منموہن سنگھ اور مودی ایک سکہ کے دو رخ : سی پی آئی

نئی دہلی 27 مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) سی پی آئی نے آج عوام سے کہا کہ وہ کانگریس کو اقتدار سے بیدخل کردیں اور فرقہ پرست طاقتوں کواقتدار پر آنے سے روکیں تاکہ ملک میں ایک متبادل سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوسکے ۔ پارٹی نے کہا کہ نریندر مودی اور منموہن سنگھ ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ پارٹی کے انتخابی منشور کی اجرائی عمل میں لاتے ہوئے سی پی آئی قائدین نے کہا کہ مخالف عوام معاشی پالیسیوں کو بدلا جانا چاہئے جس کے نتیجہ میں کرپشن کو فروغ مل رہا ہے ۔ پارٹی نے کہا کہ ملک کو فراغدلانہ معاشی پالیسیوں پر بے شرمی سے عمل کرتے ہوئے ایک چوراہے پر لا کھڑا کیا گیا ہے اور جو بحران پیدا ہوا ہے وہ ہر روز سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ پارٹی قائدین نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ایک طاقتور کمیونسٹ محاذ کی ضرورت ہے کیونکہ کانگریس اور بی جے پی ایک دوسرے سے راست تعاون کر رہے ہیں

تاکہ کارپوریٹ گھرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی تائید کی جاسکے ۔ سی پی آئی جنرل سکریٹری ایس سدھاکر ریڈی نے کہا کہ انتخابات کے بعد ہونے والی سیاسی مفاہمت اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ اس کے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں کی از سر نو صف بندیاں ہونگی ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل اور بعد دونوں وقت کی صورتحال میں سب سے اہم مسئلہ یہی ہوگا کہ ہم تباہ کن فراغدلانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں یا پھر ایک پروگرام پر مبنی متبادل فراہم کرتے ہیں جو موجودہ تباہ کن راستہ کو بدلے اور ایسی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں جس کے ثمرات سب میں مساوی رہیں۔

پارٹی نے کہا کہ ملک کی ہمہ جہتی اور سکیولر اقدار کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس سوال پر کہ آیا کمیونسٹ جماعتیں انتخابات کے بعد علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر کانگریس کی تائید کرسکتی ہیں یا کانگریس کی تائید حاصل کرسکتی ہیں سینئر لیڈر اے بی بردھن نے کہا کہ انتخابات کے بعد جو صورتحال پیدا ہوگی اس پر اسی وقت غور کیا جائیگا ۔ اس سے قبل ہمیں کرپٹ یو پی اے حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنا ہے اور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار پر آنے سے روکنا ہے ۔ ایک اور لیڈر گروداس داس گپتا نے کہا کہ ہم جن پر تنقیدیں کر ہرے ہیں ان کی تائید کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ سینئر لیڈر ڈی راجہ نے خواتین تحفظات بل جیسے اہم امور کی عدم تکمیل پر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات کی پالیسی کی از سر نو تدوین ضروری ہے کیونکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ یہ پالیسی خانگی شعبہ میں بھی لاگو کی جاسکے ۔ خانگی ۔ عوامی شعبہ کی شراکت داری کے ذریعہ اس رجحان کو مزید آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے ۔