موت کا دردناک باؤنسر

صابر علی سیوانی
آسٹریلیا کے باصلاحیت بلے باز فلپ ہیوز ڈومسٹک کرکٹ میچ کے دوران سر میں لگی چوٹ کی تاب نہ لا کر 27 نومبر کو چل بسے اور اصل زندگی کی اس ٹریجڈی نے پورے کرکٹ ورلڈ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ٹسٹ کرکٹ میں واپسی کی دہلیز پر کھڑے 25 سالہ ہیوز کے سر پر شیفلڈ شیلڈ میچ کے دوران تیز گیند باز شین ایبٹ کا باؤنسر لگا تھا جس کے بعد فوری طور پر ان کی سرجری کی گئی تھی ، لیکن یہ سرجری ناکام ثابت ہوئی اور ہیوز نے دم توڑ دیا ۔

ہیوز نے اپنے قلیل مدتی کیریئر میں 26 ٹیسٹ کھیل کر تین سنچری اور سات نصف سنچری سمیت 1535 رنز بنائے تھے ۔ انھوں نے آخری ٹسٹ جولائی 2013 میں لارڈس پر کھیلا تھا ۔ انھوں نے 25 ون ڈے بھی کھیلے تھے اور ون ڈے میں شریک ہونے کے ساتھ سنچری لگانے والے واحد آسٹریلیائی بلے باز تھے ۔ انھوں نے آخری ون ڈے پاکستان کے خلاف پچھلے مہینے ابوذہبی میں کھیلا تھا ۔ اس کے ٹھیک پہلے دبئی میں پاکستان کے خلاف ہی انھوں نے واحد ٹی 20 میچ کھیلا تھا ۔ ہیوز کی موت کے بعد کرکٹ کی دنیا میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ ساتھ ہی تیز گیند باز شین ایبٹ ، جن کی تیز گیند ہیوز کے سر پر لگی تھی ، ذہنی طور بیمار ہوچکے ہیں اور انھیں اپنے باؤنسر پر سخت صدمہ ہورہا ہے ۔
ہیوز کو شیفلڈ شیلڈ میچ کے دوران سر میں باؤنسر لگنے کے بعد سینٹ ونسیٹ ہاسپٹل میں شریک کرایا گیا تھا ۔ اس وقت وہ نیو ساؤتھ ویلس کے خلاف ساؤتھ آسٹریلیا کے لئے بلے بازی کررہے تھے ۔ وہ 63 رنز بنا چکے تھے جب ہی ہوک شارٹ کھیلنے کی کوشش میں باؤنسر ان کے ہیلمٹ کے نیچے لگا ۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ہیوز نے ہیلمٹ پرانی قسم کی پہن رکھی تھی ، جس کی وجہ سے گیند ان کے سر میں لگی ۔ وہ ہیلمٹ غیر محفوظ اور پرانی طرز کی تھی جس کی وجہ سے ان کے سر میں چوٹ لگی ، لیکن ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کرکٹرس نے عصری ہیلمٹ پہن رکھے تھے اس کے باوجود ان کے چہرے یا سروں پر چوٹیں آئیں اور خون بہنا شروع ہوگیا ۔

