تلنگانہ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تاریخ انسانی میں کوئی ایسی طاقت بتائیں جس نے توسیع پسندی کا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے کم طاقتوروں یا کمزوروں پر اپنا ایجنڈہ نافذ یا مسلط نہیں کرنا چاہا۔ بالادست ہوکر ماتحت کو حقارت نگاہی کا شکار بنایا اور بعض اوقات من مانی طاقت تباہی کا باعث بھی بن گئی۔ تلنگانہ حکومت خالص عوامی تائید سے تشکیل پائی تھی مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہ حکومت بھی پیشرو حکومتوں کی طرح عوام کیلئے بالادست اور عذاب بنتی دکھائی دینے لگی ہے۔ طاقت کے حصول کی دوڑ اتنی شدید ہوکر ایک دن وہ ازخود پھٹ کر تباہی لائے تو ایسی طاقت کے حصول سے گریز کرنا ضروری ہے۔ آپ نے جونک کو دیکھا ہوگا جو خون پینے میں مست اور مدہوش ہوکر یہ بھی بھول جاتی ہے کہ مزید خون پینا اس کیلئے خطرناک ثابت ہوگا اور پھر بالآخر خون پیتے پیتے خود ہی پھٹ جاتی ہے۔ ایسی ہی طاقت کی تازہ ترین وارداتیں نئی ریاست تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت میں دیکھی جانے کی شکایت عام ہورہی ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے ان کے ماتحت پریشان ہیں۔ وزراء سے ان کے سکریٹریز پریشان ہیں اور سکریٹریز سے ان کے چھوٹے آفیسرس ناراض اور پریشان ہیں۔ یہ ایک ایسا تسلسل اور کڑی ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے خائف اور پریشان ہے۔
ان واقعات کے درمیان سب سے تشویشناک صورتحال مسلم عہدیداروں کی ہے جو مختلف محکموں میں اپنی عزت اور وقار کے تحفظ کے مسئلہ پر پریشان ہیں۔ نئی ریاست تلنگانہ میں کچھ موضوعات تقریباً ’’یتیم‘‘ ہیں کچھ موضوعات و عادتیں سابق ریاست آندھراپردیش سے گود لی گئی ہیں۔ اس طرح کی بور کرنے والی تمہید کے بعد اس ریاست کے اقلیتی محکمہ کے عہدیداروں کے ساتھ حکومت کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں سے متعلق خبر کی جانب رخ کرتا ہوں سب سے پہلے یہ خبر کہ وقف بورڈ کے عہدیداروں پر مفاد پرست سیاسی ٹولے کا بیجا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور عہدیداروں نے طویل رخصت پر چلے جانے میں ہی عافیت محسوس کی ہے۔ وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو محمد اسداللہ کی رخصت پر روانگی کے بعد مسلم عہدیداروں کے ساتھ حکومت اور وزراء کے خراب برتاؤ پر تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود سے وابستہ ایک عہدیدار کو ڈپٹی چیف منسٹر نے برسرعام پھٹکارا تو اس عہدیدار کی عزت مٹی پلید کرنے کی خبر بھی شرمناک تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کو تو ہر خیر میں شر اور شر میں خیر کی خبر نکالنے کی جلدی رہتی ہے۔ کانگریس نے بھی مسلم عہدیداروں کو ہراساں کرنے والے واقعات کے حوالہ سے حکومت کا کان پکڑنے کی کوشش کی ہے مگر یہ حکومت اتنی چکنی اور ڈھٹ ہے کہ اس کا کتنی زور سے کان موڑا جائے کچھ اثر نہیں ہوتا۔ آف کرنا اس کی عادت نہیں۔
اقلیتی بہبود کے محکمہ میں کام کرنے والے مقامی جماعت کے لیڈروں اور گلی و محلے کے لینڈ گرابرس کی من مانی اور داداگری سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس پر سونے پہ سہاگہ حکومت بھی ان عہدیداروں کو جوتی پر رکھ رہی ہے۔ وقف بورڈ کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر محمد اسداللہ کو بھی رخصت پر جانے کی ضرورت کیوں آئی۔ اس مسئلہ پر دھیان دیئے بغیر ہی اگر تلنگانہ حکومت اپنی غلطیوں کو نظرانداز کرنے کی عادت کی چادر لپٹے کام کرتی ہے تو آنے والے دنوں میں اس کے سامنے مسائل کا انبار ملے گا اور عوام کی بدظنی اس کا تعاقب کرنے لگے گی۔ وقف بورڈ ایک ایسا محکمہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے غنڈے اور گلی کے لونڈوں سے لیکر مقامی جماعت کے شدوں نے اپنا ڈیرہ بنایا ہے۔ اب اس میں ٹی آر ایس کے مفاد پرست قائدین بھی شامل ہوکر عہدیداروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان کے حق میں اوقافی جائیدادوں کے ناجائز معاملے کردیں۔ اس کے علاوہ اسداللہ پر حکومت کی جانب سے بھی دباؤ بڑھتا جارہا تھا کہ وہ ہر ناجائز کام کو آنکھ بند کرکے پورا کردیں جو غیرتمند اور فرض شناس عہدیدار ہوتے ہیں انہیں کوئی بھی دباؤ قبول نہیں ہوتا لہٰذا اسداللہ نے وہی کیا جو ایک فرض شناس اور دیانتدار عہدیدار کا وطیرہ ہوتا ہے دباؤ میں آنے کے بجائے انہوں نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے سے گریز کیا۔ خود کوبچا کر نکل جانے کی کوشش کی۔ اگر ہر مسلم عہدیدار اس طرح لمبی رخصت لے کر گھر پر بیٹھنے لگے تو رشوت خور عہدیدار ان پسند کر وہ تمام کام کر جائے گا جس سے ریاست کے مسلمانوں کے وسائل کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے والے کامیاب ہوں گے۔ دیانتدار عہدیداروں کو اس طرح کی چال کو ناکام بنانے کیلئے ہمت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدعنوانیوں، غلط کاموں کو روکنے کے بجائے اگر تمام عہدیدار بچ کر نکلنے لگے تو پھر خرابیاں پہلے سے زیادہ قوی ہوں گی۔ وقف بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہر مفاد پرست اپنا ’’دھندہ‘‘ مزے سے انجام دیتا ہے اس دھندے میں جب اقلیتوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی حکومت بھی اپنے ہاتھ کالے کرتی ہے تو پھر یہ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور افسوسناک واقعہ ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کے بارے میں یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے وقف بورڈ سی ای او محمد اسداللہ کے رخصت پر جانے کے بعد پروفیسر ایس اے شکور کو انچارج مقرر کرنے اور ان سے مشاورت کے بغیر ہی یہ فیصلہ کرنے پر عمر جلیل پر برہمی ظاہر کی۔
عہدیداروں پر اس ریاست کے وزراء بھاری پڑرہے ہیں یا اس ریاست کا حکمراں طبقہ خبائث وہ غلاظت کی ملاوٹ شدہ سیاست کا شکار ہوچکا ہے۔ اس طرح بیچارے مسلم عہدیداروں پر برہمی ظاہر کرنے سے معلوم ہوتا ہیکہ ریاستی حکومت کو محکمہ اقلیتی بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت نے اقلیتوں کی بہبود کا بہت زیادہ ڈھنڈورہ پیٹا ہے مگر کاموں کی انجام دہی اور فنڈس کے الاٹمنٹ میں صفر ریکارڈ رکھتی ہے۔ سال 2014-15ء اور سال 2015-16ء کے بجٹ میں اقلیتوں کی بہبود کیلئے مختص کردہ فنڈس کا 50 فیصد بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ نیک نیتی کا فقدان پیدا ہوتا ہے تو ہر طرح کے حیلے اور بہانے بنائے جاسکتے ہیں۔ جب کسی اقتدار کا آخری پڑاؤ آتا ہے تو خرابیاں خودبخود امڈ امڈ کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ تلنگانہ کے حالات کو آپ ریورس میں یا ماضی میں جاکر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کل آج اور کل میں کیا فرق ہے۔
kbaig92@gmail.com