محمد فیاض الدین
مشرق وسطی، ہندوستان، چین اور مغربی ممالک میں پریوں، جادوگروں، جن اور شیطانوں کی عجیب و غریب داستانیں صدیوں سے سنائی جارہی ہیں۔ برصغیر ایشیا میں مشرق وسطیٰ کی مشہور و معروف داستانوں کا مجموعہ الف لیلہ میں ایک بہادر لڑکے علاء الدین اور اس کے جن کی کہانی بہت مشور ہے۔ اس کہانی کو ہر دور کے بچے بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں اور اس پر بنائے گئے ٹی وی سیریلوں اور فلموں کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ دراصل یہ کہانی ایک چینی شہر میں رہنے والے علاء الدین نامی غریب لڑکے کی ہے جو اپنے بلند حوصلوں اور دیانتداری سے بہت دولت مند ہو جاتا ہے۔ اس کہانی میں مغرب سے تعلق رکھنے والا ایک جادو گر علاء الدین کے شہر میں پہنچ کر خود کو اس کے والد قاسم کا بچھڑا ہوا بھائی ظاہر کرتا ہے۔
اور جادوگر علاء الدین اور اس کی ماں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتاہے کہ وہ علاء الدین کی زندگی بدل کر رکھ دے گا حالانکہ اس جادو گر کا اصل مقصد ایک جادوئی کی غار سے ایک حیرت انگیز چراغ نکالنے کے لئے علاء الدین کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ علاء الدین کو جادوئی غار میں داخل ہونے اور چراغ نکالنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن جب علاء الدین وہ چراغ لئے غار کے دہانے پر پہنچتا ہے تو جادوگر کی نیت خراب ہو جاتی ہے اور علاء الدین اس کے ناپاک ارادوں کو بھانپ لیتا ہے اس طرح چراغ نہ ملنے پر برہم جادوگر غار کا دبانہ بند کرکے چلا جاتا ہے اور معصوم علاء الدین غار میں پھنس کر پریشانی کے عالم میں اپنے ہاتھ ملنے لگتا ہے اس کی ایک انگلی میں موجود انگوٹھی جو اسے جادوگر نے دی تھی دوسرے ہاتھ سے مس ہوتے ہی اچانک ایک دیوہیکل جن برآمد ہوکر اسے اس کی ماں تک پہنچ دیتا ہے۔
علاء الدین کے ہاتھوں میں چراغ موجود ہے اس کی ماں اپنے بیٹے کے ہاتھ میں موجود چراغ پر جمع میل کچیل کو صاف کرنا شروع کرتی ہے کہ اچانک ایک اور جن نمودار ہوتا ہے یہ ایسا جن ہوتا ہے جو ہر اس شخص کا حکم بجا لاتا ہے جس کے قبضے میں یہ چراغ ہو۔ چنانچہ اس جن کی مدد سے علاء الدین دولت مند ہے اور بااثر ہو جاتا ہے اور بادشاہ کی بیٹی بدر البدر سے شادی کرلیتا ہے۔ جن علاء الدین کے حکم پر ایک خوبصورت محل بناتا ہے جو بادشاہ کے محل سے کئی گنا وسیع و عریض اور خوبصورت ہوتا ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے اس بارے میں اکثر لوگ جانتے ہی ہوں گے۔ اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد دراصل آج ہندوستان کی موجودہ صورتحال بالخصوص عہدہ وزارت عظمیٰ کے لئے بی جے پی امیدوار نریندر مودی کے عزائم کے بارے میں واقف کروانا ہے۔ جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے وہ بھی عوام سے ایسے ہی وعدہ کررہے ہیں جیسے ان کے ہاتھوں میں جو بقول ملائم سنگھ یادو مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ علاء الدین کی طرح کوئی جادوئی چراغ ہو نریندر مودی کے ویژن (بصیرت) اور علاء الدین کے جادوئی محل میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ مودی زمینی حقائق پر توجہ دیئے بناء تاریخ کے مطالعہ کے بغیر خیالات کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ وہ علاء الدین کے مکار جادوگر کی طرح اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے عجیب و غریب دعوے اور وعدے کررہے ہیں۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مودی کی خود اعتمادی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ وہ بناء سوچے سمجھے ہر موضوع پر بولے جارہے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ جو اعداد و شمارپیش کررہے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تاریخ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں ان کا ہندوستانی تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ معیشت افراط زر، ملک کے تعلیمی اداروں وغیرہ کے بارے میں بھی مودی بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔ سیاسی مخالفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مودی مسلمانوں پر ظلم ان کے حقوق چھیننے مسلم بچوں کو مرکزی اسکالرشپس سے محروم کردینے، نوجوان لڑکی کی جاسوسی کرنے، ہر وقت اپنی ایک گھنٹہ طویل تقریر میں 50 منٹ صرف راہول گاندھی پر تنقید کرنے ان کا بھونڈے انداز میں مذاق اڑانے میں صرف کرنے میں ماہر ہیں۔ مودی نئے شہروں کے قیام، سارے ملک میں گیس پائپ لائن نٹ ورک بچھانے، ہیلتھ انشورنس کو لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ ملک میں مزید آئی آئی ایمس اور دیگر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے وعدے کررہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سارے ملک کو گیس پائپ لائن نٹ ورک سے مربوط کرنے کا کام پہلے ہی شروع کیا جاچکا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پھیلاؤ کا عمل جاری ہے جس کے نتیجہ میں سال 2004ء میں جبکہ ملک میں مرکزی جامعات (سنٹرل یونیورسٹیز) کی تعداد 17 تھی سال 2013ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 44 ہوگئی ہے۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس 6 ہوا کرتے تھے اب ان کی تعداد میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں آئی آئی ایمس کی تعداد 16 تک جا پہنچی ہے۔ نریندر مودی چار ریاستوں کو جوڑنے والی قومی شاہراہ جو حقیقت میں ایک غیر معمولی تجارتی راہداری ہے اس کا کریڈٹ اٹل بہاری واجپائی کو دیتے ہیں۔ لیکن شمال۔ جنوب اور مشرقی ۔ مغربی راہداریاں اور چار ریاستوں کو مربوط کرنے والی قومی شاہراہ کا نیٹ ورک وزارت زمینی حمل و نقل اور منصوبہ بندی کمیشن کے درمیان 1990ء میں طئے پائے معاہدہ کا ایک حصہ ہے۔ ہاں اٹل بہاری واجپائی کو نیشنل ہائی وے اتھاریٹی آف انڈیا کو بااختیار بنانے اور پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے بارے میں سوچنے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں ہر موسم کے لئے سدا بہار سڑکوں کی تعمیر بی جے پی کی زیر قیادت حکومت میں شروع ہوئی
لیکن سال 2004ء سے دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کے لئے مختص فنڈ میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت نے اس شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ نریندر مودی اگرچہ بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں لیکن ان کے پاس بڑھتی قیمتوں پر کنٹرول کے بارے میں کوئی جواب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں تجارت کو فروغ دینے، دیہات میں رہنے والوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے کروڑہا روپے کا فنڈ مقرر کیا گیا ہے۔ لیکن حال ہی میں پیاز کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا اس پر کسی فنڈ کے ذریعہ قابو نہیں پایا جاسکا دیکھا جائے تو کسان درمیانی لوگوں (دلالوں) کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کسانوں کو درمیانی افراد سے بچانے کے لئے اگریکلچرل پروڈیوس مارکٹنگ کمیٹی ایکٹ کو منسوخ کرنے یا اس میں کسان موافق ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی شاید یہ نہیں جانتے کہ غذائی افراط زر پر قابو پانے کے لئے دیہی سڑکیں، دیہی توانائی ہر موسم میں اشیائے مایحتاج (اشیائے ضروریہ) کو خراب ہونے سے بچانے والے گوداموں کی ضرورت ہے اور یو پی اے حکومت 2004ء سے اس خصوص میں اقدامات کررہی ہے۔
ملک کے 4.6 لاکھ مواضعات کو برقی لائن دیئے گئیہیں لیکن کوئلہ پر کول انڈیائی اجارہ داری کے نتیجہ میں بجلی ہنوز کئی مواضعات تک بچھائے گئے تاروں میں نہیں دوڑ رہی ہے۔ ہندوستان میں بتایا جاتا ہے کہ 2290.0 میگا واٹ برقی پیداوار کی گنجائش ہے اس میں سے نصف کا سال 2004ء سے اضافہ کیا گیا۔ دیہی علاقوں میں برقی پیداوار سے اگرو پروسسنگ انڈسٹری اور کولڈ اسٹوریجس کسانوں کو خصوصی و عالمی طلب پوری کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ قیمتوں میں استحکام کے لئے خصوصی فنڈ قائم کیا جانا چاہئے اس بارے میں مودی کو کچھ اندازہ ہی نہیں ۔ واضح رہے کہ آئندہ 20 برسوں میں ہندوستانی کی شہری آبادی میں 25 کروڑ کا اضافہ ہوگا اس کے لئے 20 ہزار مربع کیلو میٹر اضافی شہری اراضی درکار ہوگی۔ 25 کروڑ کی آبادی کو شہروں میں بسانے کے لئے دہلی جیسے 16 نئے شہروں کی ضرورت ہوگی۔ مودی نے نئے شہروں کے بارے میں جو خیالات ظاہر کئے وہ بادشاہ تغلق دور کی باتیں لگتی ہیں
اس دور میں کبھی کچھ تو کبھی کچھ ہوتا رہتا تھا۔ کبھی ایک شہر بسایا جاتا تو کبھی دوسرے شہر کی تعمیر شروع ہو جاتی اسی طرح بار بار کرنسی بھی بدلتی رہتی مودی کے اقتصادی ویژن میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی اسپانسر تنظیم آر ایس ایس ہی ہے۔ ہندوستان میں مختلف مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں یہاں بیک وقت کئی تہذیبوں کو دیکھنے زبانوں و بولیوں کو سننے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ ہمارا ملک کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔ اور ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن آر ایس ایس اس ملک کو ہندوتوا ملک اور ہندوؤں کی سرزمین بنانے کا عزم رکھتی ہے۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہندوؤں کو چھوڑکر دیگر مذہب کے ماننے والو کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک روا رکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ لیکن ہندوستان جیسا ملک ہمہ تہذیبی ملک کی حیثیت سے ہی ترقی کی منازل طئے کرسکتا ہے۔
ہندو اکثریتی ملک کی حقیقت سے وہ ہرگز ترقی نہیں کرسکتا ایسے میں مودی، سنگھ پریوار کے ویژن کو پورا کرسکتے ہیں نہ ہی اپنے خوابوں کی تکمیل کو یقینی بناسکتے ہیں۔ بہرحال ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی جس طرح آر ایس ایس ، ہندوستانی صنعت کاروں اور عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے دعوے کررہے ہیں ان دعوؤں اور علاء الدین کے چراغ کی کہانی میں بہت زیادہ مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ وہاں علاء الدین چراغ گھستے ہی جن کے ذریعہ محلات تعمیر کروا دیتا تھا اور یہاں مودی خیالی محلات تعمیر کرتے جارہے ہیں۔ وہاں مکار جادوگر نے خود کو علاء الدین کا چچا ظاہر کرتے ہوئے جادوئی چراغ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن مودی کے معاملہ میں مکار جادوگر کون ہے اس کا مودی، بی جے پی قائدین اور عوام ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ جہاں تک علاء الدین کے چچا کا سوال ہے مودی کے پاس جن کی شکل میں کون براجمان ہے اس بارے میں بھی مودی ہی بہتر طور پر بتاسکتے ہیں۔