تلنگانہ / اے ڈائری خیر اللہ بیگ
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد میں مذہبی مصروفیات میں اضافہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی بڑی تعداد پابند عبادات ہوجاتی ہے اور سیاستدانوں ، حکمرانوں کو بھی اس ماہ مقدس میں مسلمانوں کی دلجوئی کرنے میں نیکی ملنے کا یقین ہوجاتا ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت تلنگانہ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے تحائف تیار کرلیے ہیں ۔ گذشتہ سال ٹی آر ایس حکومت نے ریاست بھر کی مساجد کو تحائف فراہم کئے تھے ۔ غریب مسلمانوں میں کپڑے تقسیم کئے گئے ۔ 500 گفٹس پیاکٹس بھی دئیے گئے افطار پارٹی کا اہتمام کرنے کے لیے ایک لاکھ روپئے بھی دئیے گئے۔ تقریبا 800 مساجد میں حکومت کے تحائف تقسیم کئے گئے تھے ۔ ہر مسجد میں 500 گفٹ پیاکٹس دینے کے لیے عہدیداروں نے موثر انتظامات کئے تھے اور اس سال بھی مسلمانوں کے لیے ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے کچھ نہ کچھ تحفے دئیے جائیں گے ۔ رمضان تقاریب کے لیے 26 کروڑ روپئے کا پیاکیج دیا گیا تھا ۔ ٹی آر ایس حکومت کی مسلم دوستی کے مظاہرے کے سامنے اگر کوئی صبح و شام اس حکومت کی برائیاں اور بد خواہی کرنے لگے تو یہ لوگ فضول اور بے ہودہ معلوم ہوں گے ۔ کانگریس کے قائدین گذشتہ پانچ سال سے ٹی آر ایس کی بدخواہی کرتے آرہے ہیں اس کے عوض انہیں کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوا لیکن ان کی بدخواہی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ۔ اپنی ناکامیوں کو دل پر لگالینے والے احمق ہیں ان سیاستدانوں کے خیال میں ٹی آر ایس گھامڑوں کی پارٹی ہے ۔ مگر اس ٹی آر ایس نے اپوزیشن کی صفوں سے سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کا صفایا کرتے ہوئے صرف لکیر چھوڑ دی ہے اب کانگریس اپنے ارکان اسمبلی سے خالی ہوجائے گی اور لکیر پر لکڑی پیٹتے رہ جائے گی ۔ کانگریس چھوڑ کر جانے والے ٹی آر ایس حکومت کی وزارت کی دہلیز پر کھڑے ہیں مگر انہیں باہر ہی کھڑا رکھا جائے گا ۔ وزارت کی دہلیز عبور کرنے میں کون کامیاب ہوگا یہ تو ٹی آر ایس کے سربراہ کے صوابدید پر منحصر ہے ۔ وہ تو اپنی پارٹی کا شروع سے ساتھ دینے والے دن رات محنت کر کے ٹی آر ایس کو طاقتور بنانے والے کیڈرس اور سیاستدانوں کو ہی خاطر میں نہیں لارہے ہیں تو اس پارٹی میں دوسری پارٹیاں چھوڑ کر آنے والوں کو کیا خاطر تواضح ہوگی ۔ خود ٹی آر ایس کے قائدین کو اس سال پارٹی کی 18 ویں یوم تاسیس کے موقع پر شدید مایوسی ہوئی کیوں کہ ان کے لیڈر کے سی آر نے اس مرتبہ یوم تاسیس تقریب کو بے دلی سے منایا بلکہ انہوں نے تقریب میں شرکت کرنے کو بھی ضروری نہیں سمجھا ۔ ٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے ٹی راما راؤ نے ہی تلنگانہ بھون میں جمع ٹی آر ایس کے مایوس قائدین سے خطاب کیا اور پارٹی پرچم لہرایا ۔ اس تقریب میں شریک ٹی آر ایس قائدین کے لٹکے ہوئے چہروں سے معلوم ہورہا تھا کہ کے سی آر سے یہ لوگ مایوس ہوگئے ہیں ۔ تاہم کے ٹی راما راؤ نے ٹی آر ایس کی ایک نئی تشریح کی ہے ۔ انہوں نے ٹی آر ایس کو ایک ناقابل شکست یا ناقابل تسخیر قلعہ قرار دیا ہے ۔ پورے ملک میں ٹی آر ایس کو ایک ہی پارٹی قرار دیا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ان کا گمان ہے کہ ٹی آر ایس ریاست میں پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئی ہے اور اب کسی بھی پارٹی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اس کی قوت اور طاقت کو چیلنج کرسکے ۔ کے ٹی آر بابو کو شائد یہ معلوم نہیں کہ راج شیکھر ریڈی بھی خود کو طاقتور لیڈر تصور کرتے تھے اور ان سے قبل کانگریس کو دھول چٹانے والے این ٹی راما راؤ نے بھی 1982 میں پارٹی کے قیام کے بعد اپنی جاری شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تلگو دیشم کو ناقابل تسخیر قلعہ قرار دیا تھا لیکن آج خود کے ٹی راما راؤ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت اور رائے دہندوں کی رائے نے تلگو دیشم کو کہاں پہونچا دیا ہے ۔ انہیں اپنی پارٹی کو حاصل عوامی حمایت پر اتنا گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ عوام کے دل سے جب کوئی اتر جاتا ہے تو وہ کہیں کا نہیں رہتا ۔ ٹی آر ایس نے اگر عوام کے دل کو ٹھیس پہونچائی اور اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا کہ وہ بھی ماضی کا حصہ بن جائے گی ۔ ٹی آر ایس کے خلاف عوام کی ناراضگی ان طلباء کے احتجاج کی شکل میں ظاہر ہورہی ہے جو انٹر میڈیٹ نتائج کے بعد خود کشی کرنے لگے ہیں ۔ حکومت کی لاپرواہی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے طلباء کا مستقبل تاریک ہوگیا اور کئی طلباء نے اپنی جانیں ضائع کرلی ہیں ۔ ان طلباء کی موت رائیگاں نہیں جائے گی ۔ ٹی آر ایس نے ریاست تلنگانہ کے نوجوانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تلنگانہ کو ان کے لیے بنگارو تلنگانہ بنائیں گے لیکن آج نوجوانوں کو یہ تلنگانہ بنگارو کے بجائے بیکارو نظر آنے لگا ہے ۔ کل تک ریاست تلنگانہ کا حصول ان نوجوانوں کے لیے ماں کی آغوش میں چلے جانا جیسا محسوس ہونے لگا تھا اور ریاست تلنگانہ کو ماں کی طرح سمجھ کر اس کے لیے جان قربان کرنے لگے تھے لیکن اب ٹی آر ایس نے اس ریاست کی ماں کو ان نوجوانوں کے لیے خوف کی علامت بنادی ہے ۔ اس لیے ان کی زندگی اجڑ رہی ہے ۔ انٹر میڈیٹ میں ناکام بنائے جانے والے طلباء خود کشی کررہے ہیں ۔ بدقسمتی ہے کہ ایک ریاست کو ان طلباء کے لیے خوف و موت کا مقام بھی تبدیل کردیا گیا ۔ اس ساری صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ حکمراں قائدین اور خود چیف منسٹر کی بے توقیری ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کے سی آر خود اپنی بے توقیری کررہے ہیں ۔ حکومت کے خلاف گالیاں نکل رہی ہیں اور تضحیک کا کلچر عام ہوچکا ہے ۔ بورڈ آف انٹر میڈیٹ کے باہر جن طلباء کو اپنی کامیابی کی سند بھی لیے کھڑے ہوتا دیکھنے کی ضرورت تھی وہاں آہ و بکا اور سسکیاں سنائی دے رہی ہیں ۔ یہی حال رہا تو ٹی آر ایس قائدین کو اپنی قوت اور طاقت پر اتنا زعم ہے وہ اچانک رفو ہوجائے گا ۔ کانگریس نے اس کا تعاقب ترک نہیں کیا ہے اور وہ ایک دن ٹی آر ایس کو اپنے ارکان چھین لینے کا سبق ضرور سکھائے گی ۔ اس کو یہ مہم بھی زور سے چلانے کی ضرورت ہے کہ مجلس کے لیڈر اور ٹی آر ایس کے سربراہ مل کر ’’ مودیتوا ‘‘ (Moditva )کے حامی بن گئے ہیں ۔ کے سی آر اور مجلس کے ایم پی جو ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اسی طرح ان کا قومی نظریہ بھی یکساں ہے ۔ مودیتوا ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے یہ دونوں ہم رکاب دکھائی دیتے ہیں ۔ مودی کے بھگت بن کر دونوں کو مرکز میں اپنے مقام تک پہونچنے کی کوشش کرنا ہے ۔ کے سی آر کی شروع سے یہی پالیسی ہے کہ انہوں نے مودی حکومت کی مخالفت نہیں کی ۔ گذشتہ پانچ سال میں تلنگانہ حکومت کے سربراہ نے مودی کی پالیسیوں پر کوئی اعتراض نہیں کی ہے ۔ گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں پر حملوں کے خلاف انہوں نے مودی حکومت پر تنقید ہرگز نہیں کی اور نہ ہی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر اعتراض کیا ہے۔ مودی حکومت کی مخالف عوام پالیسیوں جیسے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی پالیسی پر نکتہ چینی نہیں کی ۔ ہر موقع پر کے سی آر نے مودی کی مدد کی ہے تو ان کا ’مودیتوا ‘ موقف ہی تو ہے جو مجلس کے قائد اور انہیں بہت قریب لایا ہے ۔ اب لوک سبھا کی تمام نشستوں پر اس مودیتوا حامی ٹولے کا قبضہ ہوجاتا ہے تو پھر یہ لوگ بھانگڑہ کریں گے ۔ گردشوں میں محصور کانگریس قائدین کے لیے ایک موقع ضرور ہے کہ اگر قومی سطح پر کانگریس نے اپنا وزن بڑھالیا تو علاقائی سطح پر بھی پارٹی کا موقف مضبوط ہوگا ورنہ سیاسی انتقام کا نشانہ بن جائے گی ۔ سیاسی پارٹیاں تب کمزور ہوجاتی ہیں جب ان کا ووٹر ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔ کانگریس کا ووٹر اپنی جگہ موجود ہے مگر اس سے رجوع ہونے میں کانگریس نے کوتاہی سے کام لیا ہے یا اس نے رائے دہندوں سے درست ڈیل کرنے کا ہنر فراموش کردیا ہے بہرحال مودیتوا کے حامی قائدین کو آگے کیا رنگ بدلتے دیکھا جائے گا یہ بہت جلد معلوم ہوجائے گا ۔ فی الحال رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر مسلمانوں کو اس ماہ کی برکتیں ، سعادتیں ، رحمتیں حاصل ہونے کی دعا کی جاتی ہے اور توقع ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس مقدس ماہ کی برکتوں کو ضائع ہونے نہیں دے گی ۔