مودی اور ممتا بنرجی کا تصادم

غضنفر علی خان

ممتا بنرجی مغربی بنگال کی ایسی وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے 26 سالہ حکومت کو جو کمیونسٹوں کی تھی، شکست دے کر اقتدار حاصل کیا تھا، مزاج کے اعتبار سے ممتا بنرجی صاف گو خاتون لیڈر ہیں۔ اُن کا پس منظر سیاسی اعتبار سے کانگریس کا ہے، وزیراعظم مودی نے اس کو سمجھے بغیر مغربی بنگال کے پولیس کمشنر راجیو کمار کے دفتر پر سی بی آئی کا دھاوا کروایا حالانکہ طریقہ کار کے مطابق کسی ریاستی کمشنر پولیس پر دھاوا کرنا کوئی منصفانہ اقدام نہیں ہے ، اس کے لئے ریاستی حکومت کی پہلے ہی سے اجازت لینی پڑتی ہے ، بغیر کسی علم و اطلاع کے کولکتہ کے دفتر پر دھاوا پہلا نقص ہے ۔ مودی جی کھلے بندوں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ممتا بنرجی وزیراعظم مودی کی سخت مخالف ہے، کچھ ہی دن پہلے ممتا بنرجی نے ’’دیش بچاؤ ، مودی ہٹاؤ‘‘ کی اپنی مہم کے سلسلہ میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک زبردست ریالی کا کولکتہ میں انعقاد کیا تھا جس میں تقریبا ً پندرہ لاکھ عوام نے شرکت کی تھی ، ویسے بھی اپوزیشن کے اتحاد کی کوشش جاری تھیں اور ان کوششوں میں جن اپوزیشن لیڈروں نے گہری دلچسپی لی تھی ، ان میں تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا حصہ ادا کیا تھا لیکن کولکتہ کی ریالی نے بی جے پی اور اس کے وزیراعظم مودی کے ہوش اڑادیئے اورانہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ 23 اپوزیشن پارٹیوں کا یہ مہا گٹھ بندھن ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ، اس خوف نے انہیں دستور ہند کی کلیدی خوبی کو ملیامیٹ کرنے پر مجبور کردیا اور وزیراعظم نے سی بی آئی کا استعمال کیا جو راست طور پر ان کے کنٹرول میں ہے ۔ یہ دھاوا شاردھا اسکینڈلس اور روز ویالی میںگھٹالہ ہونے کے سلسلہ میں تھی جس کا فی الوقت نہ سیاست سے تعلق ہے اور نہ یہ کوئی موقع ہے کہ گڑھے مردے اکھاڑے جائیں ، ان اسکینڈلس میں جو کئی برس قبل ہوئے تھے ، ابتدائی تحقیقات پہلے ہی ہوچکی تھی لیکن مودی یہ سمجھتے تھے کہ ممتا بنرجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ان کی راہ میں رکاوٹ بنے گی چنانچہ انہوں نے اپنی انتقامی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اقدام کیا ۔ انتقامی سیاست بی جے پی اور مودی کی سرشت میں ہے ایسے کئی واقعات ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی ا پنے مخالفین کی آواز ختم کردینا چاہتے ہیں، اس ریالی میں اپوزیشن کے علاوہ بی جے پی کے سابق لیڈر یشونت سنہا اور موجودہ رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے بھی حصہ لیا تھا اور ریالی سے کھرے کھرے انداز میں خطاب بھی کیا تھا اس لئے صرف اپوزیشن پارٹیوں کو ذمہ دار قرار دینا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے ، اس کی ایک اور مثال دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کے ساتھ مرکزی حکومت اور مودی کے غیر مفاہمانہ رویہ سے بھی دی جا سکتی ہے ۔ وہاں بھی انتقامی کارروائی کے جذبہ کے تحت وزیر اعلیٰ دہلی اروند کجریوال کا جینا حرام کر رکھا ہے کیونکہ 2014 ء میں دہلی کی اسمبلی کے لئے جو انتخابات ہوئے تھے ، اس میں کجریوال نے بی جے پی کو ایسی دھول چٹائی تھی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ، انہوں نے دہلی اسمبلی کی 70 سیٹوں میں سے 67 سیٹ پر کامیابی حاصل کی ، ان کی ’’عام آدمی پارٹی ‘‘ نے گویا ایک تاریخ بنائی تھی ۔ بی جے پی کو یہ شکست ہضم نہیں ہوئی اور وزیر اعلیٰ دہلی کا مرکزی حکومت نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ اب اس وقت مرکزی حکومت رابرٹ ووڈرا کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں، ان پر سرکاری زمینات پر قبضہ کرنے اور بے حساب دھن و دولت جمع کرنے کا الزام ہے ۔ رابرٹ وڈرا کی شریک حیات پرینکا گاندھی کو کانگریس پارٹی نے تنظیمی سطح پر پارٹی میں شامل کرلیا ہے اور انہیں مشرقی اترپردیش میں پارٹی کی انتخابی مہم کا سربراہ مقرر کیا ہے ، اس پر بی جے پی سخت نالاں ہے جس کا اس پار ٹی کو کوئی حق نہیں ہے ، پرینکا کے پا رٹی کے جنرل سکریٹری بننے پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، پرینکا گاندھی نے اپنے شوہر رابرٹ ووڈرا کی تائید کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے دفتر تک پہنچایا دراصل یہ اقدام اپنے شوہر سے وابستگی اور وفاداری کا اعلان تھا جس کا پرینکا گاندھی کو کامل اختیار ہے ۔ کانگریس پار ٹی کے لیڈروں کو ہراساں کرنے کی کوئی کوشش کرنے کا مودی حکومت نے گویا اپنا مقصد بنالیا ہے اور جہاں جہاں بی جے پی حکومت ہے وہاں وزیراعظم مودی نے اپنے لیڈروں کی کارستانیوں کی پردہ پوشی کی ہے ۔ مثال کے طور پر راجستھان کی چیف منسٹر کے خلاف انہوں نے (مودی) کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ اپنی پارٹی کے صدر امیت شاہ کے بیٹے کی چند ماہ میں کروڑ پتی بننے کے درست الزام کی مودی نے مدافعت کی۔ اپنی پارٹی کے عیوب کو چھپانے والے وزیراعظم کو کانگریس پا رٹی کے لیڈروں کے خلاف سی بی آئی کا استعمال کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں انتہائی مناسب اور درمیانہ راستہ اختیار کیا ۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججس نے اس سلسلہ میں جہاں سی بی آئی کی درخواست پر غور کرتے ہوئے کمشنر پولیس کے طلب کئے جانے کی تا ئید کی لیکن اس فیصلے میں سی بی آئی کو نصیحت کی کہ وہ پوچھ تاچھ کے دوران مسٹر سنجیو کمار پر دباؤ نہ ڈالیں، ان کے ساتھ انصاف پسندی سے کام لیں۔ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کمشنر پولیس کولکتہ کے وکیل سے کہا کہ انہیں (مسٹر کمار) بھی اپنے فرائض کی پوری دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کرنی چاہئے ۔ ممتا بنرجی کا بی جے پی کے خیال میں صرف یہی قصور ہے کہ انہوں نے ایک ایسا محاذ کھڑا کردیا ہے جو وزیراعظم کی شکست کا باعث ہوسکتا ہے ۔ اکیلی ممتا بنرجی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کولکتہ کی ریالی کامیاب ہوئی ، بس اس کی پاداش میں انہیں (ممتا بنرجی) اتنے مصائب کا سامنا کر پڑ رہا ہے کہ خود بی جے پی کے لیڈر شتروگھن سنہا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ممتا بنرجی بنگال کی شیرنی ہے اور معمولی چپل اور کاٹن کی ساڑی مغربی بنگال اور سارے ہندوستان میں ان کی پہچان کی علامت بن گئی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بھی نہایت قدر و منزلت کی نظر سے ممتا بنرجی کو دیکھتے ہیں ۔ بی جے پی ہمیشہ اپوزیشن اتحاد کے بارے میں یہ تبصرہ کرتی رہی ہے کہ اس اتحاد نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آخر اس کے وزیراعظم کا چہرہ کون ہوگا کیونکہ بی جے پی کے پاس وزیراعظم کا چہرہ مودی کی شکل میں ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے ۔ اب یہ کہنے کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے کہ اس اتحاد کی وزیراعظم ممتا بنرجی بھی ہوسکتی ہیں ایسے امور کو اٹھانے سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ خود ان کی پارٹی کے لیڈروں نے دبے الفاظ میں یہ تاثر دیا ہے کہ حکومت اور وزیراعظم کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں مرکزی وزیر نتن گڈکری نے عوام سے کہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی فکر پہلے کریں کیونکہ جو انسان اپنے گھر اور خاندان کی فکر نہیں کرسکتا وہ پورے ملک کی فکر کرنے کے لائق نہیں ہے ۔ یہ اشارہ واضح طور پر وزیراعظم مودی کی طرف ہے اس لئے وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ اپوزیشن اتحاد کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم کون بنے گا اس کی مودی جی کو چنداں فکر نہیں کرنی چاہئے، اپوزیشن کیمپ میں کئی ایسے لیڈرس ہیں جو وزیراعظم بننے کے لائق ہیں جبکہ بی جے پی میں سوائے مودی جی کے اور کوئی اس عہدہ کا اہل نہیں سمجھا جاتا ، ایسی انتقامی کارروائی سے اپوزیشن کو تقویت مل رہی ہے جو آئندہ کے لئے بی جے پی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی۔ انتقامی سیاسی روش کو ترک کرنا اس وقت مسٹر مودی اور ان کی پارٹی کیلئے اولین ترجیح کی مستحق ہے ۔