آسٹریلیائی بلے باز فلپ ہیوز کا معاملہ پہلا نہیں ہے کہ جب کرکٹ کے میدان پر چوٹ لگنے سے کسی کھلاڑی کی موت ہوئی ہو بلکہ اس طرح کے دردناک حادثات کی ایک تاریخ رہی ہے ۔ یہاں ایک نظر ڈالتے ہیں ان واقعات پر جہاں کرکٹرس کی باؤنسر لگنے سے موت واقع ہوگئی یا میچ کے دوران شدید چوٹ لگنے یا ہارٹ اٹیک سے انھیں اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ سابق ہندوستانی اوپنر رَمن لامبا بھی میدان پر ایک دردناک حادثے کا شکار ہوئے تھے ۔ 1998 میں ڈھاکہ میں ایک کلب میچ کے دوران فلڈنگ کرتے وقت لامبا کے سر کے نیچے گیند آکر لگی ۔ انھیں دماغ میں چوٹ آئی جس کی وجہ سے 38 سالہ اس کرکٹر کی موت واقع ہوگئی ۔ گزشتہ سال جنوبی افریقہ کے 32 سالہ وکٹ کیپر بلے باز ڈیرین رین ڈال ایک ڈومسٹک میچ کے دوران کریز پر آگے آکر ایک شارٹ لگانے کی کوشش کررہے تھے ، تبھی گیند ان کے سر پر آکر لگی ۔ وہ میدان میں ہی گرپڑے اور انھیں ہاسپٹل لے جایا گیا لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود انھیں بچایا نہ جاسکا۔ سال 2013 میں پاکستان کے 22 سالہ نوجوان بے باز ذوالفقار بھٹی بھی ایک ایسے ہی خطرناک حادثہ کا شکار ہوئے ۔ پاکستان کے صوبۂ سندھ میں ایک کلب میچ میں بلے بازی کے دوران گیند بھٹی کے سینے پر لگی ۔ اس کے بعد انھیں ہاسپٹل لے جایا گیا لیکن ڈاکٹرس نے انھیں مردہ قرار دے دیا ۔ پاکستان کے ہی 18 سالہ نوجوان کرکٹر اور کیپر عبدالعزیز کی سال 1959 میں کراچی کے ایک گھریلو میچ کے دوران سینے میں گیند لگنے سے موت واقع ہوگئی تھی۔ انگلینڈ کے 33 سالہ تیز گیند باز رچرڈ بیومونٹ 2012 میں ایک کلب میچ کے دوران ہارٹ اٹیک کی وجہ سے میدان میں گرپڑے ۔ اس کے بعد انھیں دواخانہ میں شریک کرایا گیا ، لیکن ان کی موت ہوگئی ۔ سال 2006 میں پاکستان کے بلے باز وسیم راجہ کی بکنگھم شائر میں مارلو میں سرے کے لئے کھیلتے ہوئے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت واقع ہوگئی ۔

میدان پر گیند لگنے سے محض کھلاڑیوں کی ہی موت نہیں ہوئی بلکہ امپائر بھی ایسے حادثات کا شکار ہوئے ۔ سال 2009 میں انگلینڈ کے 72 سالہ امپائر ایلین ایلیون جین کینس کے سر میں فلڈر کے ذریعہ پھینکی گئی ایک گیند لگی ، جس کے بعد انھیں ہسپتال میں شریک کرایا گیا ، لیکن وہ زندہ نہیں بچ سکے ۔ 1993 میں گھریلو میچ کے دوران انگلینڈ کے 30 سالہ گیند باز ایان فولے جب شارٹ کھیلنے کی کوشش کررہے تھے تب ان کی آنکھ میں آکر گیند لگ گئی انھیں ہاسپٹل میں شریک کرایا گیا لیکن ہاسپٹل میں ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہوگئے ۔ انگلینڈ کے بائیں بازو کے بلے باز بلف سلیک گامبیا میں بلے بازی کرتے ہوئے اچانک بے ہوش ہوگئے اور بعد میں ان کی موت واقع ہوگئی ۔ حالانکہ ان کی موت کی وجہ کا پتہ نہیں چل سکا لیکن پہلے بھی وہ میدان پر کئی دفعہ بیہوش ہوچکے تھے ۔ سال 1942 میں انگلینڈ کے 56 سالہ اینڈی ڈوکیٹ لارڈس میں ایک ٹسٹ میچ میں ہارٹ اٹیک کے باعث بے ہوش ہو کر میدان پر ہی گرپڑے بعد میں ان کی موت ہوگئی ۔ لارڈس میں ہی ایم سی سی کے خلاف کھیلتے ہوئے ناٹنگھم شائر کے 25 سالہ بلے باز جارج شمرس جب میدان میں بلے بازی کررہے تھے تب ان کے سر میں ایک گینڈ آکر لگی ، چوٹ کے باعث کچھ دنوں بعد ان کی موت ہوگئی ۔ 1961-62 میں کرکٹ سیریز کے دوران سابق ہندوستان کے کیپٹن ناری کانٹرکٹر کو ویسٹ انڈیز میں تیز گیند باز چارلی گریفتھ کی گیند سر میں لگی تھی اس کے بعد وہ ٹسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے ۔ اسی طرح سمرسیٹ کے خلاف پریکٹس میچ کے دوران آنکھ میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ساؤتھ افریقہ کے وکٹ کیپر مارک بوچر کو 2012 میں کرکٹ کو الوداع کہنا پڑا ۔

قابل غور بات یہ ہیکہ پہلے جب عصری اور نہایت محفوظ قسم کے ہیلمٹ نہیں ہوا کرتے تھے تو کرکٹرس کی سر میں گیند سے چوٹ لگنے کی وجہ سے موت ہوجاتی تھی ، لیکن اب جبکہ بہترین قسم کے محفوظ ترین عصری ہیلمٹ دستیاب ہیں ، تب اس قسم کے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں ؟۔ لیکن کرکٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب باؤنسر پھینکا جاتا ہے تو بلے باز کو جس تکنیک کا استعمال کرنا ہوتا ہے اس تکنیک کا استعمال ہیوز نے نہیں کیا ، جس کی وجہ سے بال اس کے سر میں لگی۔ ایک وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ باؤنسر کے وقت بیاٹنگ کرنے کی بجائے خود کو بچانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور یہ ضروری نہیں ہوتا ہے باؤنسر کو کھیلا ہی جائے ، لیکن ہیوز نے اسے کھیلنے کی کوشش کی اور اپنا چہرہ سیدھا نہ رکھ کر موڑ لیا جس کی وجہ سے گیند ہیلمٹ کے نچلے حصے میں جا کر لگی اور ہیوز وہیں بیہوش ہو کر گرپڑے ۔

دوسری جانب باؤنسر کے بارے میں بحث چھڑگئی ہے ۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ باؤنسر بیاٹس مین کے لئے خطرناک ہے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کرکٹ سے باؤنسر تکنیک کو ختم کردینا چاہئے ، لیکن وہیں کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ باؤنسر کرکٹ کھیل کی خوبصورتی ہے ۔ چاہے باؤنسر پر مختلف لوگوں کے مختلف نظریات کیوں نہ ہوں ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں کرکٹ کے میدان میں بیشتر کھلاڑیوں کی اموات باؤنسر والی بال سر میں لگنے سے ہوئی ہیں ۔ 25 سالہ ہیوز کی موت کی وجہ بھی باؤنسر ہی بنی ۔ اگر سابق کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے باؤنسر ختم کردیا گیا ہوتا تو شاید ہیوز جیسا باصلاحیت بیاٹس مین آج زندہ ہوتا اور آسٹریلیائی کرکٹ ٹیم کا اثاثہ ہوتا ۔ اب جبکہ ہیوز کی موت ہوچکی ہے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہیوز کی موت بال لگنے سے ہی ہوئی تھی ، یا اس کی عمر ہی اتنی تھی جتنی وہ جی چکا تھا ۔ ورنہ تمام بیاٹس مین کو باؤنسر کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ اس سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں اور میدان سے کامیاب نکلتے ہیں ۔

جس طرح کرکٹ کو ایک غیر یقینی کھیل کہا جاتا ہے کہ کب کیا ہوجائے یہ نہیں کہا جاسکتا ۔ جیت کے قریب پہنچنے والی ٹیم آخری لمحات میں شکست کھاجاتی ہے ، اسی طرے زندگی بھی غیر یقینی ہوتی ہے ، کب کہاں ٹھیس لگ جائے اور انسان مرجائے یہ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی ہم سے کب چھن جائے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے ۔ اس لئے وہ لوگ جو اپنی جوانی پر نازاں ہوتے ہیں اور وہ کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ، اپنے آپ کو برتر اور دوسرے کو کمتر سمجھتے ہیں ، دوسروں کی ایذا رسانی کو معیوب نہیں سمجھتے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو ابھی نوجوان ہیں ، ہمیں برسوں جینا ہے ، انھیں 25 سالہ ہیوز کی موت سے ضرور سبق سیکھنا چاہئے کہ اس کم عمری میں یہ مشہور کھلاڑی دنیا سے چل بسا تو ممکن ہے کہ کہیں ہمیں بھی کوئی ٹھیس نہ لگ جائے اور ہم بھی نہ چل بسیں ۔
mdsabirali70@gmail.com