منموہن سنگھ کی طرح وزیراعظم مودی بھی مجبور محض

غضنفر علی خان
سابقہ یو پی اے حکومت میں منموہن سنگھ پر بی جے پی اور سارا پریوار تنقید کیا کرتے تھے کہ وہ ایک بے بس اور مجبور وزیراعظم ہیں ۔ یہ بھی کہا جاتا تھاکہ منموہن سنگھ کٹھ پتلی ہیں اور ان کا ریموٹ کنٹرول صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی کے ہاتھ میں ہے ۔ اگریہ تنقید درست بھی تھی تو آج کی صورتحال اور موجودہ وزیراعظم کس لحاظ سے سابق وزیراعظم سے مختلف ہیں ۔ مودی بھی آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سخت گیر موقف والی جماعتوں کے آگے ہتھیار ڈال رہے ہیں ۔ ان میں ایسی جماعتوں ، گروہوں اور افراد پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ، جو انھیں اور ان کی اتھاریٹی کو کھلا چیلنج کررہے ہیں ۔ منموہن سنگھ کی طرح مودی بھی تو مجبور محض وزیراعظم دکھائی دے رہے ہیں ۔ مودی کا ریموٹ کنٹرول بھی تو آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان تمام دائیں بازو کی جماعتوں پر کوئی روک نہیں لگا پارہے ہیں ۔ تبدیلی مذہب کے بارے میں ’’گھر واپسی‘‘ کی عجیب و غریب اصطلاح نکال کر وشوا ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل ، توگاڑیہ جیسے لیڈر مودی کو وزیراعظم ہی نہیں سمجھ رہے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے ، کوئی آواز لگاتا ہے کہ ہم ہندوستان کی آبادی ہیں ۔ ہندوؤں کی آبادی کا فیصد بڑھائیں گے ۔ وزیراعظم مودی نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ وہ کوئی اٹھا بھی نہیں سکتے کیونکہ مودی کی انتخابی کامیابی ان ہی لوگوں کی مرہون منت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتے تو وہ طاقتور وزیراعظم کی حیثیت سے ایسے تمام لیڈروں کو جو ملک کے دستور کی کھلی خلاف ورزی کررہے ہیں ان کے منہ بند کردیتے ۔ تبدیلی مذہب کے مسئلہ پر آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے بات چیت بھی کی ۔ وہ بھی ناکام ہوگئی ۔ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت نئی دہلی سے نہیں بلکہ ناگپور سے چلائی جارہی ہے ۔ کیونکہ آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ناگپور میں ہے ۔ اگر یہی عالم رہا تو شاید تاریخی شہر دہلی کی حیثیت جو ہر دور میں دارالحکومت رہی ، بدل جائے گی اور ناگپور کو لوگ یہ درجہ دیں گے ۔ بڑی کھلی بات ہیکہ مودی کی خاموشی سے ان تمام مخالف سیکولرازم اور مخْالف جمہوریت طاقتوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں اور خواب میں ہی سہی یہ طاقتیں ’’بھگوا‘‘ رنگ میں ہندوستان کو رنگ دینا چاہتی ہیں ۔ انگریزی زبان کا یہ قول ہے کہ Silence is half acceptance یعنی خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے ۔ طاقت ڈرنے کو نہیں ڈرانے کو کہا جاتا ہے ۔ طاقت خود میدان چھوڑ کربھاگتی نہیں بلکہ مخالف طاقتوں کو بھگاتی ہے ۔

یہ کیسی مجبوری ہے مسٹر مودی کی کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے ، اگر کرنا بھی چاہتے ہیں تو ان کی دلی خواہش بھی یہی ہے جو آج سنی جارہی ہے ۔ وہ چاہتے تو پارلیمان میں سخت بیان جاری کرتے جس کا متحدہ اپوزیشن ان سے مطالبہ کررہی ہے اور ایوان میں کوئی بل منظور نہیں ہورہا ہے ۔ ہر روز شور شرابہ سے دن میں کئی بار کارروائی کو ملتوی کرنا پڑرہاہے ۔آر ایس ایس کی ان ہی بے اعتدالیوں کی وجہ سے آج ملک میں کمزور وزیراعظم خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ خاموش کیوں نہ ہوں جبکہ خود وزیراعظم مودی بھی اس مکتب خیال کے حامی ہیں ۔ اسی آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں ۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کی ذہن سازی آر ایس ایس میں ہوئی ہے ۔ تبدیلی مذہب کی بات ہو کہ اور کوئی مسئلہ جس کو انتہا پسند عناصر اٹھارہے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم مودی کے دل کی آواز ہے اور دل کی بات جو انسان خودکسی مجبوری سے کہہ نہیں سکتا ، کسی اور کی زبان سے سن کر من ہی من میں خوش ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا کو قومی کتاب قرار دینے اور اس کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے پر بھی یہ عناصر کمربستہ دکھائی دیتے ہیں ۔ کسی اور نے نہیں خود مودی حکومت میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کا مطالبہ کیا ۔ اب اگر مودی خود اپنی کابینہ کی خاتون وزیر کے اس خیال سے اختلاف نہیں کرسکتے تو وہ

دیگر جماعتوں کے لیڈروں کی زبان درازیاں کیسے روک سکتے ہیں ۔ مرکزی کابینہ ازروئے دستور تمام وزراء کو ان کی کابینہ کے کسی وزیر نے ان سے اختلاف نہیں کیا ایسا کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے کیونکہ ہندوستان ایک مختلف المذاہب ، عقائد اور مختلف زبانوں اور ثقافتوں کا ملک ہے ۔ اس میں کسی ایک عقیدہ کو سارے عوام پر مسلط نہیں کیا جاسکتا ورنہ جتنے مذاہب ہیں ان تمام کی کتابوں کو یہی درجہ دینا پڑے گا ۔ ہندوستان میں کوئی ایک مذہبی عقیدہ کسی دوسرے پر فوقیت نہیں پاسکتا ۔ آر ایس ایس نے سشما سوراج کے موقف کی تائید کی ۔ آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کو مان لیا جائے کہ وہ راست طور پر بی جے پی کے کنٹرول میں نہیں ہیں لیکن مرکزی وزراء پر تو حکومت کا کنٹرول ہوگا کم از کم اس معاملہ میں تو مسٹر مودی راست مداخلت کرسکتے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا سبھی ایک قسم کے لوگ ہیں ۔ تبدیلیٔ مذہب پر کوئی روک دستور اور قانونی طور پر اس وقت نہیں لگائی جاسکتی ، جب تک یہ عمل زور زبردستی ، لالچ یا طمع کی وجہ سے نہیں کیا جاتا ۔ رضاکارانہ طور پر مذہب کی تبدیلی کسی بھی فرد کا انفرادی عمل سمجھا جاتا ہے بشرطیکہ یہ سب کچھ کسی جبر، تشدد یا دباؤ کے تحت نہ ہو ۔ گھر واپسی پروگرام کے تحت ابھی تک جو واقعات آگرہ ، علی گڑھ ، کیرالا اور چند دیگر مقامات پر سامنے آئے ہیں ، ان میں یا تو کسی مذہبی گروہ کا جذباتی و معاشی استحصال کیا گیا ہے یا پھر انہیں لالچ دیا گیا ہے ۔ تبدیلیٔ مذہب واقعات ہمارے ملک میں یوں بھی اِکاّ دکا ہی ہوتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر سیکڑوں کی تعداد میں کسی عقیدہ کو ماننے والوں کو ہندو دھرم قبول کرنے اس میں داخل ہونے کا کوئی واقعہ نہیں ملتا ۔ کون گھر واپس ہورہا ہے ، کس کی گھر واپسی ہورہی ہے اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں کیا انھوں نے فی الواقعی گھر چھوڑ دیا تھا ۔ مذہبی عقیدہ کسی کا اپنا ذاتی فعل ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں 82 فیصد آبادی ہندو ہے اس میں گھر واپسی کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے ۔ کسی نے ان کے گھر چھینے تھے ۔

ملک میں 15 فیصد (ایک محتاط اندازہ کے مطابق) مسلمان آباد ہیں اور تقریباً 2.5 فیصد عیسائی ہیں ۔ باقی غیر ہندو آبادی میں سکھ ، بدھ مت دھرم کے ماننے والے ہیں ۔ دیگر اقلیتوں کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے تناسب کو خطرہ سمجھنا نہایت درجہ احمقانہ بات ہوگی ۔ ڈھائی فیصد عیسائی15 فیصد مسلمان یا دیگر چھوٹی چھوٹی مذہبی اکائیاں کیسے ہندو دھرم کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں ایک ناقابل قبول بات ہے ۔ پھر کیوں ان تنظیموں کو یہ سوجھی کہ ’’گھر واپسی‘‘ کی تحریک چلائی جائے ۔ محض ایک غلط فہمی کی بنیاد پر کہ اکثریتی فرقہ کے وجود کو خطرہ ہے ۔ یہ سب کچھ کرنا عقل و دانش کے کسی بھی تقاضہ کو پورا نہیں کرتا ۔ ایسی نامعقول دلیل کی بنیاد پر ملک کی اقلیتوں کے تعلق سے اکثریت کو گمراہ کرنے کی اس کوشش کو فوری روکا جانا چاہئے ۔ یہ ممکن بھی ہے بشرطیکہ وزیراعظم صورتحال پر مثبت انداز میں اثر انداز ہوں ۔ ان کی خاموشی ناقابل فہم ہے ۔ صرف یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ مسٹر مودی یا تو قطعی بے بس ہیں یا پھر وہ خود بھی گھر واپسی تحریک سے متفق ہیں ۔ وہ حکومت کے سربراہ ہیں ۔ منتخبہ لیڈر ہیں ۔ انھیں 282 ارکان پارلیمان کی تائید حاصل ہے ، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی 2014 کے انتخابات میں پارٹی کی حکومت کا نہیں بلکہ ’’مودی سرکار اب کی بار‘‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ اس لئے پارٹی کی اس کامیابی کا سہرا مودی کے سر ہی ہے ۔ اتنا طاقتور عددی موقف رکھنے کے باوجود مودی کا حالات پر اثر انداز نہ ہونا ان کی کمزوری کی دلیل ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے کمزور وزرائے اعظم کی فہرست میں ان کا بھی نام شامل کیا جاسکتاہے اور اس اعزاز کے لئے وہ (مودی) کسی کو نہیں خود اپنے آپ کو ہی ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں ۔