستان کو کہاں دیکھنا چاہا تھا جبکہ 2013 ء سے ہمیں بحیثیت ایک قوم پورے ملک کو دھوکہ میں رکھا گیا۔ اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی 2013 ء میں کی گئی تقاریر سے خوفزدہ ہیں یا پھر 2019 کیلئے اس سے بہتر تقاریر کی تیاری میں مشغول ہیں۔ ابھی تک وہ (مودی) اپنی قدیم تقاریر کو ٹوئیٹ کرتے ہیں اور اس میں یہ وضاحت ہوتی ہے کہ ’’میں (مودی) نے جو پہلے کہا تھا وہ آج بھی سچ ہے ‘‘۔ آخر کیوں میں وہی پرانی تقاریر کو دوبارہ کہوں۔ جب آپ ان (مودی) کی قدیم تقاریر کو سنیں گے تو آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے آپ 2018 ء میں نہیں بلکہ سال 2013 ء میں ہیں ۔ آپ کو یہ لازمی طور پر سمجھ ہونا چاہئے کہ Generals عمومی طور پر بات چیت نہیں کرتے ۔ وہ (جنرلس) جب کسی کو عہدہ سے گرانا ہوتا ہے ، اسی وقت (ضروری) بات کرتے ہیں نہ کہ کسی کے سوال کا جواب دینے کے لئے کیونکہ وہ ہر کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے ‘‘۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پچھلی تقاریر نے مودی کو پریشان کیا ہوا ہے؟ کچھ معاملات میں ایسا نہیں ہے ۔ یاد کیجئے سری سری روی شنکر نے ڈالر کے مقابل 40 روپئے مضبوط ہندوستانی کرنسی کا وعدہ کیا تھا ۔ کیا آپ نہیں جانتے وہ اپنے شاگردوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ رام دیو نے کہا تھا کہ وہ 35 روپئے فی لیٹر پٹرول اپنے شاگردوں کو دیں گے۔ وہ بھی بدقسمتی سے خاموش ہیں کیونکہ ان کے ’’وشوا گرو مودی جی ‘‘ خاموش ہیں۔ اب یہاں پر ان کا دوغلاپن دیکھئے ، رام دیو کے شاگرد روپئے فی لیٹر کے بجائے 86 روپئے فی لیٹر پٹرول ڈلوا رہے ہیں اور ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نکل نہیں رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں (مودی) نے اس طرح کا مطالبہ کیا ہو کہ جو کوئی اینکر چبھتے ہوئے سوالات کرے اُس کو فوری اثر کے ساتھ برطرف کیا جائے ۔ یہاں ہندوستان میں کروڑوں بیروزگار موجود ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ میں (مودی) ان تمام بیروزگاروں کو ملازمت نہیں دے سکتا لیکن جو (حق گو) برسرکار ہیں ،انہیں بیروزگار تو کر ہی سکتا ہوں۔ جب ’’آئی ٹی سل‘‘ کچھ وجوہات کے ساتھ سامنے آئے تو انہیں ’’اربن نکسل‘‘ کا خطاب دیا جائے ۔ ان تمام مذکورہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے عوام نے بھی چپ سادھ لی ہے۔ مودی نے سال 2013 ء میں اپنے تمام Issues پر عوام سے رائے طلب کی تھی تو وہ (مودی) اب 2018 ء میں یہی کام کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ بحیثیت وزیراعظم مودی کو تاریخی گراوٹ میں روپئے کی قدر میں کمی پر یا پھر رافیل معاملت پر ان کی مضبوط موقف میں ناکامی کیوں در آئی ہے ؟ رافیل معاملت میں وزیر دفاع نے کچھ کہنے کا آغاز کیا تھا کہ مودی جی انہیں خاموش ہوجانے کا حکم جاری کردیا۔ یہ صرف خوف کی وجہ سے ہے جس کا پراسیس مکمل ہوچکا ہے ۔ جیسے ہی آپ سوالات کا آغاز کریں گے ، انکم ٹیکس عہدیدار آپ کے گھر کی دہلیز پر موجود ہوں گے جس کے بعد تمام Lapdog میڈیا آپ کو ’’اربن نکسل‘‘ کے روپ میں پیش کرے گا جس کی وجہ سے عوام نے چپ سادھ لی ہے ۔ اگر آپ بات کرنے والا مسائل پر کھل کر بات کرنے والا قائد چاہتے ہیں تو اسے ہمیشہ خوفزدہ رہنا ہوگا جبکہ خاموش رہنے والے قائد کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ۔
ابھی تمام ٹیلی ویژن میڈلیا چینلس پر یہی بحث جاری ہے کہ ’’مودی کے بالمقابل کون ہوگا ‘‘ جو 2019 ء کے انتخابات میں ان سے مقابلہ کی ہمت رکھتا ہے۔ 2018 ء کے اہم سوالات میں جس سے عوام کی زندگیوں میں واضح فرق آسکتا ہے ، ان تمام سوالات کو غائب کردیا گیا ہے ۔ سوالات ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی غائب کردیا گیا ہے، صرف ’’بھکت ‘‘ یا حمایتی باقی ہیں جو بنیادی چبھتے ہوئے سوالات نہیں کریں گے جیسے اگر عوام کو ملازمتیں نہیں ملیں گی اور جب وہ کمائیں گے نہیں تو وہ پٹرول کی ہوشربا قیمت 86 روپئے پر کیسے خرید پائیں گے۔ کیا عوام واقعی خوفزدہ ہے یا پھر روپئے کی قدر میں گراوٹ اور تیل کی خطرناک کی حد تک بڑھنے والی قیمت پر بات کرنے میں بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ چند یوم قبل ، مہیش ویاس ، مینجنگ ڈائرکٹر اور سی ای او برائے ’’سی ایم آئی ای ‘‘ نے ’’بزنس اسٹانڈرڈ‘‘ میں کہا کہ جی ڈی پی میں 8.2 فیصد اضافہ پہلے سہ ماہی میں اس سال ہوا جبکہ ایک فیصد کمی ملازمتوں میں اسی سال کے دوران ہوئی جبکہ ایک فیصدکمی ملازمتوں میں اسی سال کے دوران ہوئی ۔ جولائی 2017 ء اور جولائی 2018 ء میں ملازمتوں میں 44 فیصد کمی محسوس کی گئی ۔ ویاس کے مطابق دوسرے سیاہی میں اسی ٹرینڈ کو دیکھا گیا جبکہ اگست 2018 ء میں 1.2 فیصد ملازمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ ملازمتوں میں کمی نومبر 2017 ء تک لیبر فورس میں اضافہ ہوا ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد سے لیبر فورس میں انتہائی کمی دیکھی گئی کیونکہ انہیں ملازمتوں کے ملنے کا کوئی یقین نہیں تھا اور اب بیروزگار ’’ لیبر مارکٹ‘‘ کو دوبارہ’’رجوع بکار‘‘ ہورہے ہیں تاہم انہیں کوئی ملازمت نہیں مل رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں نوجوان ، ملک کا اثاثہ ، ہاتھوں میں بیانرس تھامے احتجاج کر رہے ہیں، تاہم مودی شعلہ بیان مقرر کو یہ سب نظر نہیں آرہا ہے ۔ جیسے ہی ہندو مسلم نوجوان ملازمتوں کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ انہیں الگ الگ نظر آتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف وہ (نوجوان) انہیں (مودی) کو اپنے نظر آتے ہیں ۔ نیتی آیوگ کے نائب صدرنشین ، راجیو کمار نے کہا کہ وہ نوٹ بندی کے دوسرے دور کیلئے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ ’’نیتی آیوگ‘‘ صدرنشین وزیراعظم نریندر مودی ہیں، اسی طرح جینت سنہا ، وزیر برائے ہوا بازی نے دعویٰ کیا کہ فضائی کرایہ ، آٹو رکشا کے کرایہ سے بھی کم ہیں۔ اب چاہے وہ جو بھی کہہ لیں ، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں تاہم چبھتے ہوئے حقیقی سوالات کا جواب نہیں دے سکتے۔ ایسا کرنے والوں کا وہ دوران مباحث ان کا منہ بند کرسکتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ ملک کے اصل مسائل سے ہٹے رہے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عوام ان سے اصل بنیادی سوالات نہ کریں جیسے پٹرول کی ہوشربا قیمت 86 روپئے ، باوجود خام تیل میں کمی کے کیونکر ہوئی ؟ وغیرہ ۔
ravish@ndtv.com