ڈاکٹر مجید خان
جس طرح سے ہندوستان کے حالات بدل رہے ہیں اُن کو صرف مودی کا دماغ ہی سمجھ سکتا ہے، مگر بعض نئے اشارے اس شخص کی فکر ونظر کے تعلق سے مل رہے ہیں۔ مشکل اس بات کی ہے کہ ماضی میں اس طرح کی کوئی مثالیں نہیں ملتیں۔
میں اس سمت میں اپنے خیالی گھوڑے دوڑانا چاہتا ہوں اور اس میں لُطف بھی آتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی ملک کی معیشت کو پہلے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اس شخص کے اختراعی ذہن میں سب سے پہلے سرکاری خزانوں کو بھرنا ہے اور کسی کو اس کے لوٹنے کا موقعہ نہیں ملنا چاہیئے جیسا کہ کانگریس حکومت کا دستور رہا ہے۔
نواز شریف کو دعوت دینا اور اُن کا اس کو قبول کرنا بہت معنٰی خیز پہلو ہے۔ دونوں ممالک کا معاشی موقف کافی بہتر ہوسکتا ہے اگر دونوں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں، یہ ممکن نظر آرہا ہے۔
یہ شخص صحیح معنوں میں ایک خود کار مشین ہے کیونکہ تھکاوٹ کیا چیز ہے انہیں معلوم نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 24گھنٹے یہ سوچتے ہی رہتے ہیں، خیالات کے گھوڑے اس شخص کے مسلسل بھاگتے رہتے ہیں۔ کوئی اس دوڑ میں اُن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔وزراء کو روزانہ 16گھنٹے کام کرنے کی وہ تلقین کررہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سوائے چند وزراء کے جو اُن کی طرح محنتی ہیں اور ہم خیال بن سکتے ہیں اور عصری ترقی، ٹکنالوجی میں بھرپور اعتقاد رکھتے ہوں تھک جائیں گے۔
مودی کی فکر کی ایک جھلک ریلوے کے مستقبل کے تعلق سے ہے۔ کانگریس حکومت ان تمام اصلاحات سے بے بہرہ تھی،کانگریس کا ہر نیا ریلوے کا وزیر دو، چار نئی ٹرینس شروع کردیتا ہے اور اپنے انتخابی حلقوں کے عوام کو خوش کردیتا ہے۔ سیاستداں ہمیشہ اپنی سستی شہرت کی خاطر ذمہ دار و قابل ماہرین کی رائے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا، بے شمار نئی نئی ٹرینس متعارف ہوگئیں مگر جو بنیادی پٹریوں وغیرہ کا جال تھا وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور بے شمار حادثات ہونے لگے۔
مودی کی ماہرین کی ٹیم اُن کی عمیق نظر کا جائزہ لے رہی ہے اور سننے میں آرہا ہے کہ اُن کے دور میں بُلٹ گاڑیاں نئی پٹریوں اور نئے عصری نظام کے تحت دوڑنے لگیں گی۔ اب دیکھیئے اس کا اثر کیا ہونے والا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی، ممبئی یا چینائی کے درمیانی بُلٹ ٹرین شروع ہوجائے تو یہ سب دوسری پرانی گاڑیاں راجدھانی سے لیکر سب ختم ہوجائیں گی، کیونکہ ہر آدھے گھنٹے کے وقفے سے یہ گاڑیاں چلنے لگیں گی۔اسی طرح سے سرکاری دفاتر میں روز مرہ کا کام عصری ٹکنالوجی کی وجہ سے بڑی سُرعت سے ہوتا جائے گا۔ اس شخص کی توجہ رشوت پرانی پھیلی ہوئی بیماری پر روزِ اول سے رہے گی، بے چارے عام لوگ تو اس کے عادی ہوہی گئے ہیں اوریہ قدیم کانگریسی کلچر ہی رہا ہے۔
پولیس میں ملازمت ہو یا پھر کسی بھی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپئے دینے پڑتے ہیں۔مودی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس لعنت کو ختم کریں گے۔گجرات سے جو تفصیلات مل رہی ہیں وہ حوصلہ کن ہیں، ایک صاحب جو اکثر گجرات کا دورہ کیا کرتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ سرحدوں کی چوکیوں پر کسی قسم کی غیر ضروری رکاوٹ نہیں ہوتی اور کوئی رشوت کا مطالبہ نہیں کرتا۔اگر اُن کے منصوبوں کی پوری ترجمانی ہو تو ہندوستان صحیح معنوں میں ایک ترقی یافتہ ملک کی فہرست میں آجائیں گے۔ بنیادی سہولتیں جب ہر شہری کو ملنے لگیں گی اور حکام کی طرف سے ہراسانی نہ ہو تو پھر ایسا سکون مل سکتا ہے جو ماضی میں نصیب نہیں ہوا تھا۔
تعجب ہوتا ہے کہ کانگریس حکومت جو ہمیشہ اقلیتوں اور غریبوں کی بھلائی کا دَم بھرتی رہی لیکن وہ اقلیتوں کیلئے ایسی راحتوں کے تعلق سے کیوں نہیں سوچ سکی۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی اپنے اقتدار اور عہدوں کا استعمال کرتے ہوئے خود اور خاندان والے مالا مال ہوتے رہنا۔ محلے کا ایک چالو لیڈر، کارپوریٹر بنتا ہے اور قسمت ساتھ دے تو وزیر بھی بن جاتا ہے اور اُس کی دولت اور شان و شوکت میں دن دوگنی اور رات چوگنی جو ترقی ہم سب دیکھتے آرہے ہیں وہ ایک عام بات ہوگئی ہے۔
کم از کم مودی کے تحت مرکزی حکومت میں تو یہ اقتدار کے استحصال کا رواج نہیں ہوگا۔
کیا ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔پہلا تعمیری کام جو مودی نے کیا وہ تھا پھیلتی ہوئی وزارتوں کوگھٹا دینا۔ اب کم لوگ زیادہ کام کریں گے، اور یہ لوگ صحیح معنوں میں مودی کی طرح محنتی اور نئے خیالات سے آراستہ ہوں گے۔ کانگریس حکومت ایک لنگڑی حکومت تھی اور وہ اپنے شراکت داروں کے رحم و کرم پر جی رہی تھی اس کے بجز عوام نے جو اکثریت مودی کو مہیا کی ہے وہ اسی اُمید سے کہ اب ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو طریقے اور طرزِ حکومت کو نئی سمت میں لے جائے۔
مودی کا نعرہ ہے less Government- More Governance۔ اب میں اپنا سر کُھجا رہا ہوں کہ اس کا ترجمہ اُردو میں کس طرح سے کروں۔ انگریزی میں کتنی آسانی سے انہوں نے اپنی غور و فکر اور پالیسیوں کا احاطہ کیا ہے، مگر اُردو میں اسے میں کیا لکھوں، کوشش کرتا ہوں۔’’ عہدیداریت کم اور عہدہ برآوری زیادہ‘‘ حکومت کی مشنری نظر نہیں آنا چاہیئے بلکہ اُس کے کام اور کارکردگی میں شفافیت زیادہ ہونی چاہیئے۔
حیدرآباد اور تلنگانہ میں ان عصری اصلاحات کے اثرات نظر نہیں آئیں گے سوائے مرکزی حکومت کے زیر اثر دفاترکے۔ کانگریس کے کلچر سے اگر نئی حکومت بچی رہے تو یہاں بھی انقلابی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں جمے رہنے کی خاطر دھاندلیاں کرتی ہیں ان کا خاتمہ قوم کی بھلائی کیلئے ضروری ہے۔
دیکھئے جگن کا کیا عبرتناک حشر ہورہا ہے۔جگن کی ایک زندہ اور تازہ مثال ہے جس کو ہم فراموش نہیں کرسکتے کہ کس طرح اُن کے والد راج شیکھر ریڈی نے ہرف طرف سے رشوت کھسوٹ کر اپنے خاندانی خزانے بھرلیئے تھے۔ان کے بیٹے جگن کا دماغ تو ساتویں آسمان پر تھا۔ سب سے پہلے جگن نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُنھیں آندھرا پردیش کا چیف منسٹر بنایا جائے بلکہ وہ حق بھی جتانے لگے۔وہ بے حساب دولت جماچکے تھے اور انہوںنے مرکزی حکومت کے خلاف باضابطہ عوامی تحریک شروع کردی تھی۔انھیں نہ حکومت کا تجربہ اور نہ پختہ عقل، عوام کی بے پناہ حمایت نے انھیں اور ان کے خاندان والوں کو اس زعم میں لادیا تھا کہ وہ انتخابات طوفانی طریقے سے جیتیں گے۔ ٹیلی ویژن دیکھنے والے بھی جگن کے والہانہ استقبال اور بے پناہ ہجوم اور ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھ رہے تھے کہ جگنسب سے بڑے سیاسی لیڈر بننے والے ہیں، مگر اُن کی ساری تراکیب رائیگاں گئیں ۔جگن کی ماں کو بھی انتخابات میں شکست ہوئی اور اب اس سیاسی طفل کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ جگن کے ساتھی بھی دور بھاگ رہے ہیں اوران کا واپس جیل جانا ضروری ہوگیا ہے۔حالیہ انتخابات کے ساتھ ہی جس برق رفتاری سے سیاسی تبدیلیاں آرہی ہیں انھیں سمجھنا مشکل ہے۔
مودی سرکار کی ایک اور خصوصیت سامنے آرہی ہے کہ اس تیز رفتار حکومت نے اپنی حلف برداری تقریب میں پڑوسی ممالک کو مدعو کیا اور سبھی نے اسے قبول کیا اور تقریب میں شرکت کی اور انہوں نے سب سے فرداً فرداً بات چیت بھی کرڈالا۔ کیا کوئی بھی نئی حکومت پاکستان سے اتنی جلدی دوستانہ اندا ز میں ملتی تھی اور وہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ! ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
٭٭٭