ظفر آغا
پاکستانی چناوی نتائج نے عمران خان کو کرکٹ کپتان سے ملک کا کپتان بنا دیا۔ گو عمران خان کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے لیکن وہ چھوٹی پارٹیوں کی حمایت سے جلد ہی حکومت بنا لیں گے۔ لیکن سیاسی حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں چناؤ سے قبل ہی چناوی نتائج آ گئے تھے۔ کیونکہ پاکستان میں جمہوری حکومت ہو خواہ فوجی حکومت وہاں حکم اور فیصلہ فوج کا ہی چلتا ہے۔ پاکستانی جنرلوں نے کافی عرصے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم عمران خان ہوگا اور آخر وہی ہوا۔ اب عمران خان کا ڈنکا بج رہا ہے اور وہ جلد ہی حلف لے کر پاکستان کے وزیر اعظم ہوں گے۔
پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں جمہوریت پنپ ہی نہیں پاتی ہے۔ یا تو مقبول عوامی لیڈر مارے جاتے ہیں یا پھر ان کو قید کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوجھوٹے قتل کے الزام میں صولی پرچڑھا دیے گئے۔ ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو عوامی جلسے میں گولی مار دی گئی۔ نواز شریف کو ایک نہیں دو بار جیل ہوئی۔ ابھی بھی وہ خود اور بیٹی دونوں جیل میں ہیں۔ اس وقت عمران فوج کے ہیرو ہیں اور پاکستان کے بادشاہ ہیں۔ عمران کو فوج نے باقاعدہ اقتدار تک پہنچانے کا انتظام کیا۔ جیسے ہندوستان میں منموہن حکومت کے خلاف بدعنوانی کے نام پر انا ہزارے کی تحریک چلی تھی ویسے ہی فوج کی مدد سے پاکستان میں عمران کی پارٹی نے نوا زشریف کے خلاف ایک بدعنوانی ہٹاؤ تحریک چلا کر نواز حکومت کو مفلوج کر دیا۔ بالکل ہندوستان میں جیسے ٹی وی میڈیا کے ذریعہ سنہ 2014 سے قبل کانگریس اور یو پی اے حکومت کی ساکھ بدعنوانی کی آڑ میں ختم کی گئی تھی ویسے ہی پاکستانی میڈیا نے میاں نواز شریف کی ساکھ ملیا میٹ کر دی۔ بس پھر جس طرح یہاں مودی میڈیا اور ای وی ایم مشین کی مدد سے وزیر اعظم بن گئے تھے ویسے ہی وہاں عمران خان بھی جیت گئے۔
یاد رکھیے، بدعنوانی کے نام پر چلنے والی سیاسی تحریکیں ہر ملک میں نظام کے ذریعہ کھڑی کی گئی فرضی تحریکیں ہوتی ہیں۔ ایسی ہر تحریک کا مقصد اس شخص یا پارٹی کو اقتدار سے باہر کرنا ہوتا ہے جو نظام کی مرضی کے خلاف کام کرنے لگ جاتی ہے۔ ہندوستان میں انا تحریک آر ایس ایس کی کھڑی کردہ فرضی تحریک تھی۔ سنگھ سونیا گاندھی سے سخت ناراض تھی۔ انھوں نے نریگا جیسی اسکیم سے کروڑہا غریب، پسماندہ اور دلت طبقوں کے لوگوں کا بھلا کیا تھا۔ پھر منموہن حکومت نے سچر کمیٹی رپورٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے حق میں بہت ساری اسکیمیں بھی بنائی تھیں۔ بھلا اعلیٰ ذات سماجی نظام کے ٹھیکیدار سنگھ کو یہ بات کہاں برداشت ہو سکتی تھی! اسی لیے انّا آسمان سے آئے اور یو پی اے حکومت کی زمین ہلا کر چلے گئے اور اس کا فائدہ اٹھا کر مودی کو میڈیا کی مدد سے وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
ایسا ہی سیاسی کھیل پاکستان میں ہوا۔ پاکستان میں فوجی نظام کو ہندوستان سے امن برداشت نہیں۔ نواز شریف کا گناہ یہ تھا کہ انھوں نے ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی غرض سے پہلے وہ خود ہندوستان آ گئے اور پھر ایک بار نریندر مودی کو پاکستان بلا لیا۔ بس فوج کا نیاز نواز پر سے اٹھ گیا۔ دیکھتے دیکھتے عمران خان نے نواز شریف کے خلاف بدعنوانی کا ڈنکا بجا دیا۔ بالکل انّا تحریک میں جیسے مجمع نے دہلی کو گھیر کر منموہن حکومت کو مفلوج کیا تھا ویسے ہی عمران خان نے فوج کی مدد سے اسلام آباد گھیر کر نواز شریف حکومت کو مفلوج کر دیا۔ ساتھ ہی ٹی وی نے عمران کے گن گان اور نواز پر تبرّہ پڑھنا شروع کر دیا۔ فضا بنتی چلی گئی اور آخر جیسے یہاں مودی آئے ویسے ہی وہاں عمران آگئے۔
جمہوریت کے لیے اس اکیسویں صدی میں یہ بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے مختلف کونوں میں نظام نے جمہوریت کو ہائی جیک کرنے کے نئے نئے طریقے نکال لیے ہیں۔ مثلاً ملک کی اکثریت کے ذہنوں میں اقلیت کے خلاف نفرت پھیلا کر اکثریت کا ووٹ جذبات کے بہاؤ سے حاصل کر لو۔ یہ کھیل ہندوستان میں مودی اور سنگھ نے اور یہی کھیل امریکی نظام کے ایک بڑے طبقے اور ٹرمپ نے کھیلا اور جمہوریت کی روح کو کچل کر ایسی حکومتیں قائم کیں جو عوام کے بجائے نظام کی خدمت کر رہی ہیں۔ ہندوستان میں مودی اعلیٰ ذات نظام کے پٹھو ہیں تو امریکہ میں ٹرمپ گورے امریکی نظام کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔ پاکستان میں عمران خان اسی طرح فوجی نظام کی کٹھ پتلی ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں نفرت کی سیاست کی ایک لہر چل پڑی ہے۔ یورپ میں مہاجروں کے خلاف نفرت کی سیاست کا استعمال کر نہ جانے کتنی حکومتیں اقتدار میں آچکی ہیں۔ اس خطرناک سیاست کو کامیاب بنانے کے لیے نظام کی مدد سے مختلف سیاسی شخصیات اور تنظیمیں طرح طرح کے حربوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں بدعنوانی کے خلاف تحریک کھڑی کرنا، اقلیت کے خلاف نفرت کا سیلاب پیدا کرنا اور مذہب و رنگ و نسل ومہاجروں کے دباؤ کے نام پر نفرت کی سیاست کرنے کا چلن چل رہا ہے۔ اس قسم کی نئی سیاست نے جمہوری نظام کی روح کو بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس رجعت پسند سیاست کو کامیاب بنانے میں میڈیا، سوشل میڈیا، سنگھ، فوجی نظام اور نسلی نظام ہر اول دستے کا کام کر رہے ہیں۔
یعنی جمہوریت کو نظام کے فائدے کے لیے اور نظام کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے نظام ہر وہ حرکت کر رہا ہے جو عوام کو جذبات میں بہا کر ایسے لیڈروں کو اقتدار تک پہنچا دے جو نعروں سے عوام کو لبھا کر نظام کی بالادستی کو برقرار رکھیں۔ مثلاً ہندوستان میں ای وی ایم کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا سیلاب ہے، الغرض اکیسویں صدی میں جمہوریت کو کھوکھلا کر جمہوری نظام کو عوام کے بجائے نظام کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی ایک بڑی کامیاب سازش چل رہی ہے جو مودی، ٹرمپ اور عمران خان جیسے لیڈر پیدا کر رہی ہے۔
یہ سازش ابھی تو پوری طرح کامیاب ہے لیکن کوئی بھی سازش ہمیشہ کامیاب نہیں رہ سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب عوام کی آواز کو پوری طرح کچل دیا جاتا ہے تب تب انقلاب ہی برپا ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کی تاریخ بھی کچھ ایسا ہی موڑ لے رہی ہے۔ آنے والا وقت کیا رنگ لیتا ہے یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔ لیکن مودی ٹرمپ اور عمران خان جیسے جمہوری مصنوعی لیڈروں کی قیادت یقیناً آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