موجودہ دور میںبچوں کی تربیت قصہ پارینہ تو نہیں!

بچوں کی تعلیم و تربیت ماں کے نزدیک سب سے اہم ذمہ داری ہے ۔ ہر ماں اپنے بچے کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہے ۔ اس مقصد کیلئے وہ پوری کوشش کرتی ہے کہ اپنے جگر گوشے کو اچھے سے اچھے اسکول میںپڑھائے، بہترین ٹیوٹر کا انتظام کرے اور اس کے کھانے پینے کے علاوہ تندرستی کا بھی پورا پورا خیال رکھے ۔
یہ سب باتیں بلاشہ اپنی جگہ بے حد اہم ہیں لیکن ان سب کے درمیان الجھ کر بچے کی تربیت کا پہلو نگاہوں سے اوجھل رہ جاتا ہے یا پھر اسے غیر ضروری سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ جبکہ پہلے بچے کی تربیت کو دیگر تمام باتوں پر فوقیت دی جاتی تھی ۔ اور یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ ہمارے ہاں آج سے تقریبا دو دہائیوں پہلے تک یہی طریقہ اپنایا جاتا تھا لیکن اب تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ جہاں اور بہت سے رجحانات میں تبدیلی آئی ہے وہیں اچھی اقدار کو نظر انداز کرنا گویا فیشن بن گیا ہے ۔ سو اب بچوں کو اچھی تربیت دینا بھی ماضی کا قصہ بنتا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں جواز یہ پیش کیاجاتا ہے کہ روک ٹوک کرنے سے بچے کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے اور وہ بزدل بن جاتا ہے ۔ تاہم ایسا نہیںکہ ہر گھر میں یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے ۔ بہت سی مائیں اب بھی بے جا روک ٹوک اور تربیت کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اسے بخوبی سمجھتی ہیں ۔ تربیت کا سنہری اصول تو یہی ہے کہ بچے کیلئے رورل ماڈل بن جائیں اور جن باتوں پر اس سے عمل کراونا چاہیں پہلے ان پر خود عمل کر کے دکھائیں ۔