من اپنا پُرانا پاپی ہے

کے ا ین واصف
کتنا اچھا لگتا ہے جب ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر کے مسلم طبقہ میں اچانک ایک تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ہر طرف روحانی ماحول ، ہر شحص پابند صوم و صلوٰۃ ، پورا نظام زندگی ہی بدل جاتا ہے ۔ لوگوں کے رہنے بسنے کے طور طریقے ، عادات و اطوار بدل جاتے ہیں، بلکہ کچھ لوگوں کا پہناوا تک بدل جاتا ہے اور کچھ لوگ عارضی طور پر داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں یا ایک ماہ داڑھی مونڈنا ملتوی کردیتے ہیں ۔ بازاروں میں مہینہ بھر رونقیں رہتی ہیں۔ مسجدیں آباد رہتی ہیں۔ عام نمازوں میں جمعہ کا سا اجتماع نظر آتا ہے اور جمعہ کی نماز کی صفیں مساجد کے باہر تک نکل جاتی ہیں۔ یہی حال حرمین شریفین میں بھی رہتا ہے ۔ رمضان بھر یہاں زائرین و معتمرین کا بے پناہ ہجوم رہتا ہے۔ لیل و نہار حرمین میں انسانی سروں کا سمندر ٹھاٹیں مارتا نظر آتا ہے ۔ ویسے رمضان میں تو سعودی عرب کے ہر شہر کے محلے اور بازار پرنور ہوجاتے ہیں، ساری رات بازاروں میں رونقیں اور گہما گہمی لگی رہتی ہے۔

حالانکہ پورے سعودی عرب میں نماز کے اوقات میں بازار اور تجارتی ادارے لازمی طور پر بند کئے جانے کے پابند ہیں تاکہ سارے لوگ بیک وقت فرضی نماز ادا کرسکیں۔ یعنی یہاں سرکاری طور پر لوگوں کو ڈیوٹی کے اوقات میں ایک ساتھ باجماعت نماز کیلئے باضابطہ وقفہ دیا جاتا ہے، لیکن یہاں بھی مساجد میں ماہِ رمضان میں اور ملکوں کی طرح نمازیوں کی تعداد اچانک کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ یعنی ساری دنیا کی مساجد میں عام نمازوں میں مسجدیں بھری رہتی ہیں اور جمعہ کے دن تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے کہ نمازیوں کو مسجد کے باہر سڑک پر بھی صفیں بنانی پڑتی ہیں اور پھر عید کے روز تو بڑی بڑی عیدگاہیں بھی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں اور عید کے روز ہی ظہر کی نماز ہی سے مسجد میں ایک محدود تعداد ہی نماز کیلئے آتی ہے ۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ’’مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے‘‘۔
دنیا بھر میں اپنے فریضہ نماز کی ادائیگی سے اس عام رویہ کے پیش نظر پچھلے جمعہ کو امام و خطیب حرم مکی نے اس موضوع پر اپنا خطبہ دیا ۔ امام کعبہ کے اس خطبہ کے اقتباسات ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ خانہ کعبہ کے منبر سے کہی گئی بات سارے عالم کے مسلمانوں کیلئے ہوتی ہے۔

مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر اسامہ خیاط نے واضح کیا کہ رمضان المبارک کے بعد پابندی سے عبادت ، روزوں ، تلاوت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی قبولیت کی علامت ہے ۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ عقل مند لوگوں کیلئے یہ بات جان لینا کافی ہے کہ اچھے کاموں کی پابندی رب العالمین کے یہاں قبولیت کی علامت ہے جو لوگ رمضان المبارک کے روزے رکھتے رہے اس دوران اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے رہے اور رب العالمین سے جنت مانگتے رہے اسی طرح مستقبل کی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ۔ اگر وہ لوگ رمضان گزرجانے کے بعد اپنی روش پر قائم رہتے ہیں جو انہوں نے ماہ مبارک میں اپنا رکھی تھی تو یہ اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی دعائیں ، ان کے اعمال اور ان کی توبہ و مغفرت طلبی بار آور ہوگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیارے بندوں کی صف میں شامل کرلیا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کی اطاعت کو شرف قبولیت بخش دیتا ہے تو اسے پے در پے نیکیوں کی توفیق بھی عطا کردیتا ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص رمضان کے بعد مسلسل اچھے کام کرتا چلا جارہا ہے اور برے کاموں سے مسلسل بچنے لگا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ دنیا کی آرائشیں پرکشش ہیں۔ ہر انسان کو اچھا لگتا ہے کہ وہ رنگ و نور کی محفلوں میں موج مستی کرتا رہے لیکن دنیا کی مستیاں چند روزہ ہیں۔ بہت جلد بساط لپٹ جائے گی اور وہ دن دور نہیں جب ایک ایک عمل کا حساب ہوگا ۔ اس روز صرف اچھے کام اور اچھی باتیں کام آئیں گی۔ برے کاموں اور بری باتوں سے اجتناب کا فائدہ ہوگا ، اس دن موج مستی گلے کا طوق بنے گی ، دنیوی آسائشوں اور رنگ رلیوں کا بوجھ اٹھائے نہ اٹھ سکے گا۔

امام حرم نے کہا کہ تمام مسلمان رمضان المبارک کے بعد شوال کے مہینے میں 6 روزے رکھنے کا بھی اہتمام کریں۔ احادیث مبارکہ میں اس عمل کی ترغیب آئی ہے ۔ یہ رمضان المبارک سے استفادے کی علامت ہے۔ رمضان میں روزہ داروں نے اللہ کے احکام کی ظاہر و باطن ہر حال میں پابندی کی تربیت حاصل کی ہے ۔ بنی نوع انسان کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی عادت ڈالی ہے۔ آئندہ بھی اس کا اہتمام رکھا جائے۔
نماز ہم پر عائد فرض کی ادائیگی ہی نہیں بلکہ نماز خالق کائنات کے حضور میں پانچ وقت سجدۂ شکر بجا لانا ہے ، نماز ملت اسلامیہ میں اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے۔ نماز خالق کل کی تابعداری کا عملی مظاہرہ ہے اور نماز رب کائنات کے حوالے سے موذن کی ایک صدا پر یکجا ہوجانے کا نام ہے ۔ نماز ایک اجتماع کا ایک قائد کی تقلید و تابعداری کی ریاضت ہے ۔ ا گر دنیا کے سارے مسلمان اپنے اپنے مقام پر اذان کی آواز پر لبیک کہہ کر مسجد میں جمع ہوجائیں تو دشمنان اسلام کو مرعوب کرنے بلکہ دھمکانے کیلئے کسی اور ہتھیار کی ضرورت نہیں۔ نماز اتحاد بین المسلمین کا وسیلہ ہے جس سے ہم بے پروا ہوگئے ہیں اور ہماری صفوں میں عدم اتحاد کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کے تقریباً سارے مسلم ممالک میں آج بے چینی ، انتشار ، خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ ہم یہود و نصاریٰ کے آگے تصویر تماشا بن گئے ہیں۔ مسلمانان عالم کے درمیان اتحاد کے فقدان ہی سے اسرائیل فائدہ اٹھا رہا ہے اور نہتے فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔

سراج الدین قریشی کا خیرمقدم
انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر دہلی ہندوستان کا ایک باوقار ادارہ ہے، جس کی تعمیر کا آغاز 1984 ء میں کیا گیا تھا ۔ انڈین کمیونٹی اور خصوصاً مسلم طبقہ کیلئے اس کی گرانقدر خدمات قابل ستائش ہیں۔ اس ادارے کے صدر سراج الدین قریشی جو مسلسل تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر صدر منتخب ہوئے ہیں، پچھلے ہفتہ ریاض کے دورے پر تھے ۔ انڈین کمیونٹی ریاض کی جانب سے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں سراج الدین قریشی کے اعزاز میں ایک شاندار خیرمقدمی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ریاض چیاپٹر کے کنوینر ندیم ترین نے کی ۔ اس تقریب کا آغاز قاری مبین الحق کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ ناظم محفل جاوید علی نے ابتداء میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر اور اس کے صدر سراج الدین قریشی کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ محفل کا خیرمقدم کرتے ہوئے چیرمین دہلی پبلک اسکول، ریاض ندیم ترین نے کہا کہ اسلامک سنٹر کے قیام کا مقصد ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا فروغ ، بین مذاہب تعلقات کا استحکام ، مسلمانوں کی تعلیمی ترقی و فلاح و بہبود ہے۔ اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر اپنی سماجی سرگرمیوں کو کامیابی سے جاری رکھنے کیلئے ہندوستانی کمیونٹی اورحکومت کے ساتھ بہتر تال میل اور خوشگوار آپسی تعلقات کے قیام میں یقین رکھتا ہے۔ قریشی نے ادارے کی کامیاب سماجی سرگرمیوں پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلامک کلچرل سنٹرل ہندوستان کے دیگر بڑے شہروں میں اپنی شاخیں قائم کرنے کا منصوبہ تیار کرچکا ہے تاکہ اسلامک کلچر کو ملک کے طول و عرض میں متعارف و مقبول کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ جلد ایک حقیقت بن سکتا ہے ۔ اگر ایسے کمیونٹی کا بھرپور تعاون حاصل ہو۔ ابتداء میں ڈاکٹر اشرف علی ، خورشید شاہ خاں، ڈاکٹر مصباح العارفین ، انجنیئر طارق مسعود، شکیل ماہ اور میر محسن علی نے مہمانوں کو گلدستے پیش کئے ۔ اس پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر حنیف ترین نے سراج الدین قریشی کو اپنا لکھا قصیدہ پیش کیا اور اسے محفل میں سنایا بھی ۔ ریاض چیاپٹر کی جانب سے ندیم ترین کے ہاتھوں سراج قریشی کو ایک یادگاری مومنٹو پیش کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انڈیا اسلامک سنٹر کو ریاض میں متعارف کرانے والے اور معروف سماجی کارکن علی صدیقی کو بھی ایک یادگاری مومنٹو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر معروف سعودی اسکالر ڈاکٹر محمد المطائیم نے بھی مخاطب کیا اور انڈیا اسلامک سنٹر کی کارکردگی کی ستائش کی ۔ آخر میں ندیم ترین کے ہدیہ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا، جس میں ریاض کی تمام سماجی تنظیموں کے عہدیداران اور معززان شہر کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
knwasif@yahoo.com