منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

رشیدالدین

کجریوال کا دھرنا …لوک سبھا انتخابی مہم کا آغاز
تلنگانہ …یوپی اے کی نیت پر سوالیہ نشان

جمہوریت میں اپوزیشن جماعتوں اور عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج کرتے تو سبھی نے دیکھا ہے لیکن اگر کوئی چیف منسٹر ہی قانون شکنی کے ذریعہ دھرنا منظم کرے تو یقیناً حیرت ہوگی۔ ملک میں آزادی کے بعد سے جاری روایتی سیاسی نظام کی تبدیلی کے جذبہ کے ساتھ وجود میں آنے والی عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام نے نہ صرف سر آنکھوں پر بٹھایا بلکہ اسے اقتدار کی کرسی تک پہنچایا لیکن مقصد کی تکمیل کی راہ کس قدر کٹھن ہے، اس کا اندازہ اروند کجریوال اور ان کی ٹیم کو ہونے لگا ہے ۔ ملک میں موجود روایتی اور موروثی سیاست کے علمبردار ہرگز نہیں چاہیں گے کہ عوام اپنی طاقت کے بارے میں باشعور ہوجائیں۔ دہلی میں تشکیل حکومت کے ایک ماہ کے اندر ریاست اور مرکز کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ سیاسی حلقوں میں عام آدمی پارٹی حکومت کی برقراری کو لیکر پھر ایک بار بحث چھڑ گئی ہے لیکن جو اپنے مقصد کی تکمیل کے سلسلہ میں جنون کی حد تک آگے بڑھ جائے اسے اقتدار کی پرواہ نہیں ہوتی۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ جو میڈیا کل تک عام آدمی پارٹی اور اس کے قائدین پر وارے نیارے تھا، اسے اچانک ان میں خامی اور برائی نظر آنے لگی۔

سوال یہ ہے کہ کیا عام آدمی کے مفاد کیلئے کام کرنا جرم ہے؟ اروند کجریوال نے حکومت میں وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس پر عمل کر دکھایا ۔ روایتی سیاست کے پیرو اور اسٹابلشمنٹ فورسس نے سمجھا تھا کہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد عام آدمی قائدین بھی خاص اور وی آئی پی میں تبدیل ہوجائیں گے لیکن انہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ نو زائدہ پارٹی نے حکومت اور نظم و نسق کو حقیقی معنوں میں عوام کی دہلیز تک پہنچادیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تجربے اور تجربے کار افراد کی کمی کے باعث عام آدمی پارٹی کے بعض اقدامات اپوزیشن کو تنقید کا موقع فراہم کر رہے ہیں لیکن تنقید کے پس پردہ اقتدار سے محرومی کا احساس کارفرما ہے۔ نئی طرز حکمرانی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ نظم و نسق میں شامل عہدیدار بھی حکومت سے تعاون کریں۔ گزشتہ 60 برسوں سے بدعنوانیوں اور کرپشن کے عادی عہدیدار کیونکر کجریوال کا ساتھ دیں گے۔ آنے والے دنوں میں اگر عوامی وعدوں کی تکمیل میں حکومت ناکام ہوگی تو اس کی اہم وجہ نظم و نسق کا عدم تعاون سمجھا جائے گا۔

گزشتہ دنوں دہلی میں چیف منسٹر اروند کجریوال کے دھرنے پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں الگ الگ انداز سے تبصرہ کیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ کجریوال نے ریل بھون کے روبرو دھرنے سے لوک سبھا انتخابات کی مہم کا عملاً آغاز کردیا ہے۔ بھلے ہی دھرنے کے سبب عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی آڑ میں کانگریس اور بی جے پی نے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن عوام کی جانب سے کھلے عام ناراضگی کا اظہار نہیں کیا گیا جس کا مطلب صاف ہے کہ عوام عام آدمی پارٹی کو مزید مہلت دینے کے حق میں ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیت اور کارکردگی کو ثابت کرسکے۔ عام آدمی پارٹی دراصل عوام کے درمیان سے ہی ابھری ہے اور عوام نے اس مقام پر پہنچایا۔ لہذا کسی بھی جماعت کیلئے آسان نہیں کہ وہ اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرسکے۔ کجریوال نے جس انداز کی حکمرانی اختیار کی وہی طریقہ عوام کو پسند ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کے دفتر کو سڑک اور کابینہ کو اپنی کار تک محدود کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ شخصیت کے آگے عہدے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اروند کجریوال نے جس مسئلہ پر دھرنا منظم کیا وہ بھی عوامی مسئلہ تھا ۔ دہلی میں بڑھتے ہوئے جرائم کے تدارک میں پولیس کی بے حسی کے خلاف وہ کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چونکہ دہلی میں لاء اینڈ آرڈر مرکز کے تحت ہے لہذا وزارت داخلہ نے کارروائی سے گریز کیا ۔

اگر شیلا ڈکشٹ کی زیر قیادت کانگریس حکومت ہوتی تو شاید فوری کارروائی کی جاتی۔ 48 گھنٹے کے دھرنے کے بعد وزارت داخلہ نے بعض مطالبات کو قبول کرلیا۔ مرکز کی اس جزوی کارروائی سے اس کی انانیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کجریوال کے اس دھرنے کو سیاسی حریفوں اور میڈیا کے بعض گوشوں نے انارکی اورنراج سے تعبیر کیا ۔ آئندہ عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو خطرہ کے طور پر محسوس کرنے والی طاقتیں متحد ہوکر اسے کمزور کرنے سر جوڑ کر بیٹھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی عوام کی ہوگی یا پھر روایتی جماعتوں کی ؟ دہلی میں جرائم میں تیزی سے اضافہ اور پولیس کی ناکامی پر کجریوال، چیف منسٹر کی حیثیت سے عوام کو جواب دہ ہیں اور جب لاء اینڈ آرڈر ان کے ذمہ نہ ہوں تو ایسی صورت میں احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ دہلی ہی کیا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پولیس کے کرتوت کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کجریوال کے دھرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی جس پر عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر قانون ساز خود قانون کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو پھر عوام کا تحفظ کیسے ہوگا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے دھرنا منظم کرنا ملک کی تاریخ میں نئی بات نہیں۔ اروند کجریوال سے قبل بھی 1969 سے آج تک اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ڈسمبر 1969 ء میں مغربی بنگال کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اجئے کمار مکرجی نے احتجاج کیا تھا۔ ان کے علاوہ ٹاملناڈو میں ایم جی رام چندرن (1983) جئے للیتا جولائی (1993) اور کروناندھی (2007) میں چیف منسٹر کی حیثیت سے احتجاج کرچکے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان ، کیرالا میں اے کے انٹونی ، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی ، آندھراپردیش میں این ٹی راما راؤ اور کے روشیا، گجرات میں نریندر مودی چیف منسٹر کی حیثیت سے احتجاج میں حصہ لے چکے ہیں۔ اروند کجریوال اور ان کی حکومت کے خلاف کانگریس قائدین اور مرکزی وزراء کے بیانات انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ وزیر داخلہ جیسے ذمہ دار منصب پر فائز سشیل کمار شنڈے نے کجریوال کو پاگل قرار دیا۔ کسی نے کہا کہ حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔

چدمبرم نے عام آدمی پارٹی سے استعفے کی مانگ کی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک نہیں تو پھر کانگریس حکومت کی تائید کیوں کر رہی ہے۔ وہ اپنی تائید واپس کیوں نہیں لیتی ؟ دراصل کانگریس نے سمجھا تھا کہ مرکز میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنے میں عام آدمی پارٹی معاون ثابت ہوگی لیکن اب وہی پارٹی، کانگریس کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے ۔ اگر موجودہ حالات میں کانگریس تائید سے دستبرداری اختیار کرے تو اسی مسئلہ کو لیکر کجریوال عوام کے درمیان جائیں گے۔ کجریوال کا ہر قدم نپا تلا اور عام انتخابات کی تیاری کا حصہ ہے۔ حکومت اور نظم و نسق چلانے کا یہ انداز لوک سبھا چناؤ کا ریہرسل ہے۔ اگر عوام اسے قبول کریں تو قومی سطح پر عام آدمی پارٹی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ تیسری طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ عام آدمی پارٹی سے خوفزدہ کانگریس اور بی جے پی نے پبلسٹی مہم کیلئے اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیا ہے۔ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کے حق میں روزانہ کوئی نہ کوئی سروے منظر عام پر آرہا ہے۔

دہلی میں لاء اینڈ آرڈر کے بغیر عام آدمی حکومت کا جو حشر ہوا ، کچھ اسی طرح کی صورتحال آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد تلنگانہ ریاست میں دیکھنے کو ملے گی۔ اگر مرکزی حکومت کے فیصلہ کے مطابق تمام مراحل کی خوشگوار تکمیل ہوجائے تو تلنگانہ ریاست کی حکومت نئی دہلی حکومت کی طرح لاء اینڈ آرڈر کے بغیر ہوگی۔ جب دہلی کو ریاست کا درجہ دیا گیا تو پھر لاء اینڈ آرڈر ریاستی حکومت کے تحت کیوں نہیں ہے؟ ان حالات میں پولیس کمشنر کی اہمیت چیف منسٹر سے زیادہ رہے گی اور چیف منسٹر انہیں ہدایات نہیں دے پائیں گے۔ جس کے نتیجہ میں دہلی میں چیف منسٹر کو ہی دھرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد حیدرآباد کو 10 برسوں تک دونوں ریاستوں کے مشترکہ دارالحکومت کے طور پر رکھنے کی تجویز ہے۔ ایسی صورت میں تلنگانہ اور سیما آندھرا ریاستوں کے چیف منسٹرس حیدرآباد میں ایک پولیس کانسٹبل کو بھی کنٹرول کرنے کے موقف میں نہیں ہوں گے۔ انہیں ہر چیز کیلئے گورنر پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ان حالات میں کسی تنازعہ کی صورت میں حیدرآباد میں ایک نہیں بلکہ دو چیف منسٹرس سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر مرکزی حکومت اور کانگریس ہائی کمان کس حد تک سنجیدہ ہے ؟ تلنگانہ مسودہ بل کو صدر جمہوریہ نے اسمبلی کی رائے حاصل کرنے کیلئے 23 جنوری تک کی مہلت کے ساتھ روانہ کیا تھا لیکن لمحہ آخر میں مہلت میں ایک ہفتہ کی توسیع کردی گئی ۔ اس فیصلہ کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کی نیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مہلت میں توسیع کا فیصلہ صدر جمہوریہ نے مرکزی حکومت سے مشاورت کے بعد ہی کیا ہوگا۔ اگر مرکز تقسیم آندھراپردیش میں سنجیدہ ہوتا تو اسمبلی کو مزید مہلت نہ دی جاتی۔ تکنیکی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو تاریخ میں توسیع کی درخواست اسپیکر کی جانب سے کی جانی چاہئے تھی ۔ اس کے برخلاف چیف منسٹر کی درخواست پر صدر جمہوریہ نے ایک ہفتہ کی مہلت بڑھادی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کسی طرح 2014 ء انتخابات تک مسئلہ تلنگانہ کو ٹالنا چاہتی ہے۔ اب فروری کے پارلیمنٹ سیشن میں تلنگانہ بل کی منظوری کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور کمل ناتھ نے جس ایجنڈہ کا اعلان کیا اس میں تلنگانہ بل شامل نہیں۔ سشیل کمار شنڈے اور ڈگ وجئے سنگھ پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی کا یقین دلا رہے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بل کی پیشکشی اور اس کی منظوری میں کافی فرق ہوتا ہے۔ کئی بل پارلیمنٹ میں پیش ہوئے لیکن منظوری ان کا مقدر نہ بن سکی۔ خواتین تحفظات بل مارچ 2010 ء میں راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا لیکن لوک سبھا میں ابھی تک زیر التواء ہے۔ اب تو بی جے پی نے بھی موجودہ حالت میں بل کی تائید سے انکار کردیا۔ اگر مرکزی حکومت اور کانگریس ہائی کمان تشکیل تلنگانہ میں سنجیدہ ہوتے تو مباحث کی مہلت میں توسیع نہ دی جاتی ۔ ویسے بھی اسمبلی میں مزید مباحث کی ضرورت نہیں تھی ۔ سیاسی جماعتیں اور اس کے ارکان علاقائی اساس پر منقسم ہوچکے ہیں۔ اسمبلی میں ارکان نے اپنے موقف سے تحریری طور پر اسپیکر کو آگاہ کردیا ہے۔ اس طرح ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر تمام ارکان کا موقف بھی واضح ہوگیا۔ اس کے باوجود مہلت میں توسیع مسئلہ کو ٹالنے کیک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ دہلی میں روایتی طرز حکمرانی تبدیل کرنے اروند کجریوال کی کوشش ہو یا پھر آندھراپردیش کی تقسیم کا مسئلہ اس کیلئے عزم اور حوصلے کے ساتھ نیک نیتی ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے یہ پیام کچھ اس طرح دیا ہے ۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں